مہاراشٹر ملک کی سب سے بڑی معیشت والی ریاست ہے، لیکن برسوں سے سرکاری نوکری کی تیاری کرنے والے اس کے ہزاروں نوجوان شہری پیپر لیک یا کسی اور گھوٹالے کی وجہ سے امتحان رد ہونے کے بعد مایوس ہوکر خودکشی جیسے مہلک قدم اٹھا رہے ہیں۔
دسمبر 2023 میں مہاراشٹر ودھان بھون کے سامنے بے روزگاری اور پیپر لیک کے حوالے سے ایک مظاہرہ۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@Mpsc_Andolan)
ممبئی: اگر گنیش کالے کے دادا نہ ہوتے تو شاید آج وہ زندہ ہی نہ ہوتے۔ جنوری 2024 کی بات ہے۔ 40 سالہ کالے صبح چھ بجے اٹھے اور خاموشی سے اپنے کھیت کی طرف چل پڑے۔ ہاتھ میں جراثیم کش دوا کی بوتل لے کر گنیش اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے ہی والے تھے کہ ان کے دادا نے دیکھ لیا اور چیخنے لگے۔ کالے رک گئے اور دادا نے ان کے ہاتھ سے وہ بوتل چھین لی۔
الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کالے نے کہا، ‘میں بالکل ٹوٹ گیا تھا۔ زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہی نظر نہیں آ رہی تھی۔
کالےہندوستان کی سب سے بڑی معیشت والی ریاست مہاراشٹر کے رہنے والے ہیں، لیکن بڑی معیشت کی چمک کالے کے دیہی ضلع بیڈ تک نہیں پہنچی۔ بیڈ کسانوں کی خودکشی کی وجہ سے
سرخیوں میں رہا ہے ۔ سرکاری اندازوں کے مطابق، 2013 سے 2022 کے درمیان اس علاقے میں 26000 سے زیادہ کسانوں کی خودکشی کے واقعات ریکارڈ کیے گئے، یعنی ہر روز اوسطاً سات کسانوں نے اپنی جان لی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، مراٹھواڑہ (بیڈ اسی ڈویژن کا حصہ ہے) میں کسان فصلوں کی گرتی ہوئی قیمتوں، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں۔ اس ڈویژن میں کسان خاندانوں کی اوسط آمدنی 11492 روپے ماہانہ سےبھی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان آمدنی کے متبادل ذرائع کے بارے میں سوچنے کو مجبور ہو رہے ہیں۔
لیکن مراٹھواڑہ کے ہزاروں لوگوں کی طرح کالے بھی زرعی بحران کی وجہ سے اپنی جان نہیں لینا چاہتے تھے۔ وہ ایک امتحان کے حوالے سے کیے گئے گھوٹالے کی وجہ سے یہ قدم اٹھا رہے تھے۔
’گھوٹالے کی سیڑھی پکڑکر آگے نکل رہے ہیں لوگ‘
گہرے ہوتے زرعی بحران کے درمیان، کسان خاندانوں کے ہزاروں بچے بہتر مستقبل کی تلاش میں مختلف سرکاری نوکریوں کے لیے آن لائن امتحانات میں شرکت کر رہے ہیں۔ کلاس -1 اور کلاس -2 کی سرکاری نوکریوں کے امتحانات ریاست کی ایک اکائی کے ذریعے کروائے جاتے ہیں۔وہیں کلرک، پٹواری اور ٹیچر جیسی پوسٹوں کے لیے لوور گریڈ کے امتحانات کا ٹھیکہ نجی کمپنیوں کو دیا جاتا ہے۔
پولیس میں درج شکایتوں کے مطابق، لوور گریڈ کے امتحانات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور پیپر لیک کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔ اس لیے بااثر یا امیر لوگوں کو سرکاری نوکریاں ‘خریدنے’ کا موقع مل جا رہا ہے اور غریب امیدواروں کے لیے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
کالے کی پریشانیوں کا سبب بھی یہی ہے۔ وہ گزشتہ 10 سالوں سے کھیتی باڑی سے نکل کر سرکاری نوکری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔
کالے نے الجزیرہ کو بتایا، ‘میں خشک سالی کے شکار علاقے سے آتا ہوں، جہاں کسانوں کے لیے معاشی طور پر مستحکم ہونا بہت مشکل ہے۔ یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ لوگ گھوٹالہ کرکے آگے نکل جاتے ہیں اور میں کڑی محنت کرنے کے باوجود خالی ہاتھ بیٹھا ہوں۔’
گزشتہ سال اگست اور ستمبر میں مہاراشٹر حکومت نے ایک نجی سافٹ ویئر کمپنی کی مدد سے ریاست بھر میں پٹواری کی بھرتی کے لیے امتحان کا انعقاد کیا تھا۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے صرف 4600 آسامیوں کے لیے اپلائی کیا اور 850000 سے زیادہ لوگ امتحان میں شریک ہوئے۔
الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے مقامی سیاسی کارکن دھننجے شندے ان اعداد و شمار کے ذریعے نوجوانوں میں مایوسی کی سطح کو سمجھنے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ریاست ہر درخواست دہندہ سے 1000 روپے لیتی ہے۔ یہ رقم نان ریفنڈیبل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ریاستی حکومت ان لوگوں سے 1 بلین روپے کما لیتی ہے جو بنیادی طور پر بہت غریب خاندانوں سے آتے ہیں۔’
کالے نے پچھلے آٹھ سالوں میں تین درجن سے زیادہ بھرتی امتحانات کے لیے فارم بھرنے میں تقریباً 40000 روپے خرچ کیے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، ‘میرے پیسے کون واپس دے گا؟’ جس امتحان کے لیے آپ ہم سے پیسے لے رہے ہیں، کم از کم اسے منصفانہ طریقے سے توکروائیے۔’
قابل ذکر ہے کہ 2023 میں مہاراشٹر کے کم از کم سات اضلاع – ناسک، احمد نگر، وردھا، امراوتی، سانگلی، لاتور اور اورنگ آباد سے پیپر لیک اور دھوکہ دہی کے معاملے سامنےآئے۔ الجزیرہ کے پاس ہر ضلع میں پولیس کی طرف سے درج ایف آئی آر کی کاپیاں موجود ہیں۔ ایف آئی آر درج کرنے کا مطلب ہے کہ پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ جرم ہوا ہے۔
بتادیں کہ 29 اگست 2023 کو لاتور میں دو امیدواروں نے پٹواری (ولیج اکاؤنٹنٹ کے لیے)آن لائن امتحان پاس کیا تھا۔ مارچ 2024 میں درج ایف آئی آر کے مطابق، ان میں سے ایک نے قبول کیا کہ اس نے امتحان میں نقل کرنے کے لیے ایک شخص کو 27 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔
جب امیدوار نے امتحان دینے کے لیے اپنے کمپیوٹر میں لاگ ان کیا تو اسے اپنی اسکرین پر دو کرسر ملے۔ ایک اس کا اپنا اور دوسرا اس باہری شخص کا جس کےپاس اس کے کمپیوٹر تک ریموٹ ایکسس تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی دوسرے مقام پر بیٹھا کوئی شخص ان کی اسکرین کو دیکھ سکتا ہے اور امیدوار کو صرف ان جوابات کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جن کی طرف دوسرا کرسر اشارہ کر رہا ہے۔
اسی مہینے میں پولیس نے ناسک میں ایک ملزم کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے پاس سے برآمد ہونے والی الکٹرانک ٹیبلیٹ کی جانچ کی گئی۔ اس ٹیبلیٹ میں اس وقت چل رہے پٹوری امتحان کے سوالنامے کی 186 تصاویر تھیں۔ پولیس نے بتایا کہ وہ بلیو ٹوتھ اور اسپائی کیمروں کی مدد سے اگزام سینٹر میں بیٹھے کچھ امیدواروں کو جواب بتا رہا تھا۔
مہاراشٹرا پولیس نے 2021 اور 2022 میں بھی گرفتار شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ اس وقت اس پر ریاستی پولیس اور ہاؤسنگ محکموں کے بھرتی امتحانات کے پیپر لیک کرنے کے الزام لگے تھے۔ لیکن پھر وہ فرار ہوگیا تھا۔ ناسک شہر کے مہاسرل تھانے کے انسپکٹر سبھاش دھولے نے بتایا کہ اب وہ ضمانت پر باہر ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق، فروری میں امراوتی میں ایک اور شخص کو ریاست کے سوائل اینڈ واٹر کنزرویشن ڈپارٹمنٹ میں کلرک کے عہدوں کے لیے پوچھے جانےوالے 100 سوالوں کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، امتحان کروانے کے لیے جس پرائیویٹ فرم کو ٹھیکہ دیا گیا تھا، اس کے تین ملازمین کو بھی پیپر لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اسی طرح 6 ستمبر 2023 کو اورنگ آباد میں پولیس نے چار لوگوں کو ایک اگزام سینٹر کے باہر مشتبہ انداز میں بات کرتے دیکھا۔ پولیس نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا۔ باقی سب فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق، پولیس نے گرفتار شخص کے موبائل فون کی جانچ کی اور اس میں ٹیلی گرام ایپ سے شیئر کیے جا رہے 34 سوال پائے۔
سیاسی کارکن شندے کہتے ہیں،’یہ صرف ایسی مثالیں ہیں جہاں لوگوں کو پکڑا گیا ہے۔ یہ لیڈروں کے قریبی لوگوں کو نوکریاں دلانے کا ایک ریکٹ ہے۔ یہاں ریاست مستحق امیدواروں کو نظرانداز کرنے میں ملوث ہے۔ اس کا ان کی (امیدواروں) کی ذہنی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔’
کالے نے ستمبر کا امتحان اورنگ آباد میں دیا تھا، جو ان کے آبائی شہر سے تقریباً 125 کلومیٹر دور ہے۔ کالے نے بھرتی کے زیادہ تر امتحانات اورنگ آباد میں ہی دیے ہیں۔ انہوں نے الجزیرہ کو بتایا، ‘میرے خاندان اور رشتہ دار مسلسل پوچھ رہے تھے کہ کیا مجھے کبھی نوکری ملے گی؟ میں اپنے آپ کو ہی مجرم اور نالائق سمجھنے لگا۔ میں اس ڈپریشن کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکا۔ اگر میرے دادا نے اس دن مجھے نہ روکا ہوتا تو آج میں آپ سے بات نہیں کر رہا ہوتا۔’
کئی امیدواروں نےگنوائی جان
اپریل 2022 میں وردھا ضلع کے ایک 20 سالہ امیدوار نے خودکشی کر لی تھی۔ اس کے بعد میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کی موت کی وجہ مقابلہ جاتی امتحانات میں بدعنوانی، پیپر لیک اور نتائج کے اعلان میں تاخیر تھی۔
پانچ سال کوشش کرنے کے باوجود سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہیں41 سالہ نہاریکا (تبدیل شدہ نام) نے الجزیرہ کو بتایا، ‘کوشش جاری رکھنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔’
نہاریکا کی پیدائش ستارہ ضلع کے ایک چھوٹے کسان خاندان میں ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ 112 کلومیٹر دور پونے شفٹ ہو گئیں۔ خاندان اور بچوں کی پرورش کو 15-20 سال دیے۔ 36 سال کی عمر میں دوبارہ پڑھائی شروع کی۔ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ لگاتارسرکاری بھرتیوں کے امتحانات بھی دیتی رہی ہیں، جن میں بار بار پیپر لیک کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ایک خاتون ہونے کے ناطے میں مالی طور پر خود مختار ہونے کی اہمیت کو سمجھتی ہوں۔ فی الحال، خاندان میں واحد کمانے والے میرے شوہر ہیں، جو ایک پرائیویٹ لیب میں کام کرتے ہیں۔ میں ان کی ذمہ داری بانٹنا چاہتی ہوں۔’
ریاستی بھرتی امتحانات میں بدعنوانی کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے کئی درجن امیدواروں نے سال 2018 میں ‘اسپردھا پریکشا سمنویہ سمیتی ‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا تھا۔ شندے اور گروپ نے گزشتہ ستمبر میں بمبئی ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) دائر کی تھی جس میں 4600 پٹواری کی تقرری کو رد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ بھرتی کے عمل میں دھوکہ دہی کے کئی معاملات سامنے آئے تھے۔
پی آئی ایل کی عرضی میں بھرتی کے امتحانات کو پرائیویٹ کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کے بجائے مہاراشٹر حکومت کے ذریعے کروانے کی درخواست کی گئی ہے۔ درخواست گزاروں کا خیال ہے کہ 2017 میں ایک امریکی آئی ٹی کمپنی اور ایک ہندوستانی کمپنی کو ٹیسٹ کرانے کا ٹھیکہ دینے کے بعد فراڈ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ہائی کورٹ میں پی آئی ایل داخل ہوئے چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک اس معاملے میں کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔
جنوری 2024 میں پٹواری بھرتی امتحان میں بے ضابطگیوں کے خلاف بیڈ میں ہوا ایک مظاہرہ ۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@Mpsc_Andolan)
ریاست گیر گھوٹالہ اور بی جے پی حکومت
مہاراشٹر میں 2017 اور 2019 کے درمیان 25000 لوور گریڈ کی آسامیاں پُر کی گئیں، ان آسامیوں کے لیے 35 لاکھ امیدواروں نے امتحان دیے تھے۔
احمد نگر میں حکام نے ریونیو افسران کے عہدوں کے لیے امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرتے ہوئے پایا کہ بہت سے درخواست دہندگان نے مبینہ طور پر ڈمی امیدواروں کی مدد سے امتحان پاس کیا تھا۔ ضلع انتظامیہ نے 12 صفحات کی رپورٹ تیار کر کے ریاستی حکومت کو بھیجی۔ حکومت نے ‘پرائس واٹر ہاؤس کوپرز’ (پی ڈبلیو سی) کے ذریعے کرائے گئے ٹیسٹ کے فوری آڈٹ کا حکم دیا۔
پی ڈبلیو سی آڈٹ میں مہاراشٹر حکومت کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ (جی اے ڈی) کے ذریعے منعقدہ امتحانات میں ریاست گیر گھوٹالے کا انکشاف ہوا۔ تب اس وزارت کی ذمہ داری اس وقت کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے پاس تھی جو اس وقت ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ ہیں۔
سال 2017 میں بطور سی ایم دیویندر فڈنویس نے آن لائن امتحانات کے انعقاد کے لیے مہا-آئی ٹی نام سے ایک یونٹ قائم کیا تھا۔پی ڈبلیو سی آڈٹ میں پایا گیا کہ مہا- آئی ٹی نے منصفانہ امتحان کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے تھے۔ اس میں نگراں کی تقرری میں بے ضابطگی، اگزام ہال میں امیدواروں کے بیٹھنے کی پوزیشنوں میں فرق اور یہاں تک کہ اگزام ہال میں سکیورٹی اہلکاروں کی غیر موجودگی کا انکشاف ہوا، جس کی وجہ سے نقل اور پیپر لیک ہوئے۔
الجزیرہ نے اس معاملے سے متعلق سوالات فڈنویس اور ان کے میڈیا مشیر کیتن پاٹھک کو بھیجے ہیں، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
فڈنویس کی قیادت والی بی جے پی حکومت نومبر 2019 میں گر گئی۔ اس کے بعد تین پارٹیوں (شیو سینا، کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی) نے مل کر حکومت بنائی۔ نئی حکومت کی قیادت ادھو ٹھاکرے نے کی۔ اگرچہ ٹھاکرے حکومت نے پی ڈبلیو سی آڈٹ کی تعمیل نہیں کی، انہوں نے مہا -آئی ٹی کو تحلیل کر دیا اور فرم کے ذریعے لاگو کیے گئے امتحان کے عمل کو بھی رد کر دیا۔
نئی حکومت نے امتحان کرانے کا ٹھیکہ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز (ٹی سی ایس) اور وزارت خزانہ کے تحت کام کرنے والی ایک بھرتی ایجنسی ‘انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ پرسنل سلیکشن’، کو دیا۔ تاہم ٹھاکرے حکومت کے دوران بھی پیپر لیک کا سلسلہ جاری رہا۔
الجزیرہ نے گھوٹالے کے الزامات سے متعلق سوالات کی ایک فہرست ٹی سی ایس کو بھیجی ہے، لیکن کوئی جواب نہیں آیا ہے۔
جون 2022 میں شیوسینا کے 40 ایم ایل اے کی بغاوت کی وجہ سے ٹھاکرے حکومت گر گئی۔ الگ ہوئے شیوسینا ایم ایل اے کی مدد سے فڈنویس نائب وزیر اعلیٰ کے طور پر دوبارہ اقتدار میں آگئے۔
پچھلے سال گنیش کالے جن نئے گھوٹالوں کا شکار بنے وہ موجودہ حکومت کے دوران ہی ہوئے ہیں۔
ریاست میں بھرتی کے امتحانات کو سنبھالنے والے دو سینئر نوکر شاہوں نے کئی فون کال کے باوجود تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ محکمہ ریونیو کے چیف سکریٹری راجیش کمار نے پیغامات اور فون کال کا جواب نہیں دیا۔
ریونیو ڈپارٹمنٹ کی ریاستی ڈائریکٹر سریتا نارکے نے فون کال کاٹ دیا اور رپورٹر کو کال کے مقصد کے بارے میں پیغام بھیجنے کو کہا۔ پیغام بھیجنے پر کوئی جواب نہیں آیا۔
اس سال جنوری میں فڈنویس نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ اگست اور ستمبر 2023 میں پٹواری کا امتحان شفافیت کے ساتھ منعقد کیا گیا تھا۔ اگر بے ضابطگیوں کا کوئی ثبوت ہے تو حکومت تحقیقات کرے گی۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، انہوں نے کہا تھا کہ ‘اگر ثبوت صحیح ہیں تو امتحان کو رد کر دیا جائے گا اور مجرموں کو سزا دی جائے گی۔’
تقریباً اسی وقت مہاراشٹر کے وزیر ریونیو رادھا کرشنا وکھے پاٹل نے کہا کہ امتحان میں مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگانے والوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا، انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پٹواری کی بھرتی کے لیے منعقدکیے گئے امتحانات منصفانہ تھے۔
تاہم، اسپردھا پریکشا سمنویہ سمیتی کے بانیوں میں سے ایک نیلیش گائیکواڑ نے سوال اٹھایا ہے، ‘ دھوکہ دہی کے الزامات کے باوجود 2017 سے 2019 کے درمیان سرکاری نوکری حاصل کرنے والے ہزاروں لوگ سروس میں کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیا ان تقرریوں کو رد کرکے دوبارہ امتحان نہیں لیا جانا چاہیے؟ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو آن لائن امتحان کے انعقاد کا ڈرامہ بند کریں اور براہ راست آسامیوں کے لیے بولی لگا دیا کریں۔’
جیسا کہ حال ہی میں ختم ہونے والے پٹواری کے امتحانات میں دیکھا گیا ہے، بے ضابطگیاں اب بھی جاری ہیں۔ اپنے خاندانوں کو غربت سے نکالنے کی کوشش کرنے والے امیدوار پریشان ہیں۔
کالے نے الجزیرہ کو بتایا، ‘ہمارے حالات اتنے خراب ہیں کہ کوئی بھی کسان خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اگر ریاستی حکومت نے امتحان کو منصفانہ طریقے سے کرایا ہوتا تو مجھے نوکری مل جاتی۔ نوکری ہوتی تو شادی ہو چکی ہوتی۔ میرا ایک خاندان ہوتا۔’
‘اگر خاندان کے ایک فرد کے پاس بھی نوکری ہو تو گھر چلتا رہتا ہے۔ کم از کم ہمیں دو جون کی روٹی ملتی رہتی ہے، جو اب کھیتی باڑی سے ممکن نہیں ہے،’ وہ مزید کہتے ہیں۔
(یہ رپورٹ الجزیرہ انگریزی میں شائع ہوئی ہے۔)
(اس سیریز کی تمام رپورٹس پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )