مہاراشٹر کے اکولا کی ایک خصوصی عدالت نے تین لوگوں کو دہشت گردی کے الزامات سے بری کرتے ہوئے کہا کہ صرف ‘جہاد ‘ لفظ کا استعمال کرنے پر کسی کو دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔
نئی دہلی : مہاراشٹر کے اکولا کی ایک خصوصی عدالت نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کئے گئے تین نو جوانوں کو بری کرتے ہوئے کہا کہ صرف ‘جہاد’لفظ کا استعمال کرنے بھر سے کسی کو دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سلیم ملک (29)، شعیب خان (29) اور عبدالمالک (24) کو 25 ستمبر 2015 کو بقرعید کے موقع پر پوسد کی مسجد کے باہر ریاست میں بیف بین کو لےکر پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔اے ٹی ایس کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلم نوجوانوں کو متاثر کرکے دہشت گرد تنظیم میں شامل کرنے کی سازش کا حصہ تھا۔
تینوں کو ان الزامات سے بری کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے جج اے ایس جادھو نے اپنے 21 مئی کے حکم میں کہا، ‘ ڈکشنری کے مطابق، ‘ جہاد ‘ کا لغوی معنی ‘ جدو جہد ‘ ہوتا ہے۔ جہاد ایک عربی کا لفظ ہے، جس کا معنی ‘ کوشش یا جدو جہد کرنا ‘ ہوتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق جہاد کا تیسرا معنی ایک اچھا سماج بنانے کے لئے جدو جہد کرنا ہوتا ہے۔ جہاد سے جڑے لفظ مہم، انتظامیہ، تحریک، کوشش اور جہاد ہیں۔ اس لئے ملزم کے ذریعے صرف جہاد لفظ کے استعمال کی بنیاد پر اس کو دہشت گرد کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ ‘عبدل کو ‘جان بوجھ کر پولیس اہلکاروں کو چوٹ پہنچانے ‘کے لئے تین سال کی سزا ملی تھی۔ کیونکہ وہ 25 ستمبر 2015 سے جیل میں تھا اور تین سال جیل میں گزار چکا تھا، اس کو بھی رہا کر دیا گیا۔
عدالت نے کہا، ‘ایسا دکھتا ہے کہ ملزم نمبر 1 (عبدل) نے حکومت اور ہندو تنظیموں کے ذریعے گئوکشی پر پابندی لگانے کے خلاف اپنے غصے کو تشدد کے طور پر ظاہرکیا۔ اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ اس نے ‘جہاد’لفظ کا استعمال کیا ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ محض اس لفظ کے استعمال سے اس کو دہشت گرد قراردینا چاہیے، بےحد جوکھم بھرا ہے۔ ‘استغاثہ کا کہنا تھا کہ عبدل مسجد میں پہنچا، چاقو نکالا اور کام پر تعینات دو پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا۔ حملے سے پہلے اس نے کہا کہ بیف بین کی وجہ سے وہ پولیس والوں کو مار دےگا۔ حالانکہ عبدل نے اس سے انکار کیا تھا۔عدالت نے اس بارے میں زخمی پولیس اہلکاروں اور باقی پولیس اہلکاروں کے بیان پر اعتماد کیا، عدالت کا کہنا تھا کہ صرف اس لئے کہ وہ پولیس اہلکار ہیں، ان کے بیان کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔
عبدل کے وکیلوں کا دعویٰ تھا کہ پولیس اہلکاروں کے بیان میں گڑبڑی تھی۔ حالانکہ عدالت نے مانا کہ موقع واردات پر ملزم کی موجودگی کے ثبوت ہیں۔ لیکن اس نے یہ ماننے سے منع کردیا کہ عبدل کو قتل کی کوشش کا قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، جیسا کہ پولیس کے ذریعے کہا گیا، کیونکہ زخمی پولیس والے کو کسی’اہم ‘ عضو پر کوئی چوٹیں نہیں آئی تھی۔اے ٹی ایس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اپنے اقبالیہ بیان میں عبدل نے شعیب اور سلیم کا نام لیا تھا۔ اے ٹی ایس کا دعویٰ تھا کہ ان دونوں نے عبدل اور کچھ نوجوانوں کو ‘جہاد ‘کے لئے متاثر کیا، خفیہ میٹنگ کیں اور نفرت بھرے تقریر کئے۔ لیکن عدالت نے مانا کہ یہ اقبالیہ بیان’اختیاری’نہیں تھا۔عدالت نے مانا کہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عبدل نے پولیس حراست میں 25 دن رہنے کے بعد اقبالیہ بیان دینے کی خواہش ظاہر کی تھی اور اس کو کوئی قانونی مدد نہیں دی گئی۔ عدالت نے کہا کہ اس بات پر ‘ کوئی شک نہیں ہے ‘ کہ ملزم پولیس کی ناک کے نیچے تھا تب اس کا بیان درج کیا گیا۔
اے ٹی ایس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ عبدل ایک’فرینڈس فارایور’نام کے وہاٹساایپ گروپ کا حصہ تھا، جہاں’جہاد ‘ کی آڈیو کلپس شیئر کی گئی تھیں۔ حالانکہ جب اس گروپ کے پانچ دیگر ممبروں کے بھی بیان ریکارڈ کئے گئے، تب انہوں نے استغاثہ کے اس دعویٰ کی حمایت نہیں کی تھی۔