مدراس ہائی کورٹ نے ریاست کے اسکولوں کے نام سے ‘آدی واسی’ لفظ کو ہٹانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اسکول کے نام ساتھ کمیونٹی کا نام جوڑنے سے وہاں پڑھنے والے بچوں پر اثر ضرور پڑے گا۔
مدراس ہائی کورٹ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@Chennaiungalkaiyil)
نئی دہلی: مدراس ہائی کورٹ نے جمعہ (26 جولائی) کو تمل ناڈو کے سرکاری اسکولوں کے حوالے سے ایک اہم ہدایت دیتے ہوئے ریاستی حکومت کے چیف سکریٹری سے کہا کہ وہ تمام سرکاری اسکولوں کے نام سے برادری اور ذات کے نام کو ہٹانے کے لیے مناسب کارروائی شروع کریں۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ،یہ حکم دیتے ہوئے جسٹس ایس ایم سبرامنیم اور جسٹس سی کمارپن کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ ان کے نوٹس میں لایا گیا ہے کہ کلورائن پہاڑیوں میں ‘سرکاری آدی واسی آواسیہ اسکول’ کے نام سے سرکاری اسکول چلائے جا رہے ہیں۔اس طرح سرکاری اسکول کے نام کے ساتھ ’آدی واسی ‘ لفظ کا استعمال درست نہیں ہے۔
بنچ نے مزید کہا کہ اسکول کے نام کے ساتھ کمیونٹی کا نام جوڑنے سے وہاں پڑھنے والے بچوں پر ضرور اثر پڑے گا۔ انہیں یہ احساس ہوگا کہ وہ ایک’آدی واسی اسکول’ میں پڑھ رہے ہیں، نہ کہ کسی ایسے ادارے میں جہاں آس پاس کے دوسرے بچے بھی پڑھتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ عدالتیں اور حکومت کسی بھی حالت میں بچوں کی تذلیل کی اجازت نہیں دے سکتے۔
بنچ نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ جہاں کہیں بھی ایسے ناموں کا استعمال کسی خاص برادری/ذات کی نشاندہی کے لیے کیے جاتے ہیں، انہیں ہٹا دیا جانا چاہیے اور اداروں کا نام ‘سرکاری اسکول’ رکھا جانا چاہیے۔ اس علاقے میں رہنے والے بچوں کو تعلیم جاری رکھنے کے لیے وہاں داخلہ دیا جانا چاہیے۔
بنچ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ 21ویں صدی میں بھی حکومت اپنے اسکولوں میں ایسے الفاظ کے استعمال کی اجازت دے رہی ہے، جو عوام کے پیسے سے چلائے جارہے ہیں۔
ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا کہ سماجی انصاف میں ایک سرکردہ ریاست ہونے کے ناطے تمل ناڈو سرکاری اسکولوں یا کسی سرکاری ادارے کے نام میں ‘سابقہ’ یا ‘لاحقہ’ کے طور پر کسی نامناسب لفظ کو شامل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ تمل ناڈو حکومت کے چیف سکریٹری کو اس سلسلے میں مناسب کارروائی شروع کرنی ہوگی۔
معلوم ہو کہ عدالت
کلاکریچی زہریلی شراب کے سانحہ کے بعد شروع کی گئی ازخود کارروائی پر مزید عبوری احکامات جاری کر رہی ہے ۔ شراب کے اس سانحے میں تقریباً 65 لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔
اس معاملے میں مدراس ہائی کورٹ نے اس سانحہ کے لیے تمل ناڈو حکومت کی سرزنش کی تھی اور اسے اس معاملے میں لوگوں کی موت کے بعد اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیل کے ساتھ رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے بعد عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ کلاکریچی کے واقعے سے چند ہفتے قبل مقامی اخبارات اور ایک یوٹیوبر نے اس علاقے میں غیر قانونی شراب دستیاب کرائے جانے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔