یہ مبینہ واقعہ مدھیہ پردیش میں اجین کتاب میلے کے دوران پیش آیا۔ کتاب میلے میں ایک خاتون کا ہاتھ پکڑنے اور اس کا نمبر مانگنے کے الزام میں دائیں بازو کی ہندو تنظیم درگا واہنی کے ارکان نے ملزم کے ساتھ مار پیٹ کی۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے میلے میں ا سٹال لگا رکھا تھا۔ پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مدھیہ پردیش میں اجین کتاب میلے کے دوران ایک خاتون کا ہاتھ پکڑنے اور ان کا موبائل نمبر مانگنے کے الزام میں ‘درگا واہنی’ نامی ہندو دائیں بازو کے گروپ کے ارکان کی جانب سے احمدیہ مسلم کمیونٹی کے ایک شخص پر حملہ کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ پولیس نے اس سلسلے میں کیس درج کرلیا ہے۔
پنجاب کے گورداسپور کے رہنے والے ویرک سلیم نے یکم ستمبر سے شروع ہونے والے اُجین کتاب میلے میں کتابوں کا اسٹال لگایا تھا۔ درگا واہنی سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین نےان پرموبائل فون نمبر مانگنے کا الزام لگایا اور گزشتہ سوموار (4 ستمبر) کو ان کے ساتھ مارپیٹ کی ۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، حملے کے29 سیکنڈ کے مبینہ ویڈیو میں سلیم مردوں اور عورتوں کے ایک گروپ سے گھرے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ خواتین نے سلیم پر نمبر لینے کا الزام لگاتے ہوئے کئی بار تھپڑ مارے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جیسے ہی وہ زمین پر بیٹھتے ہیں، ایک شخص انہیں لات مارتا ہے۔
اجین پولیس نے بتایاکہ ملزم سلیم کے خلاف مادھو نگر تھانے میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 354 (خاتون کے وقار کو مجروح کرنے کے ارادے سے حملہ یا مجرمانہ طور پر طاقت کا استعمال) اور 506 (مجرمانہ طور پردھمکی دینے کے لیے سزا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اجین میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے کہا کہ درگا واہنی کی خواتین کا ایک گروپ 3 ستمبر کی شام تقریباً 7:30 بجے کتاب میلے میں آیا اور اس نے سلیم کو ‘کچھ مشتبہ کتابیں فروخت کرتے ہوئے’ دیکھا۔
وی ایچ پی کے ضلع صدر (اجین) انکت چوبے نے کہا، ‘درگا واہنی کے ایک رکن نے اس شخص کو قابل اعتراض کتابیں بیچتے ہوئے دیکھا۔ اس کی اطلاع وی ایچ پی کو دی گئی اور نائب صدر ریتو کپور کی قیادت میں ایک وفد نے اسٹال کا دورہ کیا اور الزامات کی تصدیق کے بعد مداخلت کی۔
شکایت کنندہ، ایک 23 سالہ خاتون نے الزام لگایا کہ سلیم نے ان سے دوستی کرنے کو کہا تھااور جب وہ اس سے کتاب میلے میں ملیں تو اس نے ‘برے ارادے سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا’۔
ایک پولیس افسر نے کہا، ‘شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ جب انہوں نے ملزم سے کچھ کتابیں دکھانے کو کہا تو انہوں نے ان کا نام پوچھا اور پھر انہیں کچھ اچھی کتابیں دینے کا وعدہ کرتے ہوئے انہیں اپنا دوست بننے کو کہا۔ پھر اس نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا، جس کے بعد شکایت کنندہ نے اسے مارا اور چیخنے لگی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے، ‘شوروغل سن کر کچھ لوگ بک اسٹال پر جمع ہو گئے۔ فرار ہونے سے پہلے ملزم نے مبینہ طور پر خاتون کو دھمکی دی کہ اگر اس نے واقعے کے بارے میں کسی کو بتایا تو وہ جان سے مار دے گا۔
تاہم سلیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اس کیس میں پھنسایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں اپنے اسٹال پر تھا۔ وہ آئے ، پتہ نہیں کس پلان کے ساتھ آئے ۔ انہوں نے کچھ کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ پھر، انہوں نے مجھ سے قرآن کے ہندی ایڈیشن کی ایک کاپی مانگی۔ میں نے کہا کہ میرے پاس اس کی کاپی نہیں ہے اور میں نے ان سے کہا کہ وہ اسے آن لائن آرڈر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مجھے یہ کہتے ہوئے اپنا نمبر دیا کہ وہ سکول ٹیچر ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘اگرآپ کچھ اور سمجھتے ہیں تو مجھے تھانے لے جا کر تفتیش کریں۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی کسی کے بارے میں برا نہیں سوچتا۔ ہم سب کا احترام کرتے ہیں۔ اگر میری بہنوں نے کچھ اور سوچا ہوگاتو میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں۔’