سویڈن کے ایک ٹی وی چینل کےمطابق2017 کے اواخر میں بس بنانے والی کمپنی سکینیا کے آڈیٹرس کوکمپنی کے ذریعے ہندوستان کے مرکزی وزیر برائے روڈ ٹرانسپورٹ و قومی شاہراہ کو تحفہ کے طور پر ایک لگزری بس دینے کے اشارے ملے تھے۔ مرکزی وزیر نتن گڈکری کے دفتر نے الزامات کوخارج کرتے ہوئے انہیں متعصب، فرضی اور بے بنیاد بتایا ہے۔
نئی دہلی: سویڈش میڈیا کی ایک جانچ نے بس بنانے والی کمپنی سکینیا اور ایک نامعلوم ہندوستانی کمپنی کے بیچ مبینہ لین دین پر سوال اٹھائے ہیں، جس کا ممکنہ طور پرمرکزی وزیر برائے روڈ ٹرانسپورٹ و قومی شاہراہ نتن گڈکری کی فیملی سے نزدیکی رشتہ ہے۔
میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس مبینہ لین دین پر پہلی بار سکینیا کی طرف سے کی گئی کمپنی کی ایک انٹرنل جانچ میں سوال اٹھایا گیا تھا، جو ممکنہ: ‘کوڈ پرو کوو’(فائدہ پہنچانے کے مقصد سے لین دین)کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔
سویڈش نیوز چینل ایس وی ٹی نوٹس کی رپورٹ کے مطابق، 2017 کے اواخر میں سکینیا کےآدیٹرس کو اشارے ملے کہ سکینیا نے ہندوستان کے مرکزی وزیر برائے روڈ ٹرانسپورٹ و قومی شاہراہ کو تحفہ کے طور پرخاص طریقے سے ڈیزائن کی گئی لگزری بس دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، ذرائع نے سکینیا کے مالک جرمن بس ساز واکس ویگن کو بھی جانکاری دی کہ بس ہندوستان میں ایک اسائنمنٹ پانے کے مقصد سے ایک ہندوستانی وزیر کو تحفہ تھا۔میڈیا جانچ جرمن براڈکاسٹر زیڈڈی ایف کی مدد سے شائع ہوئی ہے۔ دی وائرآزادانہ طور پر ان دعووں کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔
لگزری بس کی جانکاری
ایس وی ٹی کی رپورٹ کے مطابق، مبینہ طور پر گڈکری کا یہ معاملہ 2016 کے اواخر میں ہوا تھا جب ایک لگزری بس ایک نجی سکینیافروخت کرنے والےیا ڈیلر کے توسط سے بیچی گئی تھی، جس نے بدلے میں گڈکری کے بیٹوں سے وابستہ کمپنی کو بس بیچی یا پٹے پر دی تھی۔
مبینہ طور پر اس بس کا استعمال وزیرکی بیٹی کی شادی میں کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس دعوے کو گڈکری کے دفتر نے میڈیا کےتخیل کا ایک اندازہ بتایا ہے۔
سال 2016 کی میڈیا رپورٹس سے اشارے ملتے ہیں کہ گڈکری کے گھرکی شادی عالیشان تھی اور مہمانوں کو لے جانے کے لیے 50 چارٹرڈ طیاروں کا استعمال کیا گیا تھا۔ حالانکہ،وزیر کے دفتر نے اس دعوے کو بے بنیادقرار دیا ہے۔
ایس وی ٹی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا، پیسے کا ذمہ واکس ویگن کی مالیاتی کمپنی نے سنبھالا تھا۔اس میں آگے کہا گیا کہ سکینیا کے سی ای او نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گڈکری سے متعلق کمپنی نے جوادائیگی نہیں کی، اس کا ایک حصہ کمپنی (سکینیا)نے واکس ویگن کو واپس کیا۔
انٹرنل جانچ میں شامل افراد کے مطابق، بس کی مالی اعانت اور ملکیت کے بارے میں ابھی بھی وضاحت کا فقدان ہے۔ جب ایس وی ٹی اور زیڈڈی ایف نے بس کے بارے میں پوچھا، تو سکینیا کو واضح کرنے میں دشواری ہوئی کہ بس اب کہاں ہے اور اصل میں اس کا مالک کون ہے۔
گڈکری نے الزامات سے انکار کیا
د ی وائر کی جانب سے بھیجے گئے ایک سوالنامہ کے جواب میں گڈکری کے دفتر نے ان الزامات کو خارج کیا کہ ان کی فیملی سے متعلق کسی کمپنی کو کوئی بس ملی ہے۔دفتر نے کہا کہ یہ الزام متعصب ، فرضی اور بے بنیاد ہیں۔بیان میں کہا گیا، ‘گڈکری اور ان کی فیملی کا بس کی خریداری یا بکری سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ نہ ہی ان کا کسی فرم یا فرد سے کوئی لینا دینا ہے، جو بس کی خریداری یا بکری سے جڑا ہو۔’
اس میں آگے کہا گیا، ‘نتن گڈکری ہندوستان میں گرین پبلک ٹرانسپورٹ لانے کی اپنی مہم کے ایک حصہ کے طور پر ناگپور میں سکینیا کے اتھینال سے چلنے والی بس شروع کرنے میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے ناگپور میونسپل کارپوریشن کو ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کے لیےان کی حوصلہ افزائی کی اور ناگپور میونسپل باڈی نے سویڈش کمپنی کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ پردستخط کیے۔ اس طرح، سکینیا کے اتھینال سے چلنے والی بسیں ناگپور میں چلنے لگیں۔ یہ خالصتاًناگپور میونسپل باڈی اور سویڈش بس کمپنیوں کے بیچ ایک تجارتی معاہدہ تھا اور گڈکری اور ان کی فیملی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔’
وزیر کے دفتر نے یہ بھی کہا کہ نتن گڈکری اور ان کی فیملی کا نام گھسیٹنے کی کوشش انتہائی شرمناک ہے اوروزیر کو بدنام کرنے کے لیے ایک مذموم اورمتعصب مہم کا حصہ ہے۔بیان میں کہا گیا، ‘چونکہ سکینیا بس کا پورا معاملہ سویڈش کمپنی کا انٹرنل معاملہ ہے، اس لیے میڈیا کے لیےبہتر ہوگا کہ وہ معاملے کو ہینڈل کرنے والے سکینیا انڈیا کے بیان کا انتظار کرے۔’
پولیس کی کوئی شمولیت نہیں
سکینیا کی انٹرنل جانچ نے بڑے پیمانے پران شواہد کو بھی پیش کیا کہ ہندوستان میں اس کے ملازم اور فروخت کرنے والےیا نجی ڈیلرمقامی ہندوستانی سرکاری عہدیداروں کو رشوت دینے میں شامل تھے۔اس سے پہلے سکینیا کے ایک ترجمان نے رائٹرس کو بتایا،2017 میں سکینیاکی جانب سے شروع کی گئی جانچ میں سینئر مینجمنٹ سمیت ملازمین کی جانب سے سنگین کمیوں کو دکھایا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا، ‘اس بدانتظامی میں مبینہ طور پر رشوت خوری، کاروباری پارٹنرس کے توسط سے رشوت خوری اور غلط بیانی شامل تھی۔’حالانکہ،ترجمان نے آگے کہا کہ غلط کام کی اس کی جانچ میں پولیس شامل نہیں تھی اور یہ کہ مقدمے کے لیے ثبوت بہت مضبوط نہیں تھے۔
ترجمان نے کہا، ‘جبکہ ثبوت سکینیا کے اپنےبزنس کوڈ کی تعمیل میں خلاف ورزیوں کو ثابت کرنے کے لیےکافی ہیں کہ کمپنی اپنے مطابق سخت قدم اٹھا سکے لیکن مقدمے کے لیے ثبوت بہت مضبوط نہیں ہیں۔’رائٹرس کے مطابق ، سکینیا نے تب سے ہندوستانی بازار میں سٹی بسوں کو بیچنا بند کر دیا تھا اور وہاں قائم ہونے والی فیکٹری کو بند کر دیا گیا تھا۔
بتا دیں کہ اس سے پہلے 1980کی دہائی میں ہندوستان کو بوفورس توپ کی فروخت میں بدعنوانی کے الزامات پر سویڈش ریڈیو کی ایک رپورٹ نے ایک خطرناک سیاسی تنازعہ پیدا کیا تھا، جو آخرکار1989 کے لوک سبھا انتخاب میں راجیو گاندھی سرکار کی ہار کی وجہ بنی۔
اگرچہ ماضی میں میڈیا یابیرون ملک عدالتی کار وائیوں کے ذریعےسامنے آنے والے بدعنوانی کےالزامات پرہندوستانی جانچ ایجنسیوں نے جانچ شروع کی ہے جس میں اگستا ویسٹ لینڈ سودے کا معاملہ ایک مثال ہے، فی الحال یہ صاف نہیں ہے کہ ای ڈی یا سی بی آئی نے سویڈیش میڈیا کی حالیہ رپورٹ کانوٹس لیا ہے یا نہیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)