‘دی ہندو’کے صحافی عمر راشد کو لکھنؤ میں گزشتہ جمعہ کو پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ صحافی کے مطابق، پولیس نے ان پر شہریت قانون کے خلاف لکھنؤ میں ہوئے تشدد کی سازش کرنے کا الزام لگایا اور ان پر فرقہ وارانہ تبصرے بھی کیے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے لکھنؤ میں انگریزی اخبار دی ہندو کے صحافی کے ساتھ حراست میں پولیس کے ذریعے بدسلوکی کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔صحافی کو اب رہا کر دیا گیا ہے۔انگریزی اخبار ‘دی ہندو’کےصحافی عمر راشدکو جمعہ کو لکھنؤ میں بی جے پی دفتر کے پاس ایک ریستوراں سے پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ پولیس نے ان کوشہریت ترمیم قانون کے خلاف لکھنؤ میں ہوئے تشددکی سازش کرنے کا ملزم بتایا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، عمر راشد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ ایک ریستوراں میں بیٹھ کر ایک اسٹوری فائل کر رہے تھے کہ تبھی پولیس وہاں پہنچی اور انہیں لے گئی۔راشدنے کہا، ‘میں ہوٹل میں کسی کا وائی فائی استعمال کر رہا تھا۔ اچانک تین سے پانچ لوگ سادے کپڑوں میں آئے اور میرے دوست سے پوچھ تاچھ کرنے لگے۔ انہوں نے ان سے خود کی پہچان بتانے کو کہا۔ انہوں نے مجھ سے بھی اپنی پہچان بتانے کو کہا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے دوست کو جیپ میں ڈالا اور مجھے بھی ساتھ آنے کو کہا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں صحافی ہوں لیکن انہوں نے میری نہیں سنی اور مجھے مجبوراً ان کے ساتھ جانا پڑا۔’
انہوں نے کہا، ‘پولیس نے ہمیں ایک کمرے میں بند کیا۔ انہوں نے فون سمیت میرا سارا سامان لے لیا۔ انہوں نےبری طرح سے میرے دوست کی پٹائی کی۔ انہوں نے اس سے سوال کئے اور لکھنؤ میں ہوئے تشدد سے انہیں جوڑا۔ انہوں نے مجھے بھی تشددسے جوڑتے ہوئے کہا کہ میں اس تشددکی سازش کرنے والا کلیدی ملزم ہوں۔’راشد نے کہا، ‘وہ(پولیس) مجھ سے سوال پوچھ رہے تھے کہ کچھ کشمیری یہاں آتے ہیں اور تشدد میں شامل ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے غیر مہذب زبان میں بات کی اور کہا کہ تم اپنی صحافت کہیں اور دکھانا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس میرے خلاف ثبوت ہیں۔ انہوں نے دوبارہ ہمیں جیپ میں بیٹھایا اور پولیس چوکی لے گئے۔ وہاں ایک اور پولیس حکام نے ہم پر فرقہ وارانہ تبصرے کرتے ہوئے کہا کہ وہ میری داڑھی نوچ لیں گے۔’
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ دفتر اور ریاست کے ڈی جی پی او پی سنگھ کو فون کئے جانے کے بعد راشد کو چھوڑا گیا۔ این ڈی ٹی وی سے بات چیت میں ڈی جی پی او پی سنگھ نے اس معاملے کی جانچ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، گزشتہ19 دسمبر کو لکھنؤ میں ہوئے تشدد میں جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا، ان میں وکیل محمد شعیب اور سابق آئی پی ایس افسراور کارکن ایس آر داراپوری سمیت اہم کارکنان ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کیا انہیں گرفتار کیا گیا۔
میگسیسےایوارڈیافتہ اور ہیومن رائٹس کارکن سندیپ پانڈےنے کہا، ‘پولیس پہلے تشدد پر قابو پانے میں ناکامیاب رہی اور اب وہ اپنی غلطیاں چھپانے کے لیے پرامن مظاہرہ کرنے کے لیے کارکنوں کو پکڑ رہی ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ پولیس کو ہمیں بتانا ہوگا کہ یہ لوگ کہاں ہیں۔’واضح ہو کہ شہریت ترمیم قانون، 2019 کے پاس ہونے کے بعد سے ہی لکھنؤ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں لگاتاراحتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ 19 دسمبر کو بھی اسی طرح کاملک گیر احتجاج اور مظاہرہ ہوا تھا۔
گزشتہ 20 دسمبر کو شہریت قانون کے خلاف دہلی سمیت اتر پردیش کے گورکھپور، بہرائچ، فیروزآباد، کانپور، بھدوہی، بہرائچ، بلندشہر، میرٹھ، فرخ آباد، سنبھل وغیرہ شہروں میں بڑے پیمانے پر تشدد کے معاملے درج کیے گئے تھے۔ ان مظاہروں میں15 سے 16 لوگوں کی موت ہونے کی خبر ہے۔
اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سےہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کااہتمام کیا گیا ہے۔اس ایکٹ میں ان مسلمانوں کوشہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔اس طرح کے امتیازکی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کی سیکولرفطرت کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔