اتر پردیش محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری اونیش کمار اوستھی نے کہا کہ یہ ایک سماجی مدعا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے اس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں سخت ہونا ہوگا۔
یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/MYogiAdityanath)
نئی دہلی: اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ‘لو جہاد’کے معاملوں کو روکنے کے لیے جمعہ کو ریاست کے محکمہ داخلہ کے سینئر افسروں کو منصوبہ بنانے کی ہدایت دی ہے۔لوجہاد ہندوتوادی تنظیموں کے ذریعے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو خواتین کو زبردستی یا بہلا پھسلاکر ان کامذہب تبدیل کراکر مسلمان سے اس کی شادی کرائی جاتی ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، افسروں کے مطابق یہ ہدایت کانپور، میرٹھ اور حال ہی میں لکھیم پورکھیری میں ہوئے معاملے کے بعد آئی ہے۔ لکھیم پور کھیری میں ہوئے ایک واقعہ میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ خاتون کا جبراً مذہب تبدیل کراکر اس کی شادی کرائی گئی۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے میڈیا صلاح کار مرتنجے کمار نے کہا، ‘ریاست کے مختلف حصوں سے لو جہاد کے معاملے بڑھ رہے ہیں اس لیے وزیراعلیٰ نے محکمہ داخلہ کے سینئر افسروں کو اس طرح کے معاملوں کو روکنے کے لیے ایک منصوبے کا خاکہ تیار کرنے کو کہا ہے۔’انہوں نے کہا کہ افسروں کو ایک حکمت عملی تیار کرنے کو کہا گیا ہے اور یہ بھی دیکھنے کو کہا ہے کہ اس کے لیے نئے قانون کی ضرورت ہے یا نہیں۔
محکمہ داخلہ کےایڈیشنل چیف سکریٹری اونیش کمار اوستھی نے کہا، ‘یہ ایک سماجی مدعا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے انہیں اسے سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں سخت ہونا ہوگا۔ آج کل سوشل میڈیا ہر جگہ ہے اور یہ لوگوں کے ذہن پر بھی اثر ڈال رہا ہے۔’
اوستھی نے کہا کہ اس طرح کے معاملوں میں فاسٹ ٹریک شنوائی کی جانی ہوگی، کیونکہ ان میں سے کئی معاملے کورونا کی وجہ سے عدالتوں میں زیر التواہیں۔انہوں نے کہا، ‘ملزم کو ضمانت نہیں دی جانی چاہیے اور خاتون کی فیملی کو مالی امداددی جانی چاہیے۔’یہ پوچھنے جانے پر کہ کیا اس کے لیے نیا قانون لایا جائےگا؟
اوستھی نے کہا کہ فی الحال موجودہ قانون ہی کافی ہے، لیکن اس پر ڈھنگ سے عمل کیے جانے کی ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق، حال ہی میں کانپور کی جوہی کالونی میں بین مذہبی شادی کے کئی معاملے سامنے آنے کے بعد پولیس نے شادی سے پہلے مذہب کی تبدیلی کے الزامات کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل کی تھی۔
جوہی کالونی کی پانچ فیملی کی خواتین کے سینئر پولیس افسروں سے مل کر مدد مانگنے کے بعد ایس آئی ٹی کی تشکیل کی گئی تھی۔ان کا الزام تھا کہ خواتین کو مبینہ طور پر بہلا پھسلاکر ان کی شادی سے پہلے مذہب تبدیل کرایا جا رہا ہے۔پولیس نے اس ہفتے کی شروعات میں لکھیم پورکھیری کے ایک گاؤں میں ہوئے واقعہ کا ذکر کیا، جہاں ایک لڑکی کا ریپ اور پھر اس کا قتل کر دیا گیا تھا۔
پولیس نے بعد میں دلشاد نام کے شخص کو پکڑا تھا، پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم نے لڑکی کا ریپ کرنے اور بعد میں اس کا گلا ریت کرقتل کرنے کاجرم قبول کر لیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ کے سیل فون کے کال ریکارڈ سے پتہ چلا کہ وہ دلشاد کے رابطےمیں تھی۔یوگی آدتیہ ناتھ نے لکھیم پورکھیری معاملے میں ضرورت پڑنے پر این ایس اے لگانے کی بھی ہدایت دی تھی۔
وہیں، میرٹھ میں ماں بیٹی کے قتل معاملے میں پولیس نے شمشاد نام کے شخص کو گرفتار کیا تھا۔قتل کے بعد ملزم نے دونوں کو ان کے گھر میں ہی دفن کر دیا تھا۔متاثرین کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا، اس لیے خاتون کے ایک دوست نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی۔جانچ کے دوران پولیس نے کہا کہ ایسا پتہ چلا ہے کہ شمشاد نے شادی کے لیے خاتون سے رابطہ کرنے سے پہلے اپنا نام بدل لیا تھا اور خود کو ہندو کے طور پر پیش کیا تھا۔