لڑکیاں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہیں۔ اپنی مرضی سے رشتے بنانا چاہتی ہیں۔ اس کے لیے انہیں اپنے لوگوں سے بھاگنے کی ضرورت نہ پڑے، ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک وہ نہ بنے، تب تک ان خواتین کو اگر بچایا جانا ہے تو ان کے خاندانوں سے، بابو بجرنگی جیسے غنڈوں سے اور بجرنگ دل جیسی پرتشدد تنظیموں سے۔ لیکن اب اس فہرست میں شامل کرنا ہوگا کہ انہیں اسٹیٹ سے بھی بچانے کی ضرورت ہے۔
جو کام بابو بجرنگی گجرات میں کیاکرتا تھا، اب وہ کام مہاراشٹر حکومت مہاراشٹر میں کرنے جا رہی ہے۔ وہ بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑوں کی نگرانی کے انتظامات کر رہی ہے۔
پہلے سرکاری اعلان میں بتایا گیا تھا کہ انٹر کاسٹ شادی کرنے والوں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔ پتہ نہیں کیوں بعد میں حکومت نے انہیں اس زمرے سے نکال دیا۔ حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے، جس کا نام پہلے ‘انٹر کاسٹ/انٹر فیتھ میرج-فیملی کوآرڈینیشن کمیٹی’ تھا، پھر اس سے انٹرکاسٹ کو ہٹا دیا گیا۔
نام تھوڑا سا عجیب ہے۔ شادی کے بعدتو خاندان ہی بنتا ہے۔ تو پھر بین مذہبی شادی اور خاندان کے درمیان ملاپ کا کیا مطلب ہوا؟ لیکن حکومت کسی الجھن میں نہیں ہے۔ نام عجیب ہو سکتا ہے، ارادے تو صاف ہیں!
حکومت شادی سے پہلے ایسے جوڑوں کو ان کے خاندانوں سے ملانے کی بات کر رہی ہے۔ ان کے بھی نہیں، صرف دلہن کے۔ یہی اصل مقصد ہے، حالانکہ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے خاندانوں سے ملاپ کرے گی ، جو اس طرح کی شادیوں کے بعد بنتے ہیں۔
یہ کمیٹی ایسے تمام جوڑوں کی فہرست بنائے گی جو بھاگ کرمندر، مسجد، گرودوارہ، چرچ، کہیں بھی شادی کر رہے ہوں۔ چاہے وہ رجسٹرڈ ہوں یا نہ ہوں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ شادی کے لیے بھاگنے والی خواتین پر بہت دباؤ رہتاہے، کیونکہ ان کے پاس کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ اگر عورت ناخواندہ ہے تو وہ مرد پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اس کی پوزیشن اور بھی نازک ہو جاتی ہے۔
اب ایسی خواتین کومطمئن ہوجانا چاہیے، کیونکہ مہاراشٹر حکومت ان کے سر پر کھڑی ہے۔ وہ ایسی تمام خواتین کو ‘کاؤنسلنگ’ کی سہولت بھی فراہم کرے گی، جو ایسا کرنا چاہیں گی۔
حکومت کے مطابق، اسے یہ قدم اس لیے اٹھانا پڑا کیونکہ اسی طرح کے رشتے میں رہ کرہی شردھا واکر کو اس کے دوست آفتاب پونا والا نے قتل کر دیا تھا۔ اس سے مہاراشٹر حکومت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شردھا اتنی تنہا ہوگئی تھی کہ آفتاب نے اس پر تشدد کیا اور پھر اسے قتل کردیا۔ اگر وہ اپنے ‘خاندان’ یا حکومت سے رابطے میں رہتی تو یہ قتل نہ ہوتا! اسے بچایا جا سکتا تھا۔
حکومت کو خاص طور پر ایسے جوڑوں کی فکر ہے، جن میں ایک کا نام شردھا اور دوسرے کا نام آفتاب جیسا ہو۔ رابطہ کمیٹی کی تشکیل کے بعد مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بین مذہبی شادیوں میں دھوکہ دہی کے واقعات میں گزشتہ دنوں اضافہ ہوا ہے اور ‘لو جہاد’ کے نام پر ‘فراڈ’ کو روکنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔
اصل مسئلہ یہاں ہے۔ وزیر، افسر اب ‘لو جہاد’ اس دھڑلےسے بولنے لگے ہیں اور میڈیا نے بھی اسے ایسے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جیسے ‘لو جہاد’ جیسی کوئی چیز واقعی ہوتی ہے۔ اور اسے روکنا سماجی اور سرکاری فریضہ ہے۔
گویا مسلمانوں کی طرف سے ایک منظم سازش چل رہی ہے، جس میں ہندو عورتوں پر جال ڈالا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان مردوں کو اس کام پر لگایا جاتا ہے کہ وہ ہندو عورتوں پر نظر رکھیں، ان سے تعلقات بنائیں، کیونکہ وہ مسلمان پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہندوؤں کی تعداد کم کرنا چاہتے ہیں۔
اس نام نہاد سازش کو روکنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں مختلف جگہوں پر قانون لا رہی ہیں۔ ان قوانین کے ذریعےیہ تقریباً ناممکن بنا یاجا رہا ہے کہ مسلمان مرد ہندو عورتوں سے رشتہ بنا سکیں۔
یہ قوانین مسلمان مردوں کو مجرم سمجھ کر بنائے گئے ہیں۔ ہندو خواتین ان رشتوں کا شکار ہوتی ہیں۔ اپنی معصومیت کی وجہ سے وہ مسلمانوں کی محبت کے جال کو سمجھ نہیں پاتی ہیں۔
مہاراشٹر حکومت کی یہ کمیٹی ہندو خواتین کو اس ‘غیرسماجی ‘ اور ‘غیر فطری’ رشتے میں پھنس جانے کے بعد کے ‘اکیلے پن’ سے بچانا چاہتی ہے۔ وہ ایسا کیسے کرے گی؟ وہ ان تمام جوڑیوں کی فہرست کیسے بنائے گی جو گھر سے بھاگی ہوئی خواتین بناتی ہیں؟
کیا اس کے لیے ہر گلی–محلے میں گشتی ٹیمیں تعینات کی جائیں گی؟ یا اس کے لیے بابو بجرنگی جیسے ‘سماج سیوکوں’ کی رضاکارانہ مدد لی جائے گی؟ یا کیا بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں کو سرکاری پہچان دی جائے گی، کیونکہ وہ پچھلے کچھ سالوں سے اس میدان میں اپنی قابلیت اوراہلیت کو ثابت کر چکے ہیں؟
ہندو لڑکیوں کو بچانا ایک مقدس کام ہے۔ 2006 میں دیوالی کے موقع پر بابو بجرنگی نے ایک پمفلٹ جاری کیاتھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایک لڑکی کو بچانے پر 100 گایوں کو بچانے کی نیکی ملتی ہے۔
بابو بجرنگی کا بنیادی سماجی کام ایسی بھاگی ہوئی لڑکیوں کا پیچھا کرنا اور انہیں بازیاب کر کے ان کے ‘اصل’ خاندانوں کے حوالے کرنا تھا۔ وہ ان لڑکیوں کی ‘کاؤنسلنگ’ بھی کرتا تھا۔ اس کام میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اس نے 2002 میں مسلمانوں کے قتل عام میں بھی مدد کی تھی۔
یہ کام بجرنگ دل کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ وہ شادی رجسٹریشن آفس کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں اور ایسے جوڑوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کا پیچھا کرتے ہیں، دھمکیاں دیے ہیں۔ وہ شہر میں ہونے والی شادیوں کی خبریں بھی رکھتے ہیں اور ایسی ‘غلط’ شادیوں کے موقع پر تشدد بھی کرتے ہیں۔ وہ ایسے گمراہ والدین کا بھی نوٹس لیتے ہیں، جو اپنی بیٹیوں کو ایسے رشتے بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔
تو، کیا مہاراشٹر حکومت کی یہ رابطہ کمیٹی اپنے کام کے لیے ایسے سماجی کارکنوں کی مدد لے گی؟ کیا اس کے لیے بھی اعزازیہ مقرر کیا جائے گا؟
ان سوالات کے علاوہ یہ پوچھنا بھی ضروری ہے کہ خواتین اور بعض اوقات مردوں کو بھی ایسے رشتے بنانے کے لیے گھر سے بھاگنا کیوں پڑتا ہے؟ ایسے رشتے کے بعد وہ ان کو بھائیوں، والدین، رشتہ داروں کے درمیان عدم تحفظ کا احساس کیوں ہوتا ہے؟ ایسے جوڑے عدالتوں سے ان کے والدین سے تحفظ کی اپیل کیوں کرتے ہیں؟ وہ کیوں چاہتے ہیں کہ ان کے گھر والے انہیں اکیلا چھوڑ دیں؟
ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف ہندو اور مسلم جوڑوں کے معاملے میں ہی درست ہو۔ مختلف ذاتوں میں رشتہ بنانے کی سزا بھی سخت ہے۔ والدین یا بھائی سالوں تک موقع ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں یا ان کے عاشق شوہروں کو قتل کر دیں۔ وہ اس کے لیے بہت محنت کرتے ہیں اور پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں۔
مہاراشٹر حکومت نے ایسے جوڑوں کو اپنی حفاظتی اسکیم سے کیوں نکالا؟ کیا لڑکیاں انٹرکاسٹ رشتوں میں دھوکہ نہیں کھاتیں؟ ہم جانتے ہیں کہ حکومت نے اس مہم میں صرف بین مذہبی جوڑوں کو رکھا ہے تاکہ وہ ‘لو جہاد’ کے اپنے پروپیگنڈے کو زندہ رکھ سکے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پروپیگنڈہ جاری رکھ سکے اور ان کے خلاف تشدد کو جائز قرار دے سکے۔
کیا ایسے رشتوں میں لڑکیاں واقعی تنہا اور غیر محفوظ ہوتی ہیں؟ اس خبرکے آس پاس ہی یہ خبر آئی کہ ہندوستان میں روزانہ 20 خواتین جہیز کی وجہ سے ماری جاتی ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ بظاہر ان میں ہندو خواتین کی تعداد زیادہ ہوگی۔
یہ توگھروں سے بھاگنے والی بگڑی ہوئی لڑکیاں نہیں ہیں۔ یہ سب اپنے والدین کی فرماں بردار لڑکیاں ہیں، ان کی پسند کے لڑکے سے شادی کرنے کے بعد انہیں سسرال بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ اکیلی نہیں ہیں۔ ان کی سسرال ہے اور ماں کا گھر بھی۔ پھر کیوں ماری جاتی ہیں؟ وہ غیر محفوظ کیوں ہیں؟ ان کے اہل خانہ ان ہلاکتوں کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ اور حکومت ان کی مدد کے لیے ایسی رابطہ کمیٹی کیوں نہیں بناتی؟ کیا انہیں تحفظ اور حمایت کی ضرورت نہیں؟
جب ریاست کوئی منصوبہ بناتی ہے تو اس کے پاس اس کے لیے کافی بنیاد ہونی چاہیے۔ جہیز مخالف قانون اس لیے بنایا گیا کہ اس کے منفی اثرات کے اعداد و شمار موجود ہیں۔ کیا حکومت کے پاس بین مذہب ی شادیوں میں ہونے والی اموات کا کوئی ڈیٹا ہے؟ کیا اس قسم کی شادیاں خطرناک ہیں اور ان پر پابندی عائد کرنے کا کوئی ثبوت، کوئی بنیاد ہے؟
لڑکیاں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہیں۔ اپنی مرضی سے رشتے بنانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے انہیں اپنے لوگوں سے بھاگنے کی ضرورت نہ پڑے، ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک وہ نہ بنے،تب تک ان خواتین کواگر بچانا ہے تو ان کے خاندانوں سے، بابو بجرنگی جیسے غنڈوں سے اور بجرنگ دل جیسی پرتشدد تنظیموں سے۔ لیکن اب اس فہرست میں شامل کرنا ہوگا کہ انہیں اسٹیٹ سےبھی بچانے کی ضرورت ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)