جہاں ایک طرف کئی بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کی سرکاریں‘لو جہاد’کے خلاف بل لانے کی مکمل تیاری کر چکی ہیں، وہیں اپوزیشن نے سرکاروں کے اس طرح کا قانون بنانے کو شخصی آزادی میں دخل اورملک میں فرقہ وارانہ کھائی کو گہرا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
نئی دہلی: بی جے پی رہنماؤں کے ذریعے‘لو جہاد’کو لےکر ہوئی بیان بازیاں اب پارٹی مقتدرہ ریاستوں میں اس کے خلاف قانون بنانے تک پہنچ چکی ہیں اور اسے لےکر مختلف اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی کوتنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جمعہ کو کم سے کم پانچ اپوزیشن مقتدرہ ریاستوں نے اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور ہریانہ سرکاروں کے ذریعے‘لو جہاد’ کے خلاف قانون بنانے کو شخصی آزادی میں دخل اور ملک میں فرقہ وارانہ کھائی کوگہراکرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اسی شام اتر پردیش کی یوگی سرکار نے اعلان کیا کہ ان کے کے ذریعے‘لو جہاد’پرسخت قانون بنانے کے لیےمحکمہ داخلہ نے شعبہ قانون کو تجویز بھیجی ہے۔سرکار کے ایک ترجمان کی جانب سے اس کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔ پچھلے سال اتر پردیش ریاستی لاء کمیشن نے سرکار کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں جبراً تبدیلی مذہب کے خلاف نیا قانون بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کا خیال ہے کہ موجودہ قانونی اہتمام کافی نہیں ہیں، اس لیے اس پر نئے قانون کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ تجویز دی گئی تھی کہ ‘صرف شادی کے لیے ہونے والےتبدیلی مذہب کو نامنظور کیا جائے۔’
उत्तर प्रदेश में "लव जिहाद" को लेकर सख्त कानून का मसौदा तैयार, मुख्यमंत्री श्री @myogiadityanath जी ने दी मंजूरी।
अध्यादेश जल्द कैबिनेट में होगा पेश। pic.twitter.com/25uz6ZR9r2
— Yogi Adityanath Office (@myogioffice) November 21, 2020
دینک جاگرن کی خبر کے مطابق، محکمہ داخلہ نے کئی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کو لےکر نافذقوانین کا مطالعہ کرکے ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس کے بعد سرکار ریاست میں جبراً تبدیلی مذہب کے لیےقانون لانے کو تیار ہے۔اس میں لو جہاد کے معاملے میں پانچ سال تک اور اجتماعی تبدیلی مذہب کے معاملے میں 10 سال تک کی سزا کا اہتمام کیا جائےگا، ساتھ ہی یہ ایک غیر ضمانتی جرم ہوگا۔
بل کے مطابق، صرف شادی کے ارادے سے کئے گئے تبدیلی مذہب کوقبول نہیں کیا جائےگا، اور اس کی خلاف ورزی کرنے پر چھ مہینے کی جیل اور دس ہزار روپے کے جرما نے کا اہتمام ہوگا۔
یہ ایک قابل دست اندازی جرم ہوگا اور اسے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے ذریعے ہی سنا جائےگا۔ محکمہ داخلہ نے لو جہاد کو لےکر بل کا مسودہ تیار کیا ہے، جسے شعبہ قانون کے پاس بھیجا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس مسودے کو منظوری دےچکے ہیں اور اسے جلد کابینہ میں پیش کیا جائےگا۔
اس بیچ وزیرقانون برجیش پاٹھک نے سخت قانون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ریاست میں ایسے معاملوں میں اضافہ ہوا ہے، جو سماجی شرمندگی اور دشمنی کی وجہ بنے ہیں۔ ان معاملوں سے ماحول خراب ہو رہا ہے، اس لیے ایک سخت قانون وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، ‘محکمہ داخلہ سے تجویزملتے ہی ضروری ضابطےمکمل ہوں گے کیوں کہ ہم نے تمام تیاریاں کر لی ہیں۔’اس سے پہلے پچھلے مہینے جون پور اور دیوریا میں ضمنی انتخاب کی تشہیری مہم کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ان کی سرکار ‘لو جہاد’سے نپٹنے کے لیے ایک قانون لےکر آئےگی۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر خواتین اور بیٹیوں کے ساتھ ظلم کرنے والے نہیں سدھرے تو ان کا ‘رام نام ستیہ ہے کی یاترا نکلنا طے ہے۔’واضح ہو کہ کانپور میں پولیس نے ‘لو جہاد’کے ایک معاملے میں ایک ایس آئی ٹی بھی بنایا تھا۔
اتر پردیش کے ساتھ ہی مدھیہ پردیش اور ہریانہ کی سرکاروں کے ذریعےبھی‘لو جہاد’کے خلاف بل لانے کی بات کہی گئی ہے۔اس بیچ اپوزیشن کے رہنماؤں کے ذریعے بی جے پی کے اس طرح کے قدم کو لےکر ان پرملک بانٹنے کا الزام لگایا ہے۔
جمعہ کو راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے کہا کہ یہ لفظ بی جے پی نے ملک کو بانٹنے وفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے گڑھا ہے۔
Love Jihad is a word manufactured by BJP to divide the Nation & disturb communal harmony. Marriage is a matter of personal liberty, bringing a law to curb it is completely unconstitutional & it will not stand in any court of law. Jihad has no place in Love.
1/— Ashok Gehlot (@ashokgehlot51) November 20, 2020
گہلوت نے اس بارے میں ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، ‘لو جہاد لفظ بی جے پی نے ملک کو بانٹنے و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے گڑھا ہے۔ شادی شخصی آزادی کا معاملہ ہے جس پر لگام لگانے کے لیے قانون بنانا پوری طرح سے غیرآئینی ہے اور یہ کسی بھی عدالت میں ٹک نہیں پائےگا۔ عشق میں جہاد کا کوئی مقام نہیں ہے۔’
ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا، ‘وہ ملک میں ایسا ماحول بنا رہے ہیں جہاں بالغوں کی آپسی رضامندی ریاستی سرکار کےرحم پرمنحصر ہوگی۔ شادی شخصی فیصلہ ہوتا ہے اور وہ اس پر لگام لگا رہے ہیں جو کہ شخصی آزادی چھیننے جیسا ہی ہے۔’
They are creating an environment in the nation where consenting adults would be at the mercy of state power. Marriage is a personal decision & they are putting curbs on it, which is like snatching away personal liberty.
2/— Ashok Gehlot (@ashokgehlot51) November 20, 2020
وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ قدم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے، سماجی کشیدگی بڑھانے والا نظر آ رہا ہے اور یہ سرکار کے ذریعے شہریوں سے کسی بھی بنیاد پرامتیازی سلوک نہیں کرنے کے آئینی اہتماموں کے برعکس ہے۔
"Love Jihad" an exhaustingly bigoted term coined by BJP carried forward through the media propagandists has now reached levels of severity. The hatred and intolerance has crept so deeply that they are now brazenly planning laws against consensual interfaith marriages. (1/3)
— TS Singh Deo (@TS_SinghDeo) November 20, 2020
چھتیس گڑھ کےوزیرصحت اور کانگریس کے سینئر رہنما ٹی ایس سنگھ دیو بھی اسے لےکر بی جے پی کی تنقید کرتے دکھے۔
کئی ٹوئٹس کرتے ہوئے انہوں نے لکھا، ‘لو جہاد’ بی جے پی کے ذریعےگڑھا ہوا اور میڈیا پروپیگنڈہ کے ذریعے بڑھایا گیا ایک بےحد وحشی لفظ ہے، جو اب ایک سنگین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ نفرت اور عدم رواداری اتنے گہرے میں اتر گئی ہے کہ اب وہ بےشرمی کے ساتھ رضامندی سے ہوئی بین مذہبی شادیوں کے خلاف قانون لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
Marriage is and has always been a personal choice for consenting adults – socially and constitutionally. Try all they can to attack the sovereignty of India, we shall stand strong to uphold the integrity of our constitution and this great nation. (3/3)
— TS Singh Deo (@TS_SinghDeo) November 20, 2020
انہوں نے آگے کہا کہ شادی ایک شخصی اور گھریلو معاملہ ہے، جو بنیادی طور پر اس میں شامل دونوں لوگوں اورجزوی طور پران کی فیملی سے وابستہ ہے اس مقدس ادارے کے بارے میں پنڈت نہرو کا یہ سب سے عملی تجزیہ تھا، جسے اب ایک فرقہ کے تئیں شدت پسندی اورنفرت سے جوڑا جا رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شادی ہمیشہ رضامند بالغوں کی اپنی پسند رہی ہے سماجی طور پر بھی اور آئینی طو رپر بھی۔ وہ (بی جے پی)ملک کی سالمیت پر حملے کے لیے کیسی بھی کوشش کر لیں، ہمیں اپنے آئین اور اس عظیم ملک کی سالمیت کو بنائے رکھنے کے لیے مضبوطی سے کھڑا ہونا ہے۔
وہیں کیرل کی مقتدرہ ایل ڈی ایف کے کنوینر اورسی پی آئی کی کیرل اکائی کے سکریٹری اے وجئےراگھون کا کہنا ہے کہ مجوزہ قانون بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘شدت پسند ہندوتوا کے لوگوں کے ذریعے بتایا جا رہا ‘لو جہاد’جیسا کوئی مدعا نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے ذریعے اس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ کئی ریاستوں کا مجوزہ قانون صرف ہندوتوا کے ایجنڈہ کو بڑھانے میں مدد کرےگا۔ یہ مسلم مخالف ایجنڈہ ہے۔’
مغربی بنگال کی مقتدرہ ترنمول کانگریس کے سائنس اور تکنیکی اور بایوٹکنالوجی کے وزیر براتیا باسو نے کہا، ‘عشق شخصی ہوتا ہے۔ یہ دونوں لفظ ساتھ ساتھ نہیں آ سکتے۔’
جھارکھنڈ کے وزیر اور ریاستی کانگریس صدر رامیشور ارانو نے کہا،’بی جے پی کیا کرنا چاہ رہی ہے؟عشق کسی کے مذہب کے مطابق نہیں ہوتا ہے…یہ قانون کے سامنے نہیں ٹکےگا۔ بی جے پی فرقہ وارایت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ایک ہی طرح کی سیاست کرتے ہیں اور وہ مذہب پر مبنی ہے۔’
ادھر پنجاب کانگریس کے صدر سنیل جاکھڑ نے بھی بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کے اس قدم پر تنقیدی رویہ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کیا ہم سنگی دور میں رہ رہے ہیں؟ ہمیں ایک مہذب سماج کی طرح سلوک کرنا چاہیے…ہمیں لوگوں کی ذاتی زندگیوں سے دور رہنا چاہیے۔ یہ وقت میں پیچھے لے جانے والا قدم ہے…آج یہ اینٹی لو جہاد ہے، کل کوئی اینٹی لو مہم شروع ہو جائےگا۔’
دہلی کانگریس نے بھی‘لو جہاد’کے خلاف قانون لانے کے قدم کی تنقید کی ہے۔ ریاستی کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت نے کہا، ‘اگر سرکاریں یہ فیصلہ لیں گی کہ ہمیں کیا کھانا چاہیے، کیسے سونا چاہیے، کس سے شادی کرنی چاہیےیا کس سے محبت کرنی چاہیے، تو بڑی مشکل کھڑی ہو جائےگی۔’
سی پی آئی جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے سوال کیا،‘یہ لو جہاد ہے کیا؟ سب سے پہلے تو انہیں یہ بتانا چاہیے کہ لو جہاد سے ان کا کیا مطلب ہے…وہ اس بارے میں فیصلہ کیسے لے سکتے ہیں کہ کسے کس سے عشق کرنا چاہیے…یہ بد تمیزی ہے، انسانی رشتوں کو خراب کرنا اور فرقہ وارانہ بنانا ہے۔’
گریراج سنگھ بولے، بہار کو لو جہاد کے خلاف قانون لانا چاہیے
بہار میں لو جہاد کے خلاف قانون نافذ کرنے کی مرکزی وزیر گریراج سنگھ نے حمایت کی ہے اور دعویٰ کیا کہ یہ معاملہ ملک کی ریاستوں میں پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔انہوں نے نتیش کمار سرکار سے گزارش کی کہ وہ یہ سمجھیں کہ لو جہاد اورآبادی پر قابو پانے جیسے مدعوں کا فرقہ واریت سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ یہ توسماجی ہم آہنگی کے معاملے ہیں۔
سنگھ نے کہا کہ لو جہاد کو ملک کی تمام ریاستوں میں صرف ہندوؤں میں نہیں بلکہ سبھی غیر مسلموں میں پریشانی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا، ‘کیرل میں جہاں عیسائیوں کی بڑی آبادی ہے، وہاں کمیونٹی کے ممبروں نے اس پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔
لوک سبھا میں بہار کی بیگوسرائے لوک سبھا سیٹ کی نمائندگی کرنے والے مرکزی وزیر نے ظاہری طور پر سائرو مالابار چرچ کے ان الزامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا کہ لو جہاد کے نام پر عیسائی لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مارا جا رہا ہے۔
سنگھ نے کہا کہ اس پریشانی کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا اور اگربہار میں لو جہاد کو روکنے کے لیے قانون لایا جائے تو اچھا ہوگا۔
کرناٹک میں جلد ہی‘لو جہاد’اور گئو کشی پر پابندی لگےگی : بی جے پی رہنما سی ٹی روی
ملک بھر میں لو جہاد پر چھڑی بحث کے بیچ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے جمعہ کو کہا کہ کرناٹک میں بہت جلد ‘لو جہاد’اور گئو کشی پر پابندی ایک حقیقت ہوگی۔کرناٹک کے سابق وزیر اور مہاراشٹر، گوا اور تمل ناڈو میں پارٹی معاملوں کےانچارج نے کہا کہ آنے والے اسمبلی سیشن میں دونوں پرپابندی لگانے والا قانون پاس کیا جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ سرکار میں اس بات کو لےکر غوروخوض ہو رہا ہے اور ریاستی بی جے پی صدر نلن کمار قتیل نے بھی وزیر اعلیٰ بی ایس ییدیرپا سے اس سلسلے میں قدم اٹھانے کو کہا ہے۔چک منگلورو سے ایم ایل اے روی نے کہا، بی جے پی کور کمیٹی نے لو جہاد اورگئو کشی پر پابندی کو منظوری دی ہے۔ گئوکشی پر پابندی لگائے جانے کی مانگ اب زور پکڑ رہی ہے۔ ہم ایسا کرنے کی منشا رکھتے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)