سہیل کاکوروی کی تخلیقی تازہ کاری کا احساس ان اشعار کے انگریزی تراجم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اردو محاوروں کو انگریزی میں منتقل کرنا بہت مشکل ہے کہ محاوروں کی جڑیں مقامی اور مذہبی اقدار میں پیوست ہوتی ہیں۔اسی طرح ہندی میں محض رسم الخط نہیں بدلا گیا ہے بلکہ مشکل اردو الفاظ کی فرہنگ بھی درج کی گئی ہے۔
محاورہ محض لطف زبان یا آرائشی طرز اظہار کا بنیادی وسیلہ نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعی انسانی بصیرت، ثقافتی وژن اور تصور کائنات کو مرتکز ایک ایسا جملہ ہوتا ہے جس کی تازہ کاری پر گردش ایام اثر انداز نہیں ہوتی ہے۔بعض ماہرین لسانیات نے اسے مردہ استعارے کے مماثل ٹھہرایا ہے کہ محاورے منفرد اور پیچیدہ داخلی تجربے کی دبازت کو اجاگر نہیں کرتے۔ لارڈ جان رسل نے محاورہ کی ایک دلچسپ اور بلیغ تعریف متعین کی ہے۔ان کے مطابق محاورہ ایک شخص کی بذلہ سنجی اور بہت سے دیگر افراد کی دانش مندی کا مظہر ہوتا ہے۔ محاورے عموماً فہم عامہ اور عام انسانی تجربات اور واقعات سے نمو پذیر ہوتے ہیں۔
محاورے بصیرت، صداقت، اخلاقی اور روایتی اقدار کی گونج سے عبارت ہوتے ہیں اور ان میں تلقین، فہمائش اور اخلاقی اقدار کی ترویج کے پہلو بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ استعارہ، تشبیہ، کنایہ اور مجاز مرسل محاورہ کو زیادہ کاٹ دار اور چٹخارہ دار بناتے ہیں۔اشعار میں محاوروں کو فنی ریاضت کے ثمرہ کے طور پر قبول کیا جاتا ہے تاہم محاوروں کے پیہم استعمال کی پذیرائی نہیں کی جاتی۔محاوروں میں مستتر تخلیقی امکانات سے کسبِ فیض محض منفرد اشعار میں پوری طرح نہیں کیا جاسکتا۔محاورے زبان کی متوقع جہت کو آشکارا نہیں کرتے کہ ان کے متواتر استعمال سے ایک ایسا پہلو دار حسی بیانیہ قائم کیا جاسکتا ہے جس سے زبان کے پامال اور پیش پا افتادہ استعمال کی تمام صورتوں کو شکست (Subvert)کیا جا سکتا ہے۔
محاورے کس طرح ایک نیا ثقافتی بیانیہ تشکیل کرتے ہیں اور معاصر معاشرہ کے نادیدہ مناظر کس طرح محاوروں کے حوالے سے بیان کیے جا سکتے ہیں؟ان اہم ادبی نکات پر مبنی منظوم ڈسکورس معروف شاعر سہیل کاکوروی نے ایک ایسے معاشرے میں قائم کیا ہے جہاں فنی اور تخلیقی ہنر مندی کی پذیرائی عام نہیں ہے اور شعر سنانے اور حرف جگانے کو ایک لا طائل سرگرمی سمجھا جاتا ہے۔سہیل کاکوروی نے 600 اشعار پر مشتمل ایک غزل لکھی جس کے ہر شعر میں ایک یا اس سے زائد محاورے کو باندھا گیا ہے۔ سہیل کاکوروی کی یہ طویل غزل کتابی صورت میں-نیلا چاند، کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اور یہ اشعار بیک وقت تین زبانوں اردو، ہندی اور انگریزی میں شائع ہوئے ہیں۔
سہیل کاکوروی انگریزی سے بخوبی واقف ہیں، لہٰذا انہوں نے پوری غزل کا بامحاورہ اور سلیس انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ ہندی میں محض رسم الخط نہیں بدلا گیا ہے بلکہ مشکل اردو الفاظ کی فرہنگ بھی درج کی گئی ہے۔ ایک ہی صفحہ پر اردو، ہندی اور انگریزی موجود ہے جو شاعر کی کثیر لسانی مہارت پر دال ہے۔ سہیل کاکوروی نے محاوروں پر استوار اپنی اس طویل غزل کے، جسے بجا طور پر اردو کی طویل ترین محاوراتی غزل کہا جا سکتا ہے، کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے؛
محاورے کہاں سے وجود میں آئے یہ پتہ بہت کم ہی لگا مگر بات کی یہ ایک ایسی شکل ہے کہ جس کی اثر انگیزی نے اسے بات کا حصہ بنا دیا اور یہ روز مرہ اتنا استعمال ہونے لگے کہ ان کا استعمال زبان سیکھنے والوں کو سکھایا جانے لگا اور زبان کے حوالے سے شروع ہوتے ہی بچوں کی نصاب کی کتابوں میں محاورے اور ان کے معنیٰ شامل ہوتے رہے۔ بامحاورہ لکھنا اثر دار اور بامعنی ہوا۔ اس سے تحریریں معتبر سمجھی گئیں۔ شاعری میں اکثر محاوروں سے رنگ بکھر آئے۔ اردو کے البیلے شاعر مومن خاں مومن کے اس شعر میں الگ الگ مصرعوں میں آنکھ سے جڑے دو محاورے ہیں،
آنکھ نہ لگنے سے سب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا
آنکھ نہ لگنے کے معنی نیند نہ آنا اور آنکھ لگنے کے معنی عشق ہوجانا ہے اور ظاہر ہے کہ چھوٹی سی بات محاوروں نے بڑی بنا دی۔ یہ شعر میں اکثر لوگوں کو سنایا کرتا تھا اور خود بھی اس کا مزہ لیا کرتا تھا اور مجھے یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ عام طور پر میں نے غزل کی جس زمین میں شعر کہنا شروع کیے ہیں وہ ایسی زرخیز ہے کہ اس سے وہ فصل ہوجائے گی جو کبھی دیکھی گئی نہ سنی گئی۔
600 اشعار پر مشتمل اس طویل غزل کا مطلع ہے ،
اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مجھ میں دل ربائی ہے
مجھے کھل کھیلنا ہے میری اس صورت بن آئی ہے
کھل کھیلنا محاورہ ہے ہوس ناکی کا۔ ہوس ناکی جو عاشق کا شیوہ نہیں ہے، عاشق پر امکانات کے در وا کر رہی ہے جس کی طرف محاورہ اشارہ کر رہا ہے مگر یہ سچائی نہیں ہے۔ عاشق کی دل ربائی جسے وہ خود ہوس کے طور پر پیش کر رہا ہے، دراصل ایک تعلق خاطر کی غماز ہے۔ یہاں شاعر نے غیر سنجیدہ پیرایہ اظہار سے استفادہ کیا ہے۔
محاورے آنکھ سے کاجل چرانا (تقریباً ناممکن کام انجام دینا) اورآنکھ چرانا (بے اعتنائی برتنا) عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔سہیل کاکوروی نے ان دو محاوروں کے تخلیقی استعمال سے ایک نیا تشبیہی علاقہ قائم کیا ہے ،
چرانا آنکھ سے کاجل نہیں مشکل کوئی
چرانا آنکھ اس کے بعد یہ کیسی ڈھٹائی ہے
اسی طرح ایک شعر میں جنگل میں منگل اور پو بارہ ہونے کا محاورہ باندھا گیا ہے ،
میں جنگل میں کسی کے ساتھ جب منگل مناتا تھا
وہیں اپنے ہوئے پو بارہ قسمت جگمگائی ہے
پو بارہ ہونا یقیناً خوش بختی کو ظاہر کرتا ہے اور قسمت جگمگانا اسی کی معنوی توسیع کا حکم رکھتا ہے، گو کہ اس پر Overwritten ہونے کا اطلاق بھی کیا جا سکتا ہے۔
سہیل کاکوروی نے اردو کے بیشتر معروف اور غیر معروف محاوروں کو اپنی جودت طبع سے آمیز کرکے جو اشعار منظوم کیے ہیں، ان میں زیادہ تر کی نوعیت بصری اور حسی پیکروں کی ہے۔ سہیل کاکوروی نے عشق کی معروف نفسی کیفیات کو مانوس پیرایہ اسلوب عطا کرنے کی غرض سے محاورے استعمال کیے ہیں۔ محاورے ذاتی تجربات و مشاہدات کو اجتماعی صورت حال کے پیکر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ روایتی غزل میں ایک عنصر محبوب سے چھیڑ چھاڑ اور عشق سے وابستہ تقدیس کے تئیں ایک نوع کے غیر سنجیدہ یا رسومیات کو طنز و تمسخر کا نشانہ بنانے کا بھی ہے جس کو اب بڑی حد تک فراموش کر دیا گیا ہے۔ سہیل کاکوروی کی یہ غزل ان پرانے اسالیب کو بھی آزماتی ہے۔
محبوب کو ستم شعار کہنا تو شاعری کا رسمی مضمون ہے مگر اس کے افعال و اعمال کو لطیف طنزیہ پیرایہ عطا کرنا سہیل کاکوروی کاکمال ہے ،
وہ حرفوں کا بنا ہے اس کی باتوں پر نہ تم جانا
سنے جاؤ کہ اس نے پیر میں مہندی لگائی ہے
سہیل کاکوروی کی تخلیقی تازہ کاری کا احساس ان اشعار کے انگریزی تراجم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اردو محاوروں کو انگریزی میں منتقل کرنا بہت مشکل ہے کہ محاوروں کی جڑیں مقامی اور مذہبی اقدار میں پیوست ہوتی ہیں۔ سہیل کاکوروی کے بیشتر تراجم بر محل ہیں مگر کہیں کہیں ثقالت اور غرابت کا بھی احساس ہوتا ہے۔
مجاز نے اپنی مشہور نظم آوارہ میں پیلا ماہتاب کی ترکیب استعمال کی تھی، سہیل کاکوروی نے نیلے چاند کی ترکیب وضع کی ہے۔ نیلا چاند انسانی وقار اور عظمت کا استعارہ ہے۔ یہاں انگریزی محاورہ Once in a Blue Moon کی جانب بھی ذہن منتقل ہوتا ہے۔ سہیل کاکوروی کے یہاں کبھی کبھار وقوع پذیر ہونے والے تجربات بار نہیں پاتے بلکہ یہ وہ تجربات اور مشاہدات ہیں جو ایک مستقل جذبہ کے طور پر شاعر کے باطنی احساسات پر وارد ہوئے ہیں۔ فی زمانہ اس نوع کی فنی چابکدستی اور تخلیقی توانائی کے نمونے بہت کم منصہ شہود پر آتے ہیں، لہٰذا سہیل کاکوروی کی اس کاوش کی پذیرائی لازمی ہے۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)