وزیر اعلیٰ کا آبائی ضلع ہونے کی وجہ سے چوراہوں، پارکوں، تالابوں اور ندی گھاٹوں کی تزئین کاری کی گئی ہے۔ تقریباً ہر سڑک فور لین ہو رہی ہے۔ پورے شہر کا منظر بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ان تعمیراتی کاموں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے اور نقل مکانی کے شکار لوگوں کی حالت زار سننے والا کوئی نہیں ہے۔
گورکھپور: گورکھپور لوک سبھا حلقہ کا انتخاب ایک بار پھر نشاد ووٹروں کے رویے کے ساتھ ساتھ شہر کے ووٹر ٹرن آؤٹ پر انحصار کرے گا۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ شہر میں ووٹنگ فیصد میں اضافہ ہو اور نشاد کا ووٹ تقسیم ہو جائے، وہیں ایس پی کا زور اس بات پر ہے کہ نشاد ووٹروں کو متحد کرکے 2018 کے لوک سبھا ضمنی انتخاب جیسی صورتحال پیدا کر دی جائے۔
یوں تو گورکھپور ہمیشہ سے بی جے پی کے لیے ایک ایسا انتخابی حلقہ رہا ہے جہاں وہ اپنی جیت کے لیے پراعتماد رہی ہے۔ لوگ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ گورکھپور بی جے پی کے لیے ایک ‘وردان’ کی طرح ہے لیکن 2018 کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی امیدوار اوپیندر دت شکلا کی شکست نے ایک ایسا زخم دیا ہے جس میں مسلسل ٹیس اٹھتی رہتی ہے۔ اس الیکشن میں بھی چھ سال پرانی یہ ٹیس ابھر گئی ہے، حالانکہ اس عرصے میں راپتی میں کافی پانی بہہ چکا ہے۔
گورکھپور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا آبائی ضلع ہے۔ وہ یہاں کے مشہور گورکھ ناتھ مندر کے پیٹھادھیشور بھی ہیں۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی انہوں نے گورکھپور کو خاطر خواہ وقت دیا ہے اور ایک بھی مہینہ ایسا نہیں گزرا جس میں وہ دو تین بار یہاں نہ آئے ہوں۔
ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد گورکھپور کو سی ایم سٹی کہا جانے لگا اور یہاں کئی ترقیاتی کام پورے ہوئے۔ بالخصوص سڑکوں کو چوڑا کرنا، چوراہوں، پارکوں، تالاب اور ندی گھاٹ کی تزئین کاری۔ تقریباً ہر سڑک فور لین ہو رہی ہے۔ کچھ ہوچکی ہےاور کچھ ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے پورے شہر کا منظر بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔
شہر کے مضافات میں بھی رنگ روڈ، بائی پاس اور اوور برج بنائے جا رہے ہیں۔ ایک نیا گورکھپور شہر آباد کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس کی وجہ سے یہ محسوس ہوسکتا ہے کہ شہر بہت ترقی کر رہا ہے لیکن ان تعمیراتی کاموں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور بے دخلی ہوئی ہے اور نقل مکانی کے شکار لوگوں کی حالت زار سننے والا کوئی نہیں ہے۔
گورکھپور بائی پاس میں 26 گاؤں کے لوگوں کی زمین لی گئی تھی لیکن معاوضہ انہیں 2016 کے سرکل ریٹ پر دیا گیا۔ آواز اٹھانے کے بعد ثالثی دائر کرنے کو کہا گیا لیکن آج تک اس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ انتخابات کے وقت جب ان گاؤں کے لوگوں نے بینر لٹکا کر بی جے پی کے خلاف احتجاج کیا تو پولیس کے ذریعے ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں۔
گورکھپور سے سونولی تک سڑک کو سکس لین کیا جا رہا ہے۔ کیمپیر گنج قصبے کے پہلے ایک چھوٹے سےمکان میں چائے کی دکان کرنے والے نے گھر پر سرخ نشان دکھاتے ہوئے کہا کہ اس کا گھر شاید ہی بچ پائے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ معاوضہ ملا ہے تو انہوں نے کہا کہ افسران کہہ رہے ہیں کہ نمبر کی زمین نہیں ہے۔ اس لیے معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کے لیے کسی نے آواز اٹھائی تو وہاں بیٹھے ایک نوجوان نے بتایا کہ جب قصبے کے ایک تاجر نے احتجاج کیا تو سب سے پہلے اسی کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا گیا۔
ابھی شہر کے ہڑہوا ریلوے پھاٹک پر چار لین برج بنانے کا اعلان کیا گیا۔ ہمایوں پور نارتھ اور جٹے پور نارتھ کے مکینوں نے 30 اپریل کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فور لین پل کی وجہ سے ان کے مکانات گرا دیے جائیں گے اور ہم بے گھر ہو جائیں گے۔ لیکن ان کی نہ تو کوئی خبر آئی اور نہ ہی ان کے لیے آواز اٹھانے کوئی آگے آیا۔
دوبارہ بی جے پی امیدوار بنائے گئے بھوجپوری فلم اداکار روی کشن اپنی ہر میٹنگ میں گورکھپور کے ان ترقیاتی کاموں کی بات کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ‘ابھی تک صرف 50 فیصد ہی ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ اوربھی ہوں گے۔ مہاراج جی (یوگی آدتیہ ناتھ) نے گورکھپور کو کھاد اور چینی کا کارخانہ دیا ہے۔ گورکھپور انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی آئی ڈی اے) میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ ‘
روی کشن 2019 میں لوک سبھا الیکشن لڑنے آئے تو اس وقت بی جے پی 2018 کے ضمنی انتخابات میں شکست کے صدمے سے دوچارتھی۔ بی جے پی نے انتخابات میں کافی کوشش کی اور روی کشن 302.782 ووٹوں سے جیت گئے۔ ایس پی-بی ایس پی کے مشترکہ امیدوار رام بھوآل نشاد کو 414340 ووٹ ملے۔ یہ بہت بڑی فتح تھی۔ اس بھاری مارجن کے ساتھ بی جے پی لیڈرمطمئن نظر آ رہے ہیں کہ کم ہی مارجن سے صحیح لیکن جیت آسانی سے ہو جائےگی۔
دوسری طرف سماج وادی پارٹی 2018 کے ضمنی انتخاب کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پچھلی بار ایس پی سے الیکشن لڑنے والے رام بھوآل نشاد کو بی جے پی نے سلطان پور بھیج دیا اور یہاں سےبھوجپوری اورٹیلی ویژن اداکارہ کاجل نشاد کو امیدوار بنایا گیا۔
کاجل نشاد پہلے کانگریس میں تھیں۔ کانگریس سے انہوں نے 2012 کا اسمبلی انتخاب کوڑی رام (اب گورکھپور دیہی) سے لڑا تھا۔ وہ 17636 ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر رہیں۔ وہ 2022 کے اسمبلی انتخابات کے دوران ایس پی میں شامل ہوئی تھیں۔ ایس پی نے انہیں کیمپیر گنج سے الیکشن لڑایا لیکن وہ ہار گئیں۔ اس کے بعد انہیں گورکھپور میں میئر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑایا گیا۔ وہ اس الیکشن میں بھی ہار گئیں۔
اس طرح وہ گزشتہ دو سالوں سے الیکشن لڑنے کی وجہ سے رائے دہندگان سے رابطے میں ہیں۔ یہ ان کے لیے کام کر رہا ہے۔ وہ 14 سال کا بنواس ختم کرنے کی جذباتی اپیل کر رہی ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ایک جون کو ان کی سالگرہ ہے۔ لوگ انہیں ایم پی بنا کر تحفہ دیں گے۔
وہ روی کشن کو باہری بتاتے ہوئے کہتی ہیں وہ گھر کی بیٹی ہیں۔ وہ یہ سوال بھی اٹھا رہی ہیں کہ گورکھپور میں ایم ایل اے، ایم پی، میئر، ضلع پنچایت سے لے کر ہر عہدے پر بی جے پی کا قبضہ ہے تو پھر لوگوں کے اچھے دن کیوں نہیں آرہے ہیں۔ بے روزگاری کیوں ہے؟ پیپر لیک کیوں ہو رہا ہے؟ وہ روٹی کی طرح سرکار کو پلٹنے کی بات کرتی ہیں تاکہ حکومت کے دل میں خوف پیدا ہو۔
گورکھپور لوک سبھا انتخابات کے لیے ایس پی کے انچارج بنائے گئے پرہلاد یادو 2018 کے ضمنی انتخاب میں بھی انچارج تھے۔ انہوں نے انہی خطوط پر ایس پی کی حکمت عملی بھی بنائی ہے۔ ایس پی کارکنوں کی ایک کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ایس پی کے پاس 10.5 لاکھ ووٹر (نشاد، یادو، مسلمان) تو اپنے ہیں۔ اس الیکشن میں دیگر ذاتوں کے لوگ بھی ایس پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ حکومت سے ناراض نوجوان، ملازمین اور خواتین بھی ایس پی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ اس لیے اگر ہمارا ووٹ پول ہو جائے تو ہمیں جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ایس پی ضلع صدر برجیش گوتم دلت ہیں۔ وہ بی ایس پی سے ایس پی میں آئے ہیں۔ وہ ایس پی لیڈروں اور کارکنوں سے دلت بستیوں میں جانے کو کہہ رہے ہیں تاکہ دلت ووٹر ایس پی کی طرف آئیں۔ ریاضی میں مضبوط ہونے کے بعد ایس پی کے لوگ اعتماد سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایس پی لیڈر دو لاکھ ووٹوں سے جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
دوسری طرف، بی جے پی اور بی جے پی امیدوار روی کشن گورکھپور پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے مضبوط اثر و رسوخ پر اعتماد کر رہے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے لوک سبھا کے ہر اسمبلی حلقہ میں میٹنگ کرکے ماحول بنایا ہے۔ روی کشن کو لے کر بی جے پی کارکنوں اور حامیوں میں کوئی خاص جوش نہیں ہے۔ الزام ہے کہ وہ لوگوں سے کم رابطے میں رہتے ہیں اور صرف افتتاح اور سنگ بنیاد کے پروگراموں میں نظر آتے ہیں۔
گورکھپور دیہی علاقوں میں ان کی موجودگی بہت کم رہی ہے۔ وہ اپنے اسٹارڈم کی وجہ سے ہجوم اکٹھا کرلیتے ہیں، لیکن بطور رکن پارلیامنٹ ان کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ روی کشن بہت چالاکی سے ان سوالوں کو یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ‘ہم توپوجیہ مہاراج جی کے کھڑاؤں رکھ کر عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس چناؤ میں مہاراج جی کا سمان لگل با۔’
سماج وادی پارٹی کی جانب سے نشاد ووٹروں پر زور بڑھانے سے نشاد پارٹی بھی بے چین ہے۔ پوروانچل میں گورکھپور کے علاوہ ایس پی نے سنت کبیر نگر اور سلطان پور میں بھی نشاد برادری کے لیڈروں کو میدان میں اتارا ہے۔
سنت کبیر نگر میں تو ڈاکٹر سنجے نشاد کے بیٹے پروین نشاد کے خلاف ایس پی نے سابق وزیر لکشمی کانت نشاد عرف پپو نشاد کو میدان میں اتارا ہے، جس کی وجہ سے وہاں نزدیکی لڑائی بن گئی ہے۔ سنجے نشاد کو وہاں کافی وقت دینا پڑا ہے۔ 25 مئی کو وہاں ووٹنگ ہونے کے بعد ڈاکٹر سنجے نشاد نے گورکھپور میں ایس پی امیدوار روی کشن کے لیے ‘نشاد پاکٹ’ میں بیٹھک اور میٹنگیں کی ہیں۔ وہ نشاد ووٹوں پر اپنی اجارہ داری کھونا نہیں چاہتے، جسے گورکھپور اور آس پاس کے علاقوں میں مسلسل چیلنج کیا جا رہا ہے۔
ان کے خلاف 24 جولائی 2023 کو گورکھپور میں ‘نشاد مہاکمبھ’ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کے آرگنائزر بی ایس پی سے بی جے پی میں آئے راجیہ سبھا کے سابق ممبر جے پرکاش نشاد تھے۔ اس مہاکمبھ میں ڈاکٹر سنجے نشاد کو ‘نشاد سماج کا وبھیشن’، ‘ نشاد سماج کے ووٹوں کا سودا کرنے والا’ اور ‘وہ نشاد سماج کے بجائے اپنے بیٹوں کو سیاست میں آگے بڑھانے ‘ والا کہاگیا۔
اس کے جواب میں ڈاکٹر سنجے نشاد نے 16 اگست 2023 کو پارٹی کے آٹھویں یوم تاسیس کے موقع پر رام گڑھ تال کے کنارے واقع مہنت دگوجے ناتھ پارک میں ریلی کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس میں بی جے پی سمیت این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے لیڈران – بی جے پی کے ریاستی صدر بھوپیندر سنگھ چودھری، ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ، برجیش پاٹھک، وزیر کھیل گریش یادو، وزیر اور اپنا دل کے ورکنگ صدر آشیش پٹیل، سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے صدر اوم پرکاش راج بھر، بانس گاؤں کے ایم پی کملیش پاسوان وغیرہ نے شرکت کی۔ بی جے پی ایم پی روی کشن نے ریلی میں ڈاکٹر سنجے نشاد کی شان میں قصیدہ خوانی کی تھی۔
اس لوک سبھا الیکشن میں نشاد ووٹروں کا جھکاؤ ایس پی امیدوار کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ نشاد کی کئی تنظیموں نے ان کی حمایت کی ہے۔ اس لیے بی جے پی نے خود کو نشاد برادری پر فوکس کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خود گورکھپور دیہی علاقے کے بیلوار میں میٹنگ کی، جسے نشاد کی سیاست کا بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
گورکھپور میں بی جے پی کے لیے سب سے مضبوط مقام گورکھپور شہر ہے جہاں اسے ہر بار بڑی برتری ملتی ہے۔ ایس پی اور اپوزیشن پارٹیاں اکثر اس فرق کو پُر کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک بار گورکھپور میں ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ اگر گورکھپور شہر میں ایک فیصد زیادہ ووٹنگ ہوتی ہے تو بی جے پی کو 10 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہوتی ہے۔ اگر 70 فیصد ووٹنگ ہوتی ہے تو بی جے پی کو دو لاکھ کی برتری مل سکتی ہے۔ تاہم گورکھپور شہر میں کبھی بھی 70 فیصد ووٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ 2019 میں یہاں ووٹنگ کا تناسب 55 فیصد تھا۔ ایک سال قبل ہوئے ضمنی انتخاب میں سٹی اسمبلی حلقہ میں صرف 37.36 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی اور یہاں سے بی جے پی کو صرف 24777 ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی تھی۔ شہر میں برتری کا یہی فرق بی جے پی کی شکست کی بڑی وجہ بنا تھا۔
شہر کے علاوہ گورکھپور دیہی، سہجنوا اور کیمپیر گنج اسمبلی حلقے بی جے پی کے لیے اس وقت حساس ہو جاتے ہیں جب نشاد برادری کا کوئی امیدوار اپوزیشن سے مضبوطی سے الیکشن لڑتا ہے۔ 2018 کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو ان تینوں علاقوں سے شکست ہوئی تھی۔ پپرائچ اسمبلی حلقہ میں بھی نشاد برادری بڑی تعداد میں موجود ہے اور یہاں اکثر قریبی مقابلہ ہوتا ہے۔
گورکھپور لوک سبھا انتخاب اور اس کے نتیجے کا انحصار گورکھپور شہر میں ووٹنگ فیصد اور نشاد ووٹروں کے رخ پر ہے۔
(منوج سنگھ گورکھپور نیوز لائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)