اترپردیش تبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قانون کی قانونی ’خامیاں‘ اس کے نفاذکی بدنیتی کو دکھاتی ہیں

مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔

مدھیہ پردیش اور اڑیسہ  کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی  کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ  کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں  کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔

یوگی آدتیہ ناتھ(فوٹو بہ شکری: فیس بک/MYogiAdityanath)

یوگی آدتیہ ناتھ(فوٹو بہ شکری: فیس بک/MYogiAdityanath)

سطحی طور پر اتر پردیش غیر قانونی تبدیلی مذہب آرڈیننس،2020 ویسا ہی معلوم  ہوتا ہے جیسے کہ آٹھ دیگر ریاستوں میں پہلے سے موجود تبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قانون ہیں۔ لیکن باریکی سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ اتر پردیش کا قانون ان سب سے کہیں زیادہ سخت اور خطرناک ہے۔

یہی نہیں، اس میں ایسی کئی قانونی غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ اس قانون کو بنانے کا مقصد لوگوں کو کسی بھی صورت میں تبدیلی مذہب سے روکنا ہے اور اس عمل  میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قانونی پھندے میں پھنساکر پریشان کرنا ہے۔

اصل میں اعتراض بین مذہبی شادی سے لگتا ہے

اتر پردیش کے قانون کی سب سے انوکھی بات ہے کہ اس کی تجویز میں ہی‘شادی کے ذریعے’تبدیلی مذہب کاانسداد کیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کے قانون 1968 سے ہیں لیکن ان میں کہیں بھی شادی کی بات نہیں کی گئی ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ‘شادی کے لیے’ توتبدیلی مذہب ممکن ہے، ‘شادی کے ذریعے’ کوئی تبدیلی مذہب نہیں ہوتا۔ ایسا کہنے کا مطلب ہے کہ وہ یہ مان کر چل رہے ہیں کہ دوسرے مذہب کے فرد سے شادی کر لی تو مذہب بذات خودی  ہی بدل جاتا ہے۔ یہ سراسرجہالت ہے۔

مثلاً، اسلام کے تناظر میں لندن یونیورسٹی کے پروفیسر مشود بدیرن کا کہنا ہے، ‘اسلامی قانون کے تحت اگر کوئی مسلمان مرد کسی عیسائی یا یہودی عورت(جو اہل کتاب ہیں)سے شادی کرتا ہے تو وہ شادی کے بعد بھی اپنامذہب ماننے کو آزادہوگی۔’

تبدیلی مذہب سے اس میں کوئی ہمیشہ کے لیے پھنس نہیں جاتا

اتر پردیش کا قانون یہ سمجھ ہی نہیں پایا ہے کہ تبدیلی مذہب کوئی ایسا کیمیکل ری ایکشن نہیں ہے جو ایک بار ہو گیا سو ہو گیا۔ تبدیلی مذہب دماغ میں کیا جاتا ہے، بدن میں نہیں۔ جب بھی خیالات بدل جائیں، مذہب بدل دیجیے۔

جیسے کمپیوٹر میں‘ان ڈو’ [Undo]بٹن ہوتا ہے، اگر آپ کو کہیں سے لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ دھوکہ ہو گیا تھا یا آپ بےوقوف بنا دیے گئے تھے تو کمپیوٹر کی طرح ہی آپ اپنے دماغ میں‘ان ڈو’بٹن دبا سکتے ہیں اور نئے مذہب  سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

دھوکے سے کوئی مالی  یا دیگر نقصان ہوا ہو تو پولیس میں جا سکتے ہیں۔

آئین  کے آرٹیکل 25 میں ایسی کوئی بندش نہیں ہے کہ ایک بار آپ نے کوئی مذہب  قبول کر لیا تو آپ کسی طے مدت  تک اسے مانتے رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ آپ کی مرضی، آپ کوئی دھرم مانیں یا کوئی بھی دھرم نہ مانیں۔

جو لوگ یہ دلیل  دیں کہ اسلام قبول کرنے پر ختنہ کرانا پڑتا ہے اوربدن  میں ہو ئی اس تبدیلی کو تو ٹھیک نہیں جا سکتا، ان کی جانکاری کے لیے بتادیں کہ ختنہ کرانا مروج  ہے لازمی نہیں۔دوسری بات یہ کہ مذہب کی تبدیلی کے وقت یہ امید بھی نہیں کی جاتی کہ آپ عقل وشعور کو گروی رکھ دیے ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے بین مذہبی شادی  کے معاملے میں نظم ونسق کے خراب ہونے کی بات ہی نہیں کی تھی

اس تناظر میں کچھ لوگ سپریم کورٹ کے اسٹینسلاس فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں کہ اس میں تو مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کے تبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قانون کوجائز ٹھہرایا گیا تھا۔وہ اس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ مذکورہ  فیصلے میں ان قوانین کو اس بنیاد پرجائزٹھہرایا گیا تھا کہ جبراًتبدیلی مذہب کی وجہ سے(جس سے عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچا ہو)ریاست میں نظم ونسق  کی حالت بگڑ سکتی ہے۔

نظم ونسق  کی بات پر کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں کیونکہ جبراًتبدیلی مذہب کی صورت میں کئی جرائم شامل ہو سکتے ہیں، جیسے کسی کو مجبورکرکے رکھنا (دفعہ342 آئی پی سی)، دھمکانا (دفعہ 506 آئی پی سی)، اغوا(دفعہ 359-369 آئی پی سی)، طاقت کا استعمال(دفعہ 352 آئی پی سی)اورقہر الہی کی دھمکی دینا(دفعہ 508 آئی پی سی)وغیرہ۔

دھیان دینے کی بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کے اینٹی کنورژن لاء میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ  کیا تھا۔ اس لیے اتر پردیش کے قانون کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں  کو نظم ونسق کے سوال  سے جوڑ دے۔

ملک میں ایک سال میں لگ بھگ 36000 بین مذہبی شادیاں ہوتی ہیں، جن میں آبادی کے لحاظ سے اتر پردیش میں کوئی 6000 ہوتی  ہوں گی۔ آج تک تو ملک میں کبھی، کہیں بھی نظم ونسق کی صورتحال ان کی وجہ  سے نہیں بگڑی ہے۔ تو ایسا ماننے کی کیا وجہ  ہے کہ اب اتر پردیش میں ہی ایسے خطرے کااندیشہ  ہونے لگا؟

یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ مقتدرہ پارٹی کے نظریےکے بعض افراد اورتنظیم ہی بین مذہبی شادیوں  کے نام پر نظم ونسق بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اتر پردیش کے قانون میں غلطیوں اور بدنیتی کی کثرت

اتر پردیش کےقانون کے دفعہ2(ایف)نے ایک نئی چیز‘اجتماعی طور پر تبدیلی مذہب’کی ایجاد کی ہے۔ اگر دو سے زیادہ لوگ ایک ساتھ مذہب تبدیل  کریں گے تو وہ اس خانے میں آئےگا۔یعنی ماں باپ کے ساتھ ان کی بالغ اولاد نے بھی مذہب بدل لیا تو یہ بڑی سنگین بات ہوگی۔ اولاد نے نہیں بدلا تو اتنی سنگین بات نہیں ہوگی۔ اس بیوقوفی کو کیا کہا جائے؟

چاہے کوئی ایک مرڈر کرے یا سو، سزا اتنی ہی ہوتی ہے۔ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ تبدیلی مذہب کا موازنہ گینگ ریپ سے نہیں کیا جا سکتا۔گینگ ریپ کو زیادہ سنگین جرم  اس لیے مانا جاتا ہے کیونکہ اس میں کئی لوگوں کے ذریعہ ایک بے بس پر ظلم  کیاجاتا ہے۔

دفعہ2(آئی)نے بھی ایک ایجاد کیا ہے، ‘ریلیزن کنورٹر۔’یہ بات تو حقائق کی روسے ہی غلط ہے کیونکہ تبدیلی مذہب کے لیے کسی کنورٹر کی لازمیت نہیں ہوتی۔ آپ تنہائی  میں بھی مذہب تبدیل  کر سکتے ہیں۔جیسے، اسلام قبول کرنے کے لیے دل کی گہرائیوں اور یقین کے ساتھ اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰه اِلَّا اﷲُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُهُ کو سمجھ کر بول دینا ہی کافی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ‘کنورٹر’جیسی تصوراتی چیز کو اس لیے جان بوجھ کر گھسایا گیا ہے کہ اس بہانے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پھنسایا جا سکے۔دفعہ 3 میں بھی دو نئی چیزیں ڈالی گئی ہیں، جو مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کے تبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین  میں نہیں ہیں۔

پہلا تو ‘شادی کے ذریعے’تبدیلی مذہب۔ دوسرا تبدیلی مذہب کے لیےراغب کرنا ، یقین دلانا (کنونس)، یاسازش کرنا بھی ممنوع کر دیے گئے ہیں۔اب راغب کرنااور سازش تو آئی پی سی میں بتائے گئے ہیں۔یقین دلانا (کنونس)کہیں کسی قانون میں نہیں ہے۔ یہ خالص بکواس ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہیں چائے کی دکان پر چار لوگ کسی خاص مذہب کے بارے میں بات بھی کر رہے ہوں تو پانچواں گراہک کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے تبدیلی مذہب کی کوشش کر رہے ہیں۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس بہانے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پھنسایا جا سکے۔

اس دفعہ کا دوسرا حصہ اور بھی دلچسپ ہے۔ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ٹھیک پہلے کے مذہب کو واپس قبول کر لیتا ہے تو اس کام کو تبدیلی مذہب  مانا ہی نہیں جائےگا۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نام لیے بنا ہی یہ کس طرح  سے مبینہ ‘گھر واپسی’ کی بات کی حمایت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تبدیلی مذہب کیے ہوئے لوگوں کو ان کے پرانے مذہب میں واپس لانے کے لیے کچھ لوگ یا تنظیم کچھ بھی کریں، ان کے اوپر اس قانون کے تحت کوئی کارر وائی نہیں ہوگی۔

دفعہ 4 کہتی ہے کہ آپ سے خون، شادی یا ایڈاپشن کے ذریعے جڑے ہوئے لوگ آپ کے تبدیلی مذہب کے خلاف شکایت کر سکتے ہیں۔

ماں باپ، بھائی بہن کی شکایت کرنے کا حق تو سمجھا جا سکتا ہے،خون  کے ذریعے تو چچازاد،پھوپھازاد،ماموں زاد سب طرح کے بھائی بہن بھی جڑے ہیں۔ پھر شادی کے کے ذریعے دنیا بھر کے جیجابھابھی سالی وغیرہ  جڑے ہیں۔ یہ سب لوگ، یہاں تک کہ آپ کے گود لیے بیٹے بیٹی بھی شکایت کر سکتے ہیں۔

یعنی آپ نے مذہب کیا بدل لیا کہ ان سے زندگی بھر ڈرکر رہیے، جانے کب کون آپ کو بلیک میل کر لے!دفعہ 5 (2) کہتی ہے کہ ‘تبدیلی مذہب کے متاثرہ’ کو پانچ لاکھ روپے تک معاوضہ بھی ملےگا۔ پر کیوں، یہ نہیں بتایا گیا ہے۔


یہ بھی پڑھیں:کیا ’لو جہاد‘ پرقانون لانے کے بہانے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش ہو رہی ہے


اب تک تو سنا تھا کہ ریپ جیسے جرم کے متاثرہ  کو معاوضہ ملتا ہے۔ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی مذہب پر بھی کسی ‘تکلیف یا دکھ’سے گزرنا پڑتا ہے؟ کیا پچھلے مذہب کے دیوتاوغیرہ  خواب میں آکر ستانے لگ جاتے ہیں؟

دفعہ 8 (3) نے تبدیلی مذہب کے لیے نوٹس دینے کا انتظام کیا ہے۔ لیکن اس میں پچڑے کی بات یہ ہے کہ ڈی ایم اس پر پولیس سے انکوائری کرائیں گے۔

اب ہندستان میں کون نہیں جانتا کہ ایسےاہتمام سے پولیس کو لامحدود اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں۔ ایک تو یہ بھاری رشوت کا ذریعہ  ہو جائےگا اور دوسرے، پولیس رپورٹ میں کچھ بھی سچ جھوٹ لکھ سکتی ہے۔ پھر آپ دوڑتے رہیے ہائی کورٹ!

دفعہ 9 نے تو بیوقوفی کی ہر حد پار کر دی ہے۔ اس کے تحت تبدیلی مذہب کے بعد بھی آپ کو ڈی ایم کے یہاں ایک حلف نامہ دینا ہوگا اور وہ  اسے نوٹس بورڈ پر لگائیں گے تاکہ عوام  اس پراپنے اعتراضات  درج کرا سکیں۔

پوچھیے کیوں؟ کیا آپ کو پولیس انکوائری رپورٹ پر بھروسہ نہیں تھا؟ اور نہیں، تو پھر اس کا اہتمام ہی کیوں کیا؟ ظاہر ہے کہ پریشان کرنے کے سوا اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔

دفعہ12 دلچسپ ہے۔تبدیلی مذہب سے متعلق قانون محدود تھا اس کے ثبوت کا بوجھ تبدیل  کرانے والے کے اوپر ڈالا گیا ہے۔ یعنی جس نے مذہب تبدیل  کیا ہے، اس کے اپنے بیان کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے!حد ہے! سیدھی سی بات ہے، ساری قواعد مبینہ  کنورٹرکو تنگ کرنے کی ہے۔

اتر پردیش کے قانون کی سختی کا عالم یہ ہے کہ جہاں مدھیہ پردیش اور اڑیسہ  کے قوانین میں ایک سال کی سزا کا اہتمام ہے، اس میں سزا پانچ سال تک ہے۔مبینہ اجتماعی طور پرتبدیلی مذہب کے لیے دس سال تک کی سزا کااہتمام ہے۔

وہ بھی اسی ملک میں ہیں۔ اتنا فرق کیوں؟ قارئین  خود ہی اندازہ  لگا سکتے ہیں۔

یہ قانون ہائی کورٹ  کے فیصلوں اور آئین  کے خلاف ہے

اگر سرکار کی منشا جبراً تبدیلی مذہب کو روکنے کی ہی تھی تو اس کا سب سے آسان طریقہ تھا کہ جس نے مذہب تبدیل  کیا ہے اس سے جوڈیشیل مجسٹریٹ کے سامنے بیان دلوا دیا جاتا۔عدالت کے سامنے دیے بیان سے زیادہ اہمیت کس چیز کی ہوتی۔ لیکن یہاں تو پیچیدہ قانون بنا کر لوگوں کو تنگ کرنا ہے۔

ابھی حال میں ہی الہ آباد اور کرناٹک ہائی کورٹ نے لگ بھگ ایک سے فیصلوں میں کہا ہے کہ اپنی پسند کے شخص، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا کیوں نہ ہو، کے ساتھ رہنے کا اختیار،زندگی اور آزادی کے حق  میں مضمر ہے اور اس میں کسی طرح  سےدخل اندازی  نہیں کی جا سکتی۔

دہلی ہائی کورٹ نے تو پولیس کو ہدایت بھی دی کہ لڑکی کے والدین کو کہا جائے کہ وہ اسے دھمکانے سے باز آئیں۔اتر پردیش کا یہ قانون مذکورہ  فیصلوں کے اورآئین کے آرٹیکل 25 کے خلاف جاتا ہے۔ اس لیے امید ہے کہ عدالت کے ذریعے یہ آئین مخالف قرار دےکر رد کر دیا جائےگا۔

لیکن اس میں جو انصاف اور دلیل کے خلاف اہتمام ہیں، ان سے یہ صاف ہے کہ اسے بنانے کے پیچھے نیت کیا ہے۔ اس قانون میں بھلے ہی ‘لو جہاد’ جیسے غلط لفظوں  کا استعمال  نہ کیا گیا ہو پرعوام  اصلیت جانتی ہے۔

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)