غازی آباد میں ایک بزرگ مسلمان کی بے رحمی سے پٹائی کے سلسلے میں ٹوئٹ کرنے کے معاملے میں منگل کی دیر رات کو آلٹ نیوز کے محمد زبیر،صحافی رعنا ایوب، دی وائر، کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی، شمع محمد، صبا نقوی، ٹوئٹر انک و ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پی وی ٹی کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔
اتر پردیش کے غازی آباد میں ایک بزرگ مسلمان کی بے رحمی سے پٹائی کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے اس سلسلے میں ٹوئٹ کرنے کے لیے ٹوئٹر، کئی کانگریسی رہنماؤں اور صحافیوں کے خلاف معاملہ درج کیا ہے۔
اس معاملے میں شکایت گزار لونی بارڈر پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر نریش سنگھ ہیں۔
منگل کی رات 11.20 منٹ پر دائر ایف آئی آر میں آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر،صحافی رعنا ایوب، دی وائر، کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی، شمع محمد،صبا نقوی اور ٹوئٹر انک اور ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پی وی ٹی نامزد ہیں۔
پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ153(دنگے کے لیے اکسانا)، 153اے (مختلف گروپوں کے بیچ عداوت کو بڑھانا)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے کام کرنا)، 505(شرارت)، 120بی (مجرمانہ سازش) اور 34 (یکساں ارادے)کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
بتا دیں کہ منگل کو
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا، ‘غازی آباد ضلع کے لونی میں ایک مسلم بزرگ پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کئی دیگر رپورٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ حملہ پانچ جون کو اس وقت ہوا تھا، جب یہ بزرگ نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے۔’
عبدالصمد (72) نام کے شخص کا
الزام تھا کہ پانچ جون کو ان پر حملہ کیا گیا۔ حملہ آوروں نے ان کی داڑھی بھی کاٹ دی، جیسا کہ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا۔
اس کے بعد صمد نے سات جون کو نامعلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ وائرل ویڈیو میں بزرگ کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ حملہ آوروں نے ان سے جبراً جئے شری رام کے نعرے لگانے کو کہا اور ان پر مسلمان ہونے کی وجہ سے حملہ کیا گیا تھا۔
معاملے میں بزرگ کی مبینہ پٹائی کے لیےملزم پرویش گرجر، کلو گرجر اور عادل کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
صمدبنیادی طور پر بلندشہر کے رہنے والے ہیں، جو کسی کام سے لونی آئے تھے۔ د ی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ
عادل کا کہنا تھا کہ وہ صمد کو بچانے کی کوشش کرنے جائے وقوع پر پہنچا تھا۔
صمد نے وائرل ویڈیو میں کہا تھا کہ کچھ لوگوں نے انہیں آٹو میں لفٹ دی اور اسے سنسان جگہ پر لے گئے اور وہاں اس کی پٹائی کی گئی اور جئے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہا گیا۔
حالانکہ بعد میں پولیس نے اپنی وضاحت میں کہا، ‘یہ نجی معاملہ تھا۔ ملزمین نے بزرگ کی پٹائی اس لیے کی کیونکہ مسلم بزرگ نے حملہ آوروں کو ایک تعویذ دیا تھا، جس کے بارے میں ملزمین کا ماننا تھا کہ یہ تعویذ ان کی فیملی کے ممبر کے اسقاط حمل کی وجہ بنا۔’
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ غازی آباد پولیس کی وضاحت کے باوجودملزمین نے اپنے ٹوئٹ ڈی لٹ نہیں کیے اور نہ ہی ٹوئٹر نے ان ٹوئٹس کو ڈی لٹ کرانے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا، ‘ایسی امید تھی کہ سماج میں بااثر عہدوں پر موجود لوگ سچ پتہ لگانے کی کوشش کریں گے اور جانکاری دیتے وقت اپنی صواب دید کا استعمال کریں گے۔ ملزمین کی سماج کے تئیں کچھ ذمہ داری ہے۔ اس معاملے میں ٹوئٹ کی تصدیق نہیں کی گئی، جس وجہ سے غیر مصدقہ ہونے کے باوجود معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا۔’
آگے ایف آئی آر میں کہا گیا، ‘یہ ٹوئٹ سماج میں امن وامان کو متاثر کرنے کی منشا سے کیے گئے تھے۔ ان ٹوئٹس سے نہ صرف تناؤ پیدا ہوا بلکہ اتر پردیش میں ایک خاص طبقے میں خوف و ہراس بھی پھیلا۔’
لونی بارڈر پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر نے منگل کو
دی وائر سے بات چیت میں کہا کہ بزرگ کو جئے شری رام کا نعرہ لگانے کے لیے مجبور نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ ‘اجنبیوں کے ذریعے’ کیا گیا۔ وہ سب ان کے ‘ناراض’ گراہک تھے۔
انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ اس معاملے میں ملزمین مسلمان بھی ہیں۔
اس سے پہلے مسلم بزرگ پر حملے کے مبینہ واقعہ پر کانگریس کے سینئررہنما راہل گاندھی نے ٹوئٹ کر کہا تھا، ‘میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ شری رام کے سچے بھکت ایسا کر سکتے ہیں۔ ایسی سفاکیت انسانیت سے کوسوں دور ہے اور سماج اور مذہب دونوں کے لیے شرمناک ہے۔’
اس کے جواب میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹوئٹ کر کہا، ‘پربھو شری رام کی پہلی سیکھ ہے، سچ بولنا جو آپ نے کبھی زندگی میں کیا نہیں۔ شرم آنی چاہیے کہ پولیس کے ذریعے سچائی بتانے کے بعد بھی آپ سماج میں زہر پھیلانے میں لگے ہیں۔ اقتدارکے لالچ میں انسانیت کو شرمسار کر رہے ہیں۔ اتر پردیش کی عوام کی توہین کرنا، انہیں بدنام کرنا چھوڑ دیں۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)