عالمی شہرت یافتہ ادیبہ اور سماجی کارکن ارندھتی رائے نے کہا کہ اپوزیشن وزیر اعظم کو روک سکتی ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں اکیلے بی جے پی کو شکست نہیں دے سکتیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جے ڈی یوجیسی دیگر جماعتوں کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ایک ساتھ آنا ضروری ہے۔
ارندھتی رائے(فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے بانی لالو پرساد کی صحت کی وجہ سے فعال سیاست سے غیر حاضری پر تبصرہ کرتے ہوئےمعروف ادیبہ اور کارکن ارندھتی رائے نے جمعہ کو کہا کہ وہ ایک ایسے سیاستداں ہیں جو وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹکر دے سکتے تھے۔
دی ہندو کے مطابق، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن پارٹی کی 11ویں کانگریس میں شرکت کے لیے پٹنہ آئیں ارندھتی رائے نے اڈانی گروپ کے بارے میں ہنڈن برگ ریسرچ رپورٹ کے حوالے سے وزیر اعظم کو نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اڈانی کی خامیوں کو چھپانے کے لیے ملک کو وقت سے پہلے لوک سبھا انتخابات میں دھکیلا جا سکتا ہے۔
رائے نے کہا کہ اپوزیشن وزیر اعظم کو روک سکتی ہے،لیکن تبھی جب اسے احساس ہو جائے کہ یہ وجود کی لڑائی ہے۔ انھوں نے کہا، ‘بالآخر 37 فیصد لوگوں نے انھیں ووٹ دیا۔ اس اعداد و شمار کے لیے ہم انتخابی ریاضی جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ اس ملک میں کیسے کام کرتا ہے۔
ارندھتی رائے نے جنتا دل (متحدہ)، آر جے ڈی اور کانگریس کے ایک ساتھ آنے پر خوشی کا اظہار کیا، جن کی بہار میں گٹھ بندھن والی حکومت ہے۔ تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار دوبارہ اپنی وفاداری نہیں بدلیں گے۔
انہوں نے کہا، ‘اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ بہت افسوسناک ہوگا۔ میرے لیے ان لوگوں پر بھروسہ کرنا بہت مشکل ہے جنہوں نے ماضی میں بی جے پی پر بھروسہ کیا ہے۔
ان قیاس آرائیوں پر کہ نتیش کمار اگلے اسمبلی انتخابات سے پہلے لالو پرساد یادو کے بیٹے اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کو باگ ڈور سونپ سکتے ہیں، رائے نے کہا کہ ان میں ریاست کی قیادت کی صلاحیت ہے۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق، رائے نے اصرار کیا کہ بائیں بازو کی جماعتیں اکیلے بی جے پی کو شکست نہیں دے سکتیں۔ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی جے ڈی یو جیسی دیگر پارٹیوں کا ایک ساتھ آنا ضروری ہے۔
ارندھتی رائے نے کہا کہ فسطائیت نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جہاں لوگوں کی رائے ہے کہ ملک کو صرف چار لوگ چلا رہے ہیں- دو خرید رہے ہیں، دو بیچ رہے ہیں۔ رائے نے کہا، وہ چار لوگ- وزیر اعظم، وزیر داخلہ، امبانی اور اڈانی ہیں۔
رائے نے کہا، تاہم، جرمنی اور ہندوستان کے فاشزم میں فرق ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب جرمنی معاشی طور پر زوال پذیر تھا، تب ہٹلر نے اقتدار سنبھالی تھی۔ انہوں نے اپنے ملک کو بنایا اور فضائیہ کھڑی کی، لیکن یہاں فاشسٹ سب کچھ تباہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘متشدد ہندو فاشزم کو بڑے کارپوریٹ گھرانوں نے لکھا ہے اور یہ وکاس کا گجرات ماڈل ہے۔ کیا ہم فسطائیت کو صرف اس وقت فاشزم کہیں گے جب کوئی براعظم تباہ ہو جائے؟ فسطائیت کے خلاف ذات پات اور سرمایہ داری مخالف لوگوں کو متحد ہوناپڑے گا۔
ہنڈن برگ کی اس رپورٹ پر جس میں اڈانی گروپ کے ذریعے اکاؤنٹنگ فراڈ اور اسٹاک میں ہیرا پھیری کا الزام لگایا گیا تھا اور بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس کے چھاپے کےتناظرمیں مرکز کی بی جے پی کی قیادت والی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رائے نے کہا کہ ملک کی پالیسیاں اڈانی کے حق میں ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘یہ ایک بہت بڑا بحران ہے۔ بین الاقوامی بینک اڈانی کو پیسہ دینے سے انکار کر رہے ہیں، لیکن بڑی تعداد میں پروجیکٹ ان کے ہاتھ میں ہیں۔ ان کا کیا بنے گا؟ حکومت انہیں (اڈانی)پیسہ دینے کے لیے بینکوں اور ایل آئی سی پر دباؤ ڈالے گی۔ جب یہ سب ہو رہا ہے تب انکم ٹیکس کا چھاپہ کہاں پڑا؟ یہ بی بی سی پر ہوا۔
رائے نے کہا کہ انہوں نے مودی پر دو حصوں پر مشتمل بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھی ہے، جس میں 2002 کے گجرات فسادات کے دوران وزیر اعلیٰ اور بعد میں وزیر اعظم کے طور پر ان کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں بھی ان میں سے ایک میں موجود ہوں۔ ہم یہ تاریخ میں درج کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں جو کچھ ہوا اس سے بہت سے لوگ متفق نہیں تھے۔