مغربی بنگال : اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کے لیے کون ذمہ دار ہے؟

03:33 PM Feb 26, 2019 | امیش کمار رائے

گراؤنڈ رپورٹ: مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اکثر یہ کہتی ہیں کہ ان کو صوبے کے اقلیتوں کی بہت فکر ہے اور وہ ان کی ترقی کے لئے کافی کچھ کر رہی ہیں۔ لیکن اردو میڈیم اسکولوں کی زبوں حالی اور  اساتذہ کی قلت ان کے دعوے پر سنگین سوال کھڑے کر تی  ہے۔

کولکاتا :صبح کے تقریباً نو بجے ہیں۔ کولکاتا کے مسلم اکثریت علاقہ بیک باگان کے دل خُشا اسٹریٹ میں کھڑے ہلکے اور گہرے نیلے اور سفید رنگ سے رنگی ہوئی عمارت کے اندر گہماگہمی ہے۔ بچوں کا شور ہے۔ بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور میں بائیں طرف سلسلہ وار کئی کمرے ہیں، جن میں بچے ہیں۔ دائیں طرف اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا دفتر ہے۔دفتر میں ٹیبل پر فائلوں کا انبار ہے۔ سامنے کرسی پر پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر محمد نسیم بیٹھے ہیں۔ رجسٹر میں کچھ نوٹ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی بچوں کے گارجین سے بھی بات کر رہے ہیں۔

اسی بلڈنگ میں ڈاکٹر اے ایم او غنی میموریل پرائمری اسکول اور لڑکیوں کا کاسیہ باگان اردو گرلس ہائی اسکول چلتا ہے۔ اس بلڈنگ  میں پانچویں سے ساتویں تک کاسیہ باگان اردو بوائز جونیئر ہائی اسکول بھی چلتا تھا، جو ایک سال سے بند ہے۔کاسیہ باگان اردو بوائز جونیئر ہائی سکول کو سال 2013 میں مغربی بنگال حکومت سے منظوری ملی تھی۔ اس کے باوجود ایک بھی ٹیچر کی تقرری نہیں ہو پائی۔ نتیجتاً  دو بار اس کو بند کر دینا پڑا۔ دونوں بار کچھ وقفے پر اسکول شروع ہوا، لیکن جب اسکول چلانا ناممکن ہو چلا، تو سال بھر پہلے تیسری بار اس کو بند کر دیا گیا۔ تب سے یہ بند ہی ہے۔

محمد نسیم کہتے ہیں،ٹیچر نہیں ہونے سے بچوں کو پڑھانا مشکل تھا۔ حالانکہ، اپنی جیب سے تنخواہ دےکر ہم نے تین ٹیچر رکھے تھے، لیکن بعد میں اس کو جاری رکھنا ناممکن سا ہو گیا، تو بند کر دینے کے علاوہ کوئی چارا نہیں بچا۔ ‘جب اسکول بند ہوا، تو تین جماعتوں میں تقریباً 60 بچے پڑھ رہے تھے۔ ان کا داخلہ دوسرے اسکولوں میں کرایا گیا۔

بلڈنگ  کی دوسری منزل پر لڑکیوں کا اسکول چلتا ہے۔ اس میں پانچویں سے دسویں درجے تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہر درجے کے دوتین سیکشن ہیں اور کل 650 لڑکیوں کا داخلہ ہے۔اس کو منظوری ملے سات سال گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک یہاں اساتذہ کی کمی کا معاملہ برقرار ہے۔ سال 2011 سے سال 2015 تک ایک ہی ٹیچر کے بل بوتے یہ اسکول چلا۔ سال 2015 میں ایک اور ٹیچر کی تقرری ہوئی۔

اسکول کی  ہیڈ ماسٹر سیدہ پروین سال 2011 سے یہاں پڑھا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، اس اسکول میں اساتذہ کے کل منظورشدہ عہدہ 12 ہیں، لیکن محض دو اساتذہ کے بھروسے چل رہا ہے۔ 15 دن پہلے ایک اور ٹیچر کی تقرری ہوئی ہے۔ سال 2011 سے 2015 تک تو میں اکیلی اسکول چلاتی تھی۔ ‘انہوں نے کہا، اول تو ٹیچر کم ہونے سے ویسے ہی وقت نہیں ملتا ہے اور دوسرا ہر دوسرے دن حکومت نئی اسکیم نافذ کر دے رہی ہے۔ ان کے ریکارڈ بھی ہمیں ہی مینٹن کرنا ہوتا ہے۔ بہت دقتوں سے اسکول کاکام  جاری ہو رہا ہے۔ حکومت اساتذہ کی تقرری کی طرف دھیان ہی نہیں دے رہی ہے۔ ‘

اساتذہ  کی قلت سے لڑکیوں کی پڑھائی متاثر نہ ہو، اس کے لئے آٹھ پارٹ ٹائم اساتذہ  کو رکھا گیا ہے۔ ان کو طالبات سے ملنے والی فیس سے تنخواہ دی جاتی ہے۔سیدہ پروین کہتی ہیں،یہاں پڑھنے والی طالبات غریب طبقے سے آتی ہیں، اس لئے ان سے زیادہ فیس بھی نہیں لیا جا سکتا ہے۔ ہم 240 روپیہ فیس لیتے ہیں اور اسی سے پارٹ ٹائم ٹیچرکو 2500-2500 روپے تنخواہ دیتے ہیں۔ ڈھائی ہزار میں کیسے ٹیچر ملیں‌گے، یہ تو آپ بھی جانتے ہی ہوں‌گے! ‘

اس اسکول سے محض 10سے15 منٹ کے فاصلے پر پاکستان بازار میں واحد میموریل ہائی اسکول ہے۔ نئے سرے سے رنگ وروغن ہونے سے اسکول کی عمارت چمچما رہی ہے، لیکن تعلیم کی حالت اتنی درخشاں نہیں ہے۔واحد میموریل اردو ہائی سکول کو حکومت سے منظوری سال 2000 میں ملی تھی۔ فی الحال اس میں پانچویں سے دسویں تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ یہاں قریب 480 بچوں کا داخلہ ہے اور اساتذہ کے کل 12 عہدے ہیں۔ ان میں سے چھے عہدے خالی ہیں۔ کلرک اور غیر ٹیچنگ اسٹاف کے کل تین عہدے ہیں۔ ان میں سے دو عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں۔

اسکول کے ہیڈ ماسٹر عبدالرحیم کہتے ہیں،جغرافیہ، علم طبیعیات جیسے اہم موضوعات کے استاد اسکول میں نہیں ہیں۔ میں نے سال 2011 میں اس اسکول کو جوائن کیا اور تب سے ایسے ہی چل رہا ہے۔ جبکہ طالب علموں کی تعداد سال در سال بڑھ رہی ہے۔ سال 2016 میں اسکول میں 464 طالب علموں نے داخلہ لیا تھا۔ سال 2018 میں 482 طالب علموں نے داخلہ لیا۔ ‘جن دو اسکولوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ وہ صرف مثالیں ہیں۔ مغربی بنگال کے تمام دوسرے اردو میڈئم اسکول اسی طرح اساتذہ کی بھاری قلت سے کراہ رہے ہیں۔ اساتذہ کی کمی نے بچے-کھچے ٹیچروں پر اضافی دباؤ بنا دیا ہے، جس سے بچوں کی تعلیم پر بھی خاصا اثر ہو رہا ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق مغربی بنگال میں مسلموں کی آبادی 24654825 (کل آبادی کا 27.01 فیصدی) ہے۔ ان میں اردو بولنے والے مسلموں کی تعداد 1663519 ہے۔ اس آبادی کے لئے صوبے بھر میں 80 کے قریب اردو اسکول (پانچویں سے ساتویں، پانچوی سے دسویں اور دسویں سے بارہویں تک کی تعلیم)ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھیں، تو یہ اسکول ناکافی ہیں۔ بہت علاقے ایسے بھی ہیں جہاں آبادی زیادہ ہے اور اسکولوں کی تعداد بےحد کم۔لیکن، نئے اسکول کھولنا تو دور، جو اسکول ہیں، وہاں خاطر خواہ اساتذہ  ہی نہیں ہیں۔

آل بنگال اردو میڈیم اسکولس ایسوسی ایشن  کی طرف سے صوبے کے 58 اسکولوں کا دورہ کیا گیا اور اساتذہ کے منظورشدہ عہدے اور اساتذہ کی تقرری کے اعداد و شمار درج کئے گئے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 58 اسکولوں میں اساتذہ کے کل 1268 عہدے ہیں۔ ان میں 727 اساتذہ کے عہدے خالی ہیں۔آل بنگال اردو میڈیم اسکولس ایسوسی ایشن کے صدر آفتاب عالم بتاتے ہیں، محکمہ برائے تعلیم اور صوبے کی حکومت کے درمیان آپسی تال میل کی کمی دکھ رہی ہے۔ بچّے اسکولوں تک آئیں، اس لئے تو بہت ساری اسکیمیں ہیں، لیکن اسکولوں میں اچھی تعلیم ملے،خاطر خواہ  اساتذہ  ہوں، اس پر کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے۔ ‘

انہوں نے کہا، اردو اسکولوں میں اساتذہ کے خالی عہدوں کو بھرنے کے لئے محکمہ برائے تعلیم، ریاستی حکومت، اقلیتی کمیشن سمیت تمام تنظیموں کو خط لکھے گئے، لیکن کہیں سے کوئی پختہ پہل قدمی اب تک نہیں ہوئی ہے۔ ‘غور طلب ہو کہ سال 2011 میں مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت بنی تھی، تو ممتا بنرجی نے اعلان کیا تھا کہ جس علاقے میں بھی اردو زبان والوں کی آبادی 10 فیصدی سے زیادہ ہوگی، وہاں اردو کو بھی سرکاری زبان کا درجہ ملے‌گا۔ سال 2012 میں اس کو لےکے ایک ایکٹ بھی پاس ہوا اور اس اعلان کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔

اس سے اردو بولنے والوں میں امید جگی تھی کہ سرکاری زبان کا درجہ مل جانے سے اردو کی پڑھائی بھی بہتر ہوگی، لیکن یہ آبادی اب خود کو ٹھگا ہوا محسوس‌کر رہی ہے۔عظیم پریم جی فاؤنڈیشن سے جڑے محقق شیخ خورشید عالم نے بنگال میں اردو میڈیم اسکولوں کو لےکر وسیع ریسرچ کیا ہے۔ انہوں نے دی وائر اردو کو بتایا، ریسرچ کرتے ہوئے مجھے پتہ  چلا کہ حکومت نہیں چاہتی ہے کہ اردو میڈیم اسکول چلے۔ اسکولوں کو منظوری مل بھی جاتی ہے، تو اقتصادی مدد نہیں مل پاتی ہے۔ واضح طور پر دکھتا ہے کہ ریاستی حکومت اردو اسکولوں کو لےکر بہت سنجیدہ نہیں ہے۔ ‘

وہ کہتے ہیں، کسی بھی برادری کی ترقی کے لئے امداد سے زیادہ تعلیم کی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن، حکومت تعلیم کو ہی نظرانداز کر رہی ہے۔ ‘اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی قلت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کافی وقت سے ان اساتذہ کی بھرتی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری بڑی وجہ ہے ایس سی –ایس ٹی کے لئے سیٹوں کا (100 پوائنٹ روسٹر کی بنیاد پر) ریزرویشن۔

جان کار بتاتے ہیں کہ اردو بولنے والی برادری میں ایس سی –ایس ٹی نہیں  ہے، جس کی وجہ سے ان کے لئے ریزرو عہدے سال در سال خالی رہ جاتے ہیں۔کولکاتا کے پاکستان بازار میں واقع واحد میموریل ہائی اسکول میں اساتذہ کے کل 12 عہدوں میں سے 4 عہدے ریزرو ہیں۔ ان میں تین عہدےایس سی – ایس ٹی اور ایک او بی سی کے لئے ہے۔ یہ عہدے پچھلے سات سالوں سے خالی ہیں۔

دیگر اسکولوں میں ریزرو عہدے خالی ہیں۔ مغربی بنگال کے 58 اسکولوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اساتذہ کے خالی 727 عہدوں میں سے 451 عہدے ریزرو ہیں۔واحد میموریل ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر عبدالرحیم نے کئی دفعہ خط لکھ‌کے محکمہ برائے تعلیم سے التجا کی کہ اردو بولنے والی برادری میں ایس سی –ایس ٹی نہیں ہوتے ، اس لئے ریزرو عہدوں کو جنرل کر دیا جائے۔

انہوں نے کہا، ‘ کافی دوڑدھوپ کرنے کے بعد حکومت نے تین ریزرو عہدے تو جنرل کر دیے، مگر یہ بھی شرط لگا دی کہ مستقبل میں جب تقرری ہوں‌گی، تو غیر محفوظ عہدوں کو درج فہرست ذاتوں اور قبائلی لوگ کے لئے ریزرو کر دیا جائے‌گا۔ ‘آل بنگال اردو میڈیم اسکولس ایسوسی ایشن کے صدر آفتاب عالم نے کہا، اردو اسکولوں سےایس سی –ایس ٹی کے لئے ریزرو عہدوں کو ختم کر ان کو جنرل طبقے میں لانے کے لئے مغربی بنگال حکومت سے دہائی لگائی گئی تھی، لیکن حکومت نے دو ٹوک جواب دے دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ ‘

مغربی بنگال کے پسماندہ طبقہ فلاح و بہبود محکمے کے ایک افسر نے نام نہیں چھاپنے کی شرط پر کہا، ‘ ویسٹ بنگال ایس سی اینڈ ایس ٹی (ریزرویشن آف ویکینسیج ان سروسز اینڈ پوسٹس) ایکٹ، 1976 میں مرکزی حکومت کی تقرری، مغربی بنگال میں اعلیٰ عدالتی خدمات میں بھرتی، نجی شعبے میں تقرری، گھریلو خدمات میں نوکری اور سنگل عہدہ کیڈر کی تقرری کو ریزرویشن کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ ‘

مذکورہ افسر نے آگے کہا، ‘ حکومت سے تسلیم شدہ تعلیمی اداروں میں یہ ایکٹ نافذ ہوتا ہے، اس لئے اردو اسکولوں میں ایس سی – ایس ٹی کے لئے ریزرو عہدہ ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ‘گزشتہ دنوں مغربی بنگال اسکول سروسز کمیشن (ایس ایس سی) نے اعلان کیا کہ مارچ میں 42 ہزار اساتذہ کی بھرتی کا عمل شروع کیا جائے‌گا۔ لیکن، سوال پھر وہیں اٹھتا ہے کہ ریزرو عہدوں پر تقرری کیسے ہوگی۔

اساتذہ کی قلت کو لےکے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ  کے چیف  سکریٹری منیش جین کو فون کیا گیا، تو ان کے دفتر کے ملازمین‎ نے بتایا کہ وہ بہت مصروف ہیں۔اس بارے میں تعلیم کے وزیر ارجن چٹرجی سے موبائل پر رابطہ کیا گیا، لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ سوالوں کی فہرست ان کو میل کی گئی ہے۔ جواب ملنے پر اسٹوری اپ ڈیٹ کر دی جائے‌گی۔

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اکثر یہ کہتی ہیں کہ ان کو صوبے کے اقلیتوں کی بہت فکر ہے اور وہ ان کی ترقی کے لئے کافی کچھ کر رہی ہیں۔ لیکن اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی قلت ان کے دعوے پر سنگین سوال کھڑے کر رہی ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)