لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ،انتخاب آتے ہیں اور ہمیں وعدوں کی پوٹلی تھمادی جاتی ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کم وبیش تمام جگہوں پر آبی جماؤ کامسئلہ ہے۔
خضرپور میں آبی جماؤ، فوٹو: طلعت صلاح الدین
عائشہ حنا کے لیے بارش کامہینہ زحمت بن کرآتاہے۔بارش کی آمد کے ساتھ ہی ان کا ایک کمرے کا آنگن والا مکان بڑے نالے کی صورت اختیار کر لیتاہے۔سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ یہاں پانی ایک ہی جگہ ٹھہرا رہتاہے۔
کولکاتہ کے اقبال پورکے بنگالی شاہ وارثی لین میں رہنے والی حنااس سلسلے میں کہتی ہیں کہ یہاں تین سے چاردن تک پانی بھرارہتاہے۔
ان کے مطابق، کمرے میں ایک ہی پلنگ ہے، جوساس سسر،شوہر اور دوبچوں کے لیے واحد پناہ گاہ ہے۔کبھی کبھی تو رات میں اچانک پانی آجانے کی وجہ سے زمین پربچھابستربھی جلد بازی میں اٹھاناپڑتاہے۔ کھانے پینے کا مسئلہ الگ سےہوجاتاہے۔رسوئی کے برتن تک پانی میں تیرنے لگتے ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں، کئی دفعہ تورات کھڑے ہوکر گزارنی پڑتی ہے۔ اس قدر پریشانی کے باوجود نہ ہی انتظامیہ کو ہماری فکر ہے اور نہ ہی کونسلرکبھی یہاں جھانکنے آتے ہیں۔ برسات میں سات -آٹھ مرتبہ اس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ ابھی تو کسی طرح مشکل سے شیلف بنایا ہے جہاں خودکومحفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ان کی مانیں تو گزشتہ چندبرسوں میں حالات مزید بدتر ہوئے ہیں۔ پہلے ایک دودن میں پانی نکل جاتاتھا، لیکن اب تین چار دنوں تک پانی ٹھہرا رہتاہے۔وہ کہتی ہیں ، پوراشہرسوکھ بھی جائے، لیکن یہ علاقہ ایسے ہی آبی جماؤسے متاثر رہتاہے۔حالیہ برسوں میں ہماری پریشانی اور بڑھ گئی ہے۔
غورطلب ہے کہ عائشہ جس علاقے میں رہتی ہیں،وہ بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا اسمبلی حلقہ ہے۔
گزشتہ برس اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے دوران وزیراعلیٰ کو شاید اس کا احساس ہوا تو انہوں نے سختی سے کام لیتے ہوئے شہرکے میئرکوآبی جماؤکے مسئلہ کو حل کرنے کی ہدایت بھی دی تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس علاقے یعنی خضرپور،مومن پور اور اقبال پورکو ملاکرنو سے دس لاکھ کی آبادی ہوگی۔اس طرح دیکھیں تو اتنی بڑی آبادی آبی جماؤ کے مسئلے سے دوچار ہے۔
بتادیں کہ شہرکے تمام بستی–علاقوں کی حالت ایک جیسی ہے۔بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں کی حالت تو بالکل غیر ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جو کثیرمنزلہ عمارتیں ہیں اس کے سامنے سے پمپ لگاکر کسی طرح پانی نکال لیا جاتاہے، جبکہ نشیبی علاقے بالخصوص بستیاں آبی جماؤ کے اس مسئلے سے شدید طور پردوچار ہیں۔
لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس دوران اسکول بندکرنے پڑتے ہیں اوربجلی کے جھٹکے سے ہونے والی اموات بھی انہی علاقوں میں دیکھنے کوملتی ہیں۔
قریب کے ہی علاقے خضرپور میں رہنے والے فیاض خان کا کہنا ہے کہ آبی جماؤ کامسئلہ بڑھتاجارہاہے۔
وہ کہتے ہیں ،انتخاب آتے ہیں اور ہمیں وعدوں کی پوٹلی تھمادی جاتی ہے۔ اقلیتی علاقوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کم وبیش تمام جگہوں پر آبی جماؤ کامسئلہ ہے۔ اورہمارے علاقے کی حالت تو بالکل ہی غیر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ،بارش ختم ہونے کے دودنوں کے بعد ہی پانی نکلتاہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ،وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے ہمیں یقین دلایاتھاکہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اس سال خوش قسمتی سے اتنی بارش نہیں ہوئی، لیکن یہ خوش قسمتی کب بدقسمتی میں بدل جائے کسی کو پتہ نہیں ۔نکاسی کے لیے بنائے گئے نالوں کی صفائی تک نہیں ہوتی اور جب حالت بد سے بدترہو جاتی ہے تو مقامی لوگوں کو ہی راستہ نکالنا پڑتا ہے۔
جانکاری کے مطابق، کولکاتہ کے راجہ بازار،نارکل ڈانگہ، توپسیا،تلجلہ،پکنک گارڈن،موتی جھیل،بہالہ، آنندپالت،مہد ی بگان، بائی پاس ،گڑیا، جادوپور،ایم جی روڈ،ٹھنٹھنیا، بڑابازار،زکریا اسٹریٹ ،مٹیابرج وغیرہ تمام علاقوں کی کہانی یہی ہے۔وہیں اب ایک جانب طوفان کی شدت اوردوسری جانب اچانک سیلابی بارش نے بھی مسئلہ کھڑاکردیا ہے۔
جنوبی کولکاتہ کے 34نمبر بہالہ کے سیل پاڑہ کے رہنے والے شائنتن بھٹاچاریہ نے کہاکہ یہاں میرے دادارہتے تھے اورہم تیسری نسل ہیں،لیکن آبی جماؤ کامسئلہ جوں کاتوں ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ یہ حلقہ سابق میئرشوبھن چٹرجی کاہے۔
مشرقی کولکاتہ کے شری دھر رائے روڈ کی فریدہ مارفتیانے کہاکہ ہم 15برس سے یہاں رہ رہے ہیں ا اوربارش کے دنوں میں یہاں پورے علاقے کاپانی نکل بھی جائے لیکن ہماراروڈ بھرا ہی رہتاہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ، بارش میں بلدیہ کاہیلتھ سینٹر بھی ڈوبارہتا ہے۔
قابل غور ہے کہ یہ ترنمول کانگریس کے وزیر برائے ڈیزاسٹر مینجمنٹ جاوید احمد خان کا اسمبلی حلقہ ہے۔
اس سلسلے میں کولکاتہ میونسپل کارپوریشن کے سابق نکاسی انجینئر نے کہا کہ کولکاتہ کے 1851اسکوائرکلومیٹر قدیمی ڈرینج سسٹم آنے والے چیلنج کے مقابلے کے لیے ناکافی ہے۔کیونکہ شہرغیرمنصوبہ بند طریقے سے بساہے۔اس لیے ابھی ان نالوں کی حالت بہترکرنے کی ضرورت ہے۔
ایسٹ کولکاتہ ویٹ لینڈپوری دنیامیں سب سے بہترین ویٹ لینڈ ہے۔اصل میں اس ویٹ لینڈ کی خاصیت یہی ہے کہ یہ اپنے اندرگندہ پانی جذب کرکے صاف پانی مہیاکرسکتاہے۔یعنی کم خرچ میں نیچرل نکاسی نظام ہے۔ لیکن ابھی حالت یہ ہوئی ہے کہ اس ویٹ لینڈ کو چند سیاسی فائدے کی وجہ سے قبضہ اور کنکریٹ کے تعمیرات کرکے بندکردیا ہے۔
جادوپوریونو رسٹی کے پروفیسرتوہین گھوش نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں کولکاتہ کو غیر منصوبہ بندشہرکہنابندکرناپڑے گا۔ کولکاتہ کی ایک خاصیت یہاں کی ویٹ لینڈہے۔ انہوں نے کہاکہ ویٹ لینڈ سے نکاسی میں کوئی خرچ نہیں آئے گایعنی پمپنگ اسٹیشن بناکر پانی گنگامیں پھینکاجاسکتاہے لیکن کھالوں یعنی کھلے بڑے نالوں پرقبضہ ہوگیااوربیشترویٹ لینڈکوبندکردیا گیا اس سے پانی نکلنے کاکوئی راستہ نہیں مل پارہاہے۔
شہرکے میئر فرہادحکیم نے اعتراف کیاکہ شہر شدیدآب وہواکے خطرے سے دوچار ہے اور بتایا کہ شہری ادارہ اس رحجان کامقابلہ کرنے کے لیے تیزی سے ایک تفصیلی منصوبہ تیارکررہا ہے۔ قدیمی نکاسی نالے کو بہترکرنے اور ویٹ لینڈسے قبضہ ختم کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔
نکاسی کے مسئلے پر کولکاتہ میونسپل کارپوریشن کے ممبرمیئران کونسل(نکاسی)تارک سنگھ نے کہاکہ ہمارے پاس ایک گھنٹے میں 20ملی میٹربارش نکاسی کی صلاحیت ہے، لیکن ان دنوں بارش زیادہ ہورہی ہے۔انہوں نے موسم کو ذمہ دار ٹہر اتے ہوئے کہاکہ ہم نالوں سے مٹی نکالنے کاکام لگاتار کررہے ہیں۔
ا
ٓبی جماؤ ہی واحدمسئلہ نہیں گلوبل وارمنگ بھی ایک پہلو
معلوم ہو کہ گزشتہ مہینو ں میں شمالی بنگال میں مانسون میں گرم لہریں چلی تھیں ۔جس سے اموات بھی ہوئی تھیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سب گلوبل وارمنگ کا اثرہے۔جس کی وجہ سے خلیج بنگال میں طوفان کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
اس کے ساتھ ہی کولکاتہ میں پانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ گلوبل وارمنگ اورانسانی غلطیوں کاخمیازہ کولکاتہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
امسال بارش بھی علاقائی سطح پر ہورہی ہے۔اگرشمالی کولکاتہ میں گرج کے ساتھ بارش ہورہی ہے تو جنوبی کولکاتہ میں قحط پڑا ہوا ہے۔بعض اوقات سو میٹرکی دوری والاعلاقہ تک سوکھارہتاہے اوربقیہ جگہوں پر بارش ہوتی رہتی ہے۔ ان سب کے درمیان انتظامہ بھی کلائمیٹ چینج اور کولکاتہ کوغیرمنصوبہ بند شہر کہہ کراپنادامن جھاڑرہی ہے۔
اس سلسلے میں جادوپوریونیورسٹی کے اسکول آف اوشین گرافک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر توہین گھوش کا کہنا ہے کہ ان دنوں کولکاتہ میں چندگھنٹے میں ہی اتنی بارش ہوجاتی ہے کہ وہ پورے ماہ کی ضرورت کوپوراکردیتی ہے۔ وہیں مانسون میں تاخیربھی ایک مسئلہ ہے۔
گھوش نے بتایا کہ سمندری سرفیس ٹمپریچربڑھ رہاہے اور اچانک اتنی موسلادھار بار ش ہورہی ہے کہ آبی جماؤ کامسئلہ پیداہورہا ہے۔جھارکنڈ اور بہارکے پہاڑ ختم ہوگئے اور اب وہاں سے گرم ہواآسانی سے بنگال میں داخل ہورہی ہے۔
یہاں قابل غوربات یہ بھی ہے کہ گنگا میں جوار آرہاہے، اس لیے شہرجل تھل ہوجاتاہے۔ کیونکہ نیچرل کورس میں نکاسی سسٹم جسے ہم ویٹ لنڈ کہتے ہیں وہ انسانی کم عقلی کی وجہ سے بلاک کردیا گیا ہے۔
پروفیسرکے مطابق، امس کی وجہ گرین گیس اور آلودگی ہے۔یہاں ہیٹ ویویعنی گرم ہواکونکلنے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔
سال 2018کی آئی پی سی سی رپورٹ کے مطابق 2030-2025میں گلوبل وارمنگ 1.5ڈگری تک پہنچ جائے گی۔یہ عملی طورپر یقینی ہے کہ1950کی دہائی کے بعد سے زیادہ ترزمینی خطوں میں گرمی انتہائی شدید ہوگئی ہیں۔ یہ قیاس لگایاجارہاہے کہ21وی صدی کے آخرتک سمندری سطح میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔کیونکہ سمندرکی سطح گرم ہورہی ہے اوربرف اور گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔
موسم کی تبدیلی کی وجہ سے شہری ایک جانب امس اور دوسری جانب آبی جماؤکے مسئلے سے دوچارہورہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ کاایک اورثبوت حال میں آیاامپھان طوفان ہے۔2020میں آئے امپھان طوفان میں جنوبی کولکاتہ کے32سالہ شہریار حسین کے مکان کی چھت گرگئی تھی۔ شہریار نے کہاکہ ہماری نسل نے پہلی بار ایساطوفان دیکھاتھا۔
بین الحکومتی پینل(آئی پی سی سی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو نصف کرنے میں ناکام رہے تو شدیداور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اور اگریہی حالت رہی تو گرمی سے ہونے والی اموات ،دل کی بیماری،دماغی صحت کے چیلنجز کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا۔
کلائمیٹ ریسرچ لیب کے سائنسداں ڈاکٹر راکسی میتھیو کول جوسمندری طوفان پر ریسرچ کررہے ہیں انہوں نے راقم الحروف کوبتایا کہ خلیج بنگال میں طوفان نہیں بڑھے ہیں بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔نتیجتاً بارشوں کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافہ او ر سیلاب پیداہورہا ہے۔ اگر ٹراپیکل سائیکلون24گھنٹے میں 55کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے آتی ہے توہم اسے تیزاور شدید کہہ سکتے ہیں۔جوہم نے امپھان طوفان کے وقت دیکھاتھا۔
راکسی کے مطابق، سمندری طوفان کی سرگرمیاں اور گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہواہے۔ گلوبل وارمنگ سمندر سے فضامیں گرمی کے بہاؤکوبڑھاتی ہے اور طوفانوں کی تیزی سے شدت کوفروغ دیتی ہے ۔
قدرتی آفات اور مینگرو
قدرتی آفات سے بچانے میں مینگرواہم رول اداکرتا ہے۔بنگال کے سندربن کاعلاقہ جو بنگلہ دیش سے جڑا ہے اس کاشمار پوری دنیاکے سب سے بڑے مینگروجنگلات میں ہوتاہے۔ گزشتہ 50برسوں میں مینگروکے35فیصد حصے کو ہم کھوچکے ہیں۔جیسا کہ کہا گیا کہ قدرتی آفات سے بچانے میں مینگرواہم رول اداکرتا ہے اور اس سلسلے میں مغربی بنگال کافی خوش قسمت ہے۔
مینگروایکوسسٹم کی وسیع رینج فراہم کرتا ہے۔زمینی اورسمندری حیثیت کے لیے اہم ہیبی ٹیٹ ہے۔سیلاب اور طوفان کوروکنے کے لیے اہم رول اداکرتاہے ۔ان دنوں عالمگیر سطح کاربن کو کم کرنے میں بھی اہم کردار نبھارہا ہے۔اس کی اہمیت کے باوجود ساحلی لینڈ فل اورشہری ترقیات کی وجہ سے 20ویں صدی میں مینگرو کے اہم حصوں کو ہم کھوچکے ہیں۔
اس بارے میں جادوپوریونو رسٹی کے اسکول آف اوشین گرافک اسٹڈیز کے پروفیسر سوگاتاحاجرا نے کہا کہ طوفان کااثرمینگروپرپڑرہاہے۔ ایک مینگروکو دوبارہ بہترحالت میں آنے میں کم سے کم 5-6سال کاعرصہ لگتاہے لیکن مینگروکواتناوقت ہی نہیں مل رہاہے کہ دوسراطوفان اس پراثراندازہوجاتاہے۔انہوں نے کہاکہ کوئی بھی منصوبہ سائنس کو کنارے رکھ کرنہیں بن سکتا ہے۔حکومت کوسائنسدانوں کاسہارالینے کی ضرورت ہے۔
اس معاملے میں ریاستی وزیر برائے ڈیزاسٹر مینجمنٹ جاوید احمد خان نے دعویٰ کیاکہ قدرتی آفات اور بارش کودیکھتے ہوئے بنگال میں ڈیزاسٹرمینجمنٹ فنڈ میں اضافہ ہواہے۔ پہلے 700-800کروڑ کافنڈ تھا اب بڑھ کر 1500کروڑ ہواہے۔حکومت کواپنی ذمہ داری کابخوبی اندازہ ہے۔
تاہم،انتظامیہ کی باتوں سے یہی لگتا ہے کہ وہ حالات کو قابو میں کرنے کے لیے ٹھوس منصوبے بنانے سے زیادہ گلوبل وارمنگ کو ذمہ دارٹھہراکرکرپلڑاجھاڑنا زیادہ آسان سمجھتی ہے۔اب خواہ اس کی وجہ سے عوام کو جتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
(طلعت صلاح الدین کولکاتہ میں مقیم صحافی ہیں۔ انہوں نے یہ رپورٹ این ایف آئی کی آزاد صحافیوں کے لیے فیلو شپ پروگرام کے تحت تیارکی ہے۔)