ٹرینی خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل پر احتجاج کے درمیان کولکاتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج کے پرنسپل سندیپ گھوش نے سوموار کو استعفیٰ دے دیا تھا۔ گھوش اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے لیے جانے جاتے ہیں اور ان کا نام کئی دوسرے تنازعات کے ساتھ بھی وابستہ رہا ہے۔
نئی دہلی: کولکاتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج اور اسپتال میں ایک ٹرینی خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ریپ اور قتل کے واقعہ پر ملک بھر کے ڈاکٹروں میں غم و غصہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ اس بیچ ایڈمنسٹریشن پر شروعات میں اس معاملے کو دبانے کا الزام بھی لگایاگیا ہے۔
ویسے یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ ایک طرف ممتا بنرجی کی حکومت اس معاملے پر سخت موقف اپنانے کی بات کر رہی ہے تو دوسری طرف آر جی کر میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سندیپ گھوش کے استعفیٰ دینے کے چند گھنٹے بعد ہی انہیں شہر کے ایک دوسرے میڈیکل کالج کا پرنسپل بنانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پرنسپل سندیپ گھوش کا نام کئی دیگر تنازعات سے بھی وابستہ ہے اور مظاہرہ کرنے والے ڈاکٹر پہلے دن سے ہی ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم، ہر طرف سے نشانہ بنائے جانے اور دباؤ کی وجہ سے ٹرینی ڈاکٹر کے واقعہ کے تین دن بعد سوموار (12 اگست) کو سندیپ گھوش نےاپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔
ڈاکٹر کی آٹوپسی رپورٹ میں ان کے ساتھ بربریت کی بات سامنے آئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کی آنکھ، منہ اور پرائیویٹ پارٹ سے خون بہہ رہا تھا۔ ڈاکٹر کے پیٹ، گردن، بائیں پیر، دائیں ہاتھ، انگلی اور ہونٹوں پر گیارہ زخموں کے نشان تھے۔ وہیں، گردن کی ہڈی بھی ٹوٹی ہوئی بتائی گئی۔
تاہم، ان تمام نتائج کے باوجود پولیس نے ابتدائی طور پر اس معاملے کو خودکشی قرار دینے کی کوشش کی۔ دعویٰ کیا گیا کہ ٹرینی ڈاکٹر کے والدین کوبھی پولیس نے ابتدائی طور پر یہی جانکاری دی تھی۔
واردات کی رات کو کیا ہوا تھا؟
دراصل، واردات سے پہلے جمعرات (8 اگست) کی شام کولکاتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج میں 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہندوستانی کھلاڑی نیرج چوپڑہ کے اولمپک میچ کے لیےپرجوش دیکھا گیا تھا۔
اس کے بعد، جمعہ (9 اگست) کی رات تقریباً 1 بجے، انہوں نے اپنے ایک دوست سے فون پر بات کی، رات کا کھانا کھایا اور پھر 36 گھنٹے کی آن کال ڈیوٹی کے دوران پلمونولوجی ڈپارٹمنٹ کی تیسری منزل پر واقع سیمینار ہال میں کچھ دیر آرام کرنے چلی گئی تھیں۔ اگلی صبح ٹرینی ڈاکٹر کی لاش ان کے جونیئر ساتھیوں کو ملی۔ لاش نیم برہنہ حالت میں تھی اور ان کے پرائیویٹ پارٹس کے قریب بالوں میں لگانے والی کلپ پائی گئی تھی۔
ابتدائی طور پر میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سندیپ گھوش نے اس معاملے کو خودکشی قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ رات میں اکیلے سیمینار ہال جانا لڑکی کی غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی۔
تاہم،معاملہ طول پکڑنے اور بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور اس معاملے میں ریپ اور قتل کی رپورٹ درج کی گئی۔ اس سلسلے میں ایک شہری رضاکار سنجے رائے کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ انہیں مبینہ طور پر سی سی ٹی وی کیمرے میں اندر آتے اور باہر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
کلیدی ملزم کی حکومت اور انتظامیہ میں گہری پیٹھ ہے
مقامی خبروں کے مطابق، ملزم سنجے رائےکا تنازعات سے پرانا ناطہ ہے ،انہیں لاشوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے والے (نیکروفیلیا میں مبتلا)، تشدد کرنے والے اور جبراً وصولی کرنے والے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
تاہم، کہا جاتا ہے کہ وہ انتظامیہ میں بھی گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں کلیدی ملزم ہیں اور ان کاتعلق کولکاتہ پولیس سے رہا ہے۔ وہ 2019 میں پولیس فورس کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ گروپ میں رضاکار کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ اس کے بعد، انہوں نے اپنے کنکشن کے ذریعےکولکاتہ پولیس ویلفیئر سیل میں اپنا تبادلہ کروا لیا۔ ا بھی یہ واضح نہیں ہے کہ سرکاری پولیس اہلکار کی حیثیت کے بغیر وہ کولکاتہ پولیس کی چوتھی بٹالین کے احاطے میں کیسے رہ رہے تھے۔
ایک سویلین رضاکار ہونے کے باوجود سنجے رائے کو آر جی کر ہسپتال کے تمام شعبوں تک رسائی حاصل تھی، وہ کہیں بھی آمد ورفت کر سکتے تھے۔ اسپتال کے کئی ملازمین کا کہنا ہے کہ اسپتال میں ان کا خاصا اثر و رسوخ تھا کیونکہ ان کے مبینہ طور پر پرنسپل سندیپ گھوش کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ اس کے علاوہ سنجے رائے پر اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے مالی فائدے کے لیےمریضوں کو اسپتال میں بھرتی کرانے کا بھی شبہ ہے۔
رائے کے کردار کو لے کر کولکاتہ پولیس بھی سوالوں کی زد میں ہے۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران کولکاتہ پولیس کمشنر نے یہ واضح کرنے سے انکار کر دیا کہ رائے کی بھرتی کے دوران ان کے بیک گراؤنڈ کی جانچ کی گئی تھی یا نہیں۔
وہیں، ڈاکٹروں اور اپوزیشن جماعتوں کے مطالبات کے باوجود اس واقعہ سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج جاری نہیں کی گئی۔ عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ واقعہ کے دن پلمونولوجی ڈپارٹمنٹ اور سیمینار ہال میں لگے سی سی ٹی وی کام نہیں کررہے تھے۔
جانچ میں کئی خامیاں
اس سلسلے میں ایک آنکولوجسٹ ڈاکٹر بشن بسو نے کہا، ‘یہ واردات کسی ایک شخص کے ہاتھوں انجام دیا گیا نہیں لگتا ہے۔ ڈاکٹر کو لگنے والی تمام چوٹیں پہلے سے منصوبہ بندکئی لوگوں کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور یہ بھی ناقابل یقین ہے کہ حکام کو اس واقعے کی اطلاع سات گھنٹے بعد یعنی صبح 9 بجے ملی۔‘
ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے توسط سے تحقیقات میں بڑی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر بسو نے کہا، ‘ڈاکٹر کے والدین کو ہسپتال پہنچنے کے بعد دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک اپنی بیٹی (ٹرینی ڈاکٹر) کی لاش کودیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
متاثرہ کے والدین سے اتوار (11 اگست) کو ملاقات کرنے والے صحت عامہ کے ماہر ڈاکٹر سبرنا گوسوامی نے دعویٰ کیا کہ ایک سینئر پولیس افسر نے واقعہ کے فوراً بعد خاندان کو بھاری مالی معاوضے کی پیشکش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خاتون ڈاکٹر کے والدین نے انہیں بتایا کہ پولیس اس کیس کو ‘سیٹل’ کرنا چاہتی ہے اس لیے آخری رسومات سےپہلے ہی پیسے کی پیشکش کی گئی۔ لیکن،ڈاکٹر کے والدین نے اس سے انکار کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ واقعہ سے صرف ایک روز قبل اسپتال کی پارکنگ میں ٹرینی ڈاکٹر کی کارڈیمیج ہوگئی تھی۔
آر جی کر اسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق، ‘ملزم سنجے رائے ایک ایسا شخص ہے جو پورے اسپتال میں آزاد گھومتا ہے اور کوئی بھی اس سے سوال نہیں کرتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے یا کہاں جا رہا ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کہ وہ کسی بااثر شخص کا قریبی ہے۔
ڈاکٹر اس معاملے میں جلد بازی میں پوسٹ مارٹم کرنے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنی جلدی میں پوسٹ مارٹم کیوں کیا گیا؟ اتنی جلدی آخری رسومات ادا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
اس معاملے میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پولیس نے واقعہ کے دوران اسپتال میں موجود تمام لوگوں سے پوچھ گچھ کی ہے یا نہیں۔ پولیس نے ابھی تک ان انٹرنز سے پوچھ گچھ نہیں کی ہے، جو اس دن ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ ڈیوٹی پر تھے۔
کچھ اور لوگوں کے ملوث ہونے کا اندیشہ
ایک وائرل آڈیو کلپ میں ایک انٹرن مبینہ طور پر ایک پی جی طالبعلم سے بات کر تے ہوئے دعوی کر رہا ہے کہ سیاسی کنکشن والا ایک اور انٹرن اس قتل میں ملوث ہے۔ طالبعلم نے نتائج کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہیں کیا اور پرنسپل کی قیادت میں حکام کی طرف سے کور اپ کی کوششوں کا ذکر کیا۔
دی وائر نے ایسے الزامات لگانے والے طلباء کے درمیان وہاٹس ایپ چیٹ کے کئی اسکرین شاٹس بھی دیکھے ہیں۔
اسپتال انتظامیہ نے اس پورے واقعہ کے حوالے سے گیارہ رکنی انٹرنل انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے، جس پر میڈیکل کمیونٹی کے کئی لوگوں نے سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی سے آزاد ماہرین کو باہر رکھا گیا ہے اور کئی انٹرن اور سائیکاٹری ڈپارٹمنٹ کے ایک ڈاکٹر کو شامل کیا گیا ہے، جو اس پورے واقعہ کوایک نیا زاویہ دینے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
ایک جونیئر ڈاکٹر، جو متوفی کے قریب تھے اور انہیں ‘دیدی’ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، نے کہا، ‘ابتدائی طور پر اسے خودکشی قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ ہمیں شبہ ہے کہ سائیکاٹری ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر کو شامل کرنا یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے کہ دیدی ڈپریشن میں مبتلا تھیں۔‘
ایسوسی ایشن آف ہیلتھ سروس ڈاکٹرس کے سابق سکریٹری ڈاکٹر مانس گمٹا نے کہا، ‘پرنسپل کے خلاف کافی ثبوت ہیں۔ ہسپتال کی سکیورٹی کی ذمہ داری ان پر تھی، جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ حیران کن ہے کہ ریاستی حکومت نے انہیں ابھی تک ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا ہے۔ پولیس نے ان سے پوچھ گچھ تک نہیں کی ہے۔ پولیس کو ان کا فون ضبط کرنا چاہیے اور منصفانہ تفتیش کے لیے انہیں اپنی حراست میں لینا چاہیے۔‘
پرنسپل گھوش کے حکمراں ٹی ایم سی سے قریبی تعلقات ہیں
ریاست کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے پرنسپل گھوش پر کئی طلبہ اور ڈاکٹروں نے دھمکی دینے اور اسپتال کو اپنی جاگیر سمجھنے کا الزام لگایا ہے ۔ ان کے خلاف بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات ہیں، جس کی وجہ سے ان کا دو بار تبادلہ کیا گیا،لیکن پھر چند ہی دنوں میں انہیں پراسرار طور پر بحال کر دیا گیا۔
معلوم ہو کہ سندیپ گھوش کا جون 2023 میں مرشد آباد میڈیکل کالج میں تبادلہ کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے پرنسپل کے کمرے کو بند کرکے نئے پرنسپل کو چارج نہیں لینے دیا۔ اس کے بعد انہیں 48 گھنٹے کے اندر بحال کر دیا گیا۔
اسی طرح، ستمبر 2023 میں، لڑکوں کے ہاسٹل میں ریگنگ سے متعلق ایک واقعہ کے بعد ان کا دوبارہ تبادلہ کر دیا گیا تھا، لیکن ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے قریبی طالبعلموں نے نئے پرنسپل کو پانچ دنوں کے لیے چارج لینے سے روک دیا۔
گھوش کے قریبی کچھ طلباء نے بھی ان کے حق میں مظاہرہ بھی کیا اور جن لوگوں نے اس میں حصہ نہیں لیا،ان پر حملہ بھی کیا گیا۔ اس کے بعد گھوش ایک ماہ کے اندر نے دوبارہ آر جی کر میڈیکل کالج واپس آگئے۔
تاہم، ہسپتال کے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، جنہوں نے گھوش پر ریکیٹ چلانے کا الزام لگایا تھا، ان کا جلد ہی تبادلہ کر دیا گیا۔
ایک انٹرن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پرنسپل ڈاکٹر سندیپ گھوش انتقام لینے میں ماہر ہیں۔ وہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے طالبعلموں کو ڈراتے ہیں اور انہیں دھمکی دیتے ہیں کہ اگر وہ ان کی لائن پر نہیں چلے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ان کے خلاف آواز اٹھانے کے بعد کئی طالبعلموں کو فیل کر دیا گیا ہے۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ ٹرینی ڈاکٹرکے معاملےمیں تنازعہ بڑھنے کے بعد حالات کو سنبھالنے کے لیےمغربی بنگال حکومت نے اتوار (11 اگست) کو اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ کا تبادلہ کردیا، لیکن پرنسپل اپنے عہدے پر بنے رہے۔
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی
اس دوران وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور انصاف کا وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت اس کیس کی سی بی آئی تحقیقات کی مخالفت نہیں کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی ترنمول کانگریس کے لیڈر ابھیشیک بنرجی نے تیز رفتار ٹرائل کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مجرموں کو سات دنوں کے اندر موت کی سزا دی جائے یا انکاؤنٹر میں مار دیا جائے۔
بنرجی نے کہا، ‘یہ ریپسٹ، جو سماج میں رہنے کے قابل نہیں ہیں، ان سے یا تو انکاؤنٹر کے ذریعے یا پھانسی کے ذریعے نمٹا جانا چاہیے۔ تاہم، بنرجی کے اس تبصرے پر انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے۔
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس (اے ڈی آر) کے جنرل سکریٹری رنجیت سور نے کہا، ”وہ انتظامی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اس معاملے کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی پارٹی نے شہری رضاکاروں کو ماورائے عدالت اختیارات دیے ہیں۔وہ پہلےبھی انکاؤنٹر کے بارے میں پر شیخی بگھار چکے ہے۔ یہ گینگ ریپ اور قتل کا واضح معاملہ ہے اور اس طرح کے بیانات تحقیقات کو متاثر کرنے کے لیے دیے جا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں سابق پولیس افسر آئی پی ایس پنکج نے کہا، ‘یہ ایک منظم ناکامی ہے۔ ابھیشیک بنرجی انکاؤنٹر کی بات کرکے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات کے بعد لوگ سرکاری ہسپتالوں پر کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟ ہسپتالوں میں پہلے سے ہی عملے کی کمی ہے اور اس کو جونیئر ڈاکٹر چلا رہے ہیں۔‘
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ جمعہ (9 اگست) کو آر جی کر میڈیکل کالج کے سیمینار ہال سے ایک پوسٹ گریجویٹ ٹرینی خاتون ڈاکٹر کی لاش ملی تھی ۔ اس واقعہ کےخلاف سوموار (12 اگست) کو ملک بھر کے ڈاکٹروں نے ہڑتال بھی کی تھی۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )