گزشتہ سال نومبر میں کیرل پولیس نے ماؤنوازوں سےمبینہ تعلقات کےالزام میں دوطالبعلم کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا تھا۔ این آئی اے کی خصوصی عدالت نے دونوں کو نو ستمبر کو ضمانت دی ہے۔
نئی دہلی: کیرل کے کوچی کی خصوصی این آئی اے عدالت نے ریاستی پولیس کے ذریعے 10 مہینے پہلے گرفتار کیے گئے دو طالبعلموں کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ ماؤنوازلٹریچر ہونے، سرکار مخالف مظاہروں میں شامل ہونے یا مضبوط سیاسی نظریات کی وجہ سے کسی کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں مانا جا سکتا۔
کیرل پولیس اور این آئی اے کا کہنا تھا کہ دونوں طالبعلم ایلن صہیب اور طہٰ فضل ممنوعہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ماؤنواز)سے وابستہ تھے، جس کے بعد ان دونوں پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔انہیں گزشتہ نو ستمبر کو ضمانت دے دی گئی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ استغاثہ ان طالبعلموں کی ممنوعہ تنظیم سے وابستگی کےحق میں ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکا۔
این آئی اے جج انل کے بھاسکر نے آرڈر میں کہا، ‘معاملے کےحقائق اورحالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے دونوں عرضی گزاروں کی ضمانت عرضی منظور کی جاتی ہے۔’
پینتھیرینکاوو ماؤونوازمعاملہ
اس معاملے کو پینتھیرینکاوو ماؤنوازمعاملے کے نام سے بھی جاتا ہے۔ یہ معاملہ پچھلے سال نومبر میں اس وقت سامنے آیا، جب قانون اورصحافت کی پڑھائی کر رہے صہیب (19)اور فضل (23) کو کوزی کوڈ پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔یہ دونوں مقتدرہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)سےوابستہ تھے۔
صہیب اور فضل کو ممنوعہ سی پی آئی(ماؤنواز) کا فعال ممبر بتاتے ہوئے ان پر کیرل میں تنظیم کو پھر سے زندہ کرنے کی غرض سے ماؤنوازلٹریچرتقسیم کرنے کاالزام لگایا گیاتھا۔ پولیس نے ان دونوں پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا تھا۔پولیس اور این آئی اے کا یہ بھی الزام تھا کہ جب ان میں سے ایک طہٰ کے گھر پر چھاپےماری کی گئی، تو انہوں نے ماؤنوازحمایتی نعرے بھی لگائے تھے۔
پولیس اور این آئی اے نے ان کے خلاف یہ پورا معاملہ دونوں طالبعلموں کے گھر سے برآمد کیے گئے دستاویز، پوسٹر، ڈائری، کتابیں اور دیگر سیاسی ادب کی بنیاد پر تیار کیا۔یہ معاملہ پچھلے دسمبر میں این آئی اے کو ٹرانسفر کیا گیا تھا اور صہیب اور فضل دونوں تب سے عدالتی حراست میں تھے۔ اس عرصے میں سیشن عدالت نے ان کی ضمانت عرضی کئی بار خارج کی تھی۔
مقتدرہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کیرل کے ایک بڑے طبقہ کے بیچ اس معاملے کو لےکر سیاسی تنازعہ ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے دونوں کو گرفتار کیے جانے کے فوراً بعد پارٹی سے برخاست کر دیا تھا۔اس بیچ دانشوروں اور آزاد کارکنوں نے ریاستی پولیس کو کھلی چھوٹ دینے اور عدم اتفاق کا اظہار کرنے والوں کو ماؤنوازیا دہشت گرد بتانے کے لیے وجین سرکار کی تنقید کی۔
اس معاملے کو لےکر کمیونسٹ پارٹی میں الگ الگ رائے تھی۔ وجین کا کہنا ہے کہ ملزم ماؤنواز ہیں، جبکہ سی پی آئی (مارکسسٹ)کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری، پرکاش کرات، ایم اے بےبی اور تھا مس ایساک جیسے رہنماؤں نے دونوں ملزمین کی حمایت کی ہے، جس سے وہ براہ راست کیرل کی لیفٹ مورچہ سرکار کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔
این آئی اے عدالت کے مشاہدات
معاملے کی شنوائی نو ستمبر کو ہوئی۔ این آئی اے عدالت نےدفاعی فریق کے وکیلوں ایساک سنجے اور تشار نرملے سارتھی، کے دلائل کے برعکس استغاثہ کی جانب سے پیش شواہد کے12 زمروں پرغور کیا، جن میں سے اکثرسیاسی پرچے اورادب تھے۔عدالت کو یہ عجیب لگا کہ دونوں ملزم طالبعلموں کے گھر سے ضبط کیے گئے دستاویزوں کا ایک بڑا حصہ، جنہیں لےکر این آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ جرم کی جانب اشارہ کرتے ہیں وہ آزادانہ طور پر پبلک ڈومین میں ہیں اور ان پر خوب چرچہ بھی ہو چکا ہے۔
این آئی اے نے جن چند دستاویزوں کو بطورثبوت پیش کیا، وہ دراصل مغربی گھاٹوں میں ماحولیات اورقبائلی مفادات کے تحفظ کے لیے مادھو گاڈگل کمیٹی کی رپورٹ کونافذ کرنے کی مانگ والے نوٹس،گریٹ رشین ریولوشن نام کی ایک کتاب، کمیونسٹ رہنما ماؤتسے تنگ اور چی گویرا کی تصویریں، کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما ایس اے ایس گیلانی اور مارکسسٹ اور اسلامی نظریات کی تبلیغ کرنے والی کتابیں ہیں۔
این آئی اے نےاس کومبینہ مجرمانہ ادب کہتے ہوئے عدالت کے سامنے کئی اشتہار جو یو اے پی اےمخالف، کردوں کے خلاف ترکی کی جنگ اورحکومت ہند کی کشمیر میں کارروائی کو لےکر تھے پیش کیے۔انہیں ماؤنوازتنظیم سے وابستہ بتاتے ہوئے این آئی اے کا کہنا تھا کہ دونوں طالبعلموں نے کردوں کے خلاف، جیشا کے قتل کے خلاف، نوٹ بندی کے خلاف اور پولیس کی زیادتیوں سے جڑے کئی معاملوں اوراجلاس میں حصہ لیا تھا۔
این آئی اے نے یہ بھی کہا کہ انہیں طالبعلموں کے گھر سے ماؤنواز پارٹی کے دستاویز، سینٹرل کمیٹی کی رپورٹس اور پارٹی کے جھنڈے ملے ہیں۔عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ ان میں سے کوئی بھی مواد دونوں طالبعلموں کے ذریعے کسی طرح کی تشددآمیزسرگرمیوں کی طرف اشارہ نہیں کرتے ہیں، ایجنسی کے دعوے کو خارج کر دیا۔
عدالت نے آرڈر میں کہا، ‘ان سے جڑے مدعوں پر سیاسی اورسماجی شعبہ میں بہت چرچہ اور بحث ہوئی ہے اور تمام مظاہرے بنا کسی تشددکے پرامن ڈھنگ سے ہوئے تھے۔’ملزمین کے پاس سے ماؤنواز پارٹی کے دستاویز پائے جانے پر عدالت نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر دستاویز انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
آرڈر میں این آئی اے کی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا، ‘پہلی نظر میں ان دستاویزوں سے ایسا نہیں لگتا کہ سرکار کے خلاف پرتشدد مظاہرہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
لوگوں کو (سی پی آئی)ماؤنوازتحریک کی حمایت کرنے کے لیے نہیں بلایا گیا بلکہ صرف سرکار کی سرگرمیوں کے خلاف مظاہرہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔’
عدالت نے کہا کہ این آئی اے نے صرف ایک ہی دستاویز پیش کیا ہے، جس کے بارے میں کہا گیا کہ اسے (سی پی آئی)ماؤنواز کی جانب سے فضل نے تیار کیا تھا، جو ایک بینر تھا، جسے ‘جموں کشمیر کی جدوجہد آزادی کی حمایت میں، جموں وکشمیر پرحکومت ہند کے کنٹرول کے احتجاج اور ہندو برہمن فاششٹ سرکار کے خلاف لڑائی لڑنے’ کے لیے عوامی مقامات پر لگایا گیا تھا۔
عدالت نے اس بینر کےسیاق میں کہا، ‘اس پر دھیان دیا جانا چاہیے کہ یہ بینر ہندوستانی پارلیامنٹ کے ذریعےہندوستانی آئین سے آرٹیکل 370 اور 35(اے) کو ہٹانے کے بعد تیار کئے گئے تھے۔’جج بھاسکر نے کہا، ‘احتجاج کرنے کاحق آئینی طور پردیا گیا ہے۔ سرکار کی پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف احتجاج پھر چاہے وہ غلط وجہ کے لیے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو، اسےسیڈیشن نہیں کہا جا سکتا۔’
آرڈر میں آگے کہا گیا،’ملزمین کے خلاف ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے قابل اعتراض تحریر کا بامعنی جائزہ نہ توممنوع ہے اور نہ ہی غیرقانونی ہے اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ حکومت ہند کی ہتک یا اسے لےکر کسی طرح کی نفرت پیدا کرنے کی کوشش تھی یا اس سے کسی طرح کے عدم اتفاق کو بڑھاوا دیا گیا۔’
عدالت نے کہا کہ ماؤنواز لٹریچر اور طبقاتی کشمکش کے بارے میں پڑھنا یا خود ماؤنواز ہوناجرم نہیں ہے۔ حالانکہ یہ ہمارے آئینی نظام کے ساتھ تال میل نہیں کھاتا۔ کسی شخص کےسیاسی عقائد کوصرف تبھی خراب مانا جا سکتا ہے، جب ملزم کی طرف سےتشدد بھڑ کانے والا کوئی کام کیا گیا ہو۔
عدالت نے کہا کہ حالانکہ یہ صاف ہو جاتا ہے کہ دونوں ملزمین کے مضبوط سیاسی عقائد ہیں اور انہوں نے کئی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا، جو سرکار کے لیے چیلنج سے بھرا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ دونوں ماؤنوازپارٹی کے ممبر ہیں اور ان کی سرگرمیاں اس تنظیم کے ذریعےکنٹرول کی جاتی تھی۔
عدالت نے کہا کہ ملزم ہر سماجی اور سیاسی مدعے پر فعال رہتے تھے، تو ایسا لگتا ہے کہ ان کی انتہا پسندانہ نظریات تھے اور اس وجہ سے ان کا رجحان ممنوعہ تنظیم کی طرف ہوا ہوگا۔عدالت نے کہا کہ حالانکہ استغاثہ جرم میں ان کے رول کو ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوٹ پیش نہیں کر سکا۔ اس وجہ سے انہیں اپنی حتمی رپورٹ میں پہلےملزم صہیب سے یو اے پی اے ہٹانا پڑا۔
جج بھاسکر نے کہا کہ ان حالات میں عدالت کو کھلا نظریہ اپنانا چاہیے اور امید ہے کہ ضمانت سے انہیں اپنےسیاسی رجحان اور رخ کو لےکر دوبارہ تجزیہ کرنے کا موقع ملےگا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)