دراصل حکومت کو ڈر ہے کہ اگر کشمیر میں اس وقت کالج اور یونیورسٹیاں کھل گئیں تو ان میں طلباکی طرف سے دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی تقسیم کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں۔
ایس پی کالج سرینگر/فوٹو: شیخ فیاض احمد
وسطی کشمیر کے قصبہ بڈگام سے تعلق رکھنے والے محسن علی بڑی بے صبری سے بیچلر آف آرٹس کورس کے پانچویں اور چھٹے سیمسٹر کے امتحانات کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں سے باہر جانے کا حتمی فیصلہ لے چکے ہیں۔ محسن علی کہتے ہیں کہ وہ کشمیر کے ایک سرکاری کالج میں داخلہ لے کر ایک بڑی غلطی کرچکے ہیں جس کی سزا انہیں یہ ملی کہ وہ اپنے تعلیمی کریئر کے دو سال گنوا بیٹھے۔
21 سالہ محسن علی نے سال 2015 کے اوائل میں شیخ العالم گورنمنٹ ڈگری کالج بڈگام میں تین سالہ بی اے کورس میں داخلہ لیا۔ چونکہ یہ تین سالہ کورس ہے اس لئے سال 2017 کے اواخر تک مکمل ہونا چاہیے تھا لیکن کم وبیش پانچ سال گزرنے کے بعد بھی محسن کو اپنا تین سالہ کورس مکمل ہونے کا انتظار ہے۔
یہ کہانی اکیلے محسن کی نہیں ہے بلکہ کشمیر کے تقریباً تین درجن کالجوں اور چار یونیورسٹیوں بالخصوص کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہزاروں طلبا کی ہے۔ اپنے تعلیمی کریئر کا کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال گنوانے والے یہ طلبااب ذہنی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچنے کے لئے جم سنٹر جاتے ہیں اور مختلف مضامین سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔محسن علی کہتے ہیں؛
سال 2015 کے اوائل میں میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ پر اپنے مقامی کالج کو ترجیح دی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں، وہ اور میرے معمر والدین مجھے ہر شام اپنے گھر میں دیکھنا چاہتے تھے۔ میرا کالج کشمیر یونیورسٹی سے منسلک ایک سرکاری کالج ہے۔ کشمیر کے حالات اور کشمیر یونیورسٹی کی بدنظمی کا ہمارے تعلیمی کریئر پر اتنا منفی اثر پڑا کہ تقریباً پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مجھے اپنا تین سالہ کورس مکمل ہونے کا انتظار ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں؛
میرے جن دوستوں نے باہر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا وہ اس وقت پوسٹ گریجویشن کررہے ہیں۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ ہم کشمیری طلبا کشمیر کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بھی تنازعہ ہے لیکن وہاں کا تعلیمی نظام اس قدر متاثر نہیں ہے جس طرح ہمارا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہم نے دیکھا کہ کبھی سیمسٹر امتحانات ڈیڑھ سال تو کبھی چار ماہ بعد لئے گئے۔ کبھی سیمسٹر نتائج ایک سال تو کبھی ڈیڑھ سال بعد مشتہر کئے گئے’۔
وہ آگے کہتے ہیں؛
میں اب بہت تنگ آچکا ہوں۔ ذہنی طور پر بیمار ہونے سے بچنے کے لئے کچھ وقت جم سنٹر میں گزارتا ہوں۔ نصاب کی کتابیں چھوڑ کر خلیل جبران اور بشارت پیر کی کرفیوڈ نائٹ پڑھ رہا ہوں۔ پانچویں اور چھٹے سیمسٹر کے امتحانات کے انتظار میں ہوں۔ آگے کی پڑھائی یہاں نہیں بلکہ باہر کی کسی یونیورسٹی میں ہوگی۔ یہاں طلباکا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پانچ اگست جس دن مرکزی حکومت نے مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 ہٹائی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام والے علاقے بنانے کا اعلان کیا، اس کے بعد سے وادی کشمیر میں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ وادی میں2016 میں حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد تقریباً چھ ماہ تک تعلیمی ادارے بند رہے تھے۔
وادی میں سال 2016 کی طویل ایجی ٹیشن، دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف جاری ہڑتال اور تعلیمی اداروں بالخصوص کشمیر یونیورسٹی کی بدنظمی کا نتیجہ یہ ہے کہ تین سالہ گریجویشن کورسز تکمیل تک پہنچنے کے لئے پانچ سال اور دو سالہ بی ایڈ و پوسٹ گریجویشن کورسز تکمیل تک پہنچنے کے لئے تین سال سے بھی زیادہ عرصہ لیتے ہیں۔ انجینئرنگ اور دوسرے کورسز کا بھی یہی حال ہے۔
سری نگر کے مولانا آزاد روڑ پر واقع گورنمنٹ کالج فار وومن کی ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے بھی سال 2015 کے اوائل میں تین سالہ جرنلزم کورس میں داخلہ لیا لیکن پانچ سال گزرنے کو ہیں کورس کے تکمیل تک پہنچنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔انہوں نے کہا؛
میرے پاپا مجھے صحافی بنانا چاہتے تھے۔ وہ مجھے صحافی بنتے دیکھنے سے پہلے ہی گزشتہ سال انتقال کرگئے۔ میں گریجویشن کی تکمیل میں غیرمعمولی طوالت سے اتنی مایوس ہوں کہ مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں اپنے پاپا کا خواب پورا نہیں کرپاؤں گی۔ ہمارے تعلیمی کریئر کو جان بوجھ کر خراب کیا جارہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس سال ہمارا کالج کھلے گا اور ہمارے امتحانات منعقد ہوں گے۔
کالج و یونیورسٹی طلبا کی طرح اول سے بارہویں جماعت کے طلبا کی تعلیم بھی بری طرح سے متاثر ہے۔ دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلباجن کے امتحانات جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن منعقد کراتی ہے، کو محض 50 سے 60 فیصد نصاب پڑھایا گیا ہے۔ ان طلبا سے امتحانات کے فارم بھی بھروائے گئے ہیں اور انہیں پورا نصاب پڑھائے بغیر ہی امتحانات کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا گیا ہے۔
بارہویں جماعت کی طالبہ آفرین جبین نے بتایا؛
ہم نے ابھی اپنے نصاب کا 50 سے 60 فیصد حصہ ہی مکمل کیا تھا کہ دفعہ 370 کو ہٹا کر کشمیر کو ایک بار پھر آگ کے حوالے کیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک اسکول میں ہماری پڑھائی معطل ہے۔ موجودہ حالات کے بیچ ہم سے امتحانات کے فارم بھروائے گئے۔نصاب مکمل کیے بغیر ہی ہم سے امتحانات کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ یہ کیسا تعلیمی نظام ہے؟
وومینس کالج سرینگر/فوٹو: شیخ فیاض احمد
کشمیر میں کالج اور یونیورسٹیاں کب کھلیں گی؟
وادی کشمیر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں ہر سال نومبر کے اواخر تک جاری رہتی ہیں۔ پھر سرمائی تعطیلات شروع ہوتی ہیں جو فروری کے اواخر تک جاری رہتی ہیں۔ اگرچہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی کے ابھی بھی زائد از دو ماہ باقی ہیں تاہم ان کے امسال کھلنے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔حکومت نے تو بارہویں جماعت تک کے تعلیمی ادارے کھولنے کا باضابطہ اعلان کیا ہے، وہ الگ سوال ہے کہ طلبااسکولوں کا رخ نہیں کررہے ہیں لیکن کالج اور یونیورسٹیاں درس وتدریس کے لئے کھولنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
دراصل حکومت کو ڈر ہے کہ اگر کشمیر میں اس وقت کالج اور یونیورسٹیاں کھل گئیں تو ان میں طلباکی طرف سے دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی تقسیم کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں۔ اس کے پیش نظر ممکن ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اب اگلے سال مارچ میں ہی درس وتدریس کی سرگرمیاں بحال ہوں گی۔
کالجوں کے دروازوں پر سکیورٹی فورسز کے بنکر
بی جے پی حکومت نے 5 اگست کو کشمیر سے اس کا خصوصی درجہ چھیننے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکزی حکومت کے راست کنٹرول میں لانے سے چند روز قبل ہی ملک کی مختلف ریاستوں سے مرکزی نیم فوجی دستوں کو کشمیر بھیجنا شروع کیا۔ اگرچہ گزشتہ دو ماہ کے دوران کشمیر بھیجے جانے والے نیم فوجی اہلکاروں کی صحیح تعداد منکشف نہیں کی جارہی ہے تاہم بتایا جارہا ہے کہ یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ ہے۔ کشمیر جہاں پہلے سے ہی سات لاکھ سکیورٹی فورسز اہلکار تعینات تھے اب ان کی تعداد بڑھ کر ساڑھے آٹھ لاکھ تا نو لاکھ ہوچکی ہے۔
کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی تعداد بڑھائے جانے کے ساتھ ہی جگہ جگہ پر نئے بنکر قائم کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے مقامی آبادیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ایک بنکر مولانا آزاد روڑ پر واقع تاریخی گورنمنٹ شری پرتاب کالج کے باب الداخلہ پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں سے تقریباً ایک کلو میٹر کی دوری پر واقع تاریخی امرسنگھ کالج کے داخلی باب کے نزدیک سکیورٹی فورسز کا ایک بنکر گزشتہ کئی برسوں سے قائم ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق وادی کے اضلاع میں قائم کچھ کالجوں کے نزدیک بھی مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے بنکر قائم کئے گئے ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبانے کالجوں کے نزدیک بنکر قائم کرنے کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں پر سکیورٹی فورسز کے پہرے بٹھانا ہمیں قابل قبول نہیں ہے۔ بقول ان کے حکومت طلبا کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑانا چاہتی ہے۔