گروگرام کی ایس جی ٹی یونیورسٹی میں پلواما حملے میں شہید ہوئے جوانوں کو لےکر مبینہ طور پر قابل اعتراض پوسٹ پر ایک کشمیری طالبہ کو برخاست کر دیا گیا ہے۔ وہیں، نوئیڈا کے ایک ہوٹل میں کشمیریوں کی مخالفت میں ایک بورڈ لگایا گیا تھا۔
گروگرام کا گوبند سنگھ ٹرائی سینٹنری یونیورسٹی، جس نے پلواما حملے کو لےکر سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ کرنے کے الزام میں ایک کشمر ی طالبہ کو برخاست کیا ہے۔ فوٹو بہ شکریہ /https://sgtuniversity.ac.in
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے پلواما میں جوانوں پر ہوئے خودکش حملے کے بعد ملک بھر میں کشمیری طلبا کے ساتھ بد سلوکی اور ان پر ملک مخالف تبصروں کے الزام کے معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔تازہ معاملہ گروگرام کے شری گرو گوبند سنگھ ٹرائی سینٹنری یونیورسٹی (ایس جی ٹی) کا ہے، جہاں ایک کشمیری طالبہ کو پلواما حملے کو لےکر سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ کرنے کی وجہ سے یونیورسٹی سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ایک دوسرا معاملہ نوئیڈا کا ہے، جہاں ایک ہوٹل کے ری سیپشن پر ایک پوسٹر لگایا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ حالانکہ، معاملے کے طول پکڑنے پر اس کو اس پوسٹر کو ہٹا دیا گیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ایس جی ٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کشمیری طالبہ کو پلواما حملے کو لےکر سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ کرنے کی وجہ سے یونیورسٹی سے برخاست کیا گیا ہے۔یونیورسٹی کے رجسٹرار نے حکم میں کہا،یونیورسٹی کیمپس میں اس طرح کی حرکت کو برداشت نہیں کیا جائےگا اور اس لئے یہ فیصلہ لیا گیا کہ طالبہ کو فوری اثر سے برخاست کیا جانا چاہیے۔ ‘حکم میں آگے کہا گیا کہ چار رکنی پینل اس معاملے کی تفتیش کرےگی۔
یونیورسٹی افسروں کے مطابق،یہ معاملہ سوموار شام اس وقت شروع ہوا، جب یونیورسٹی کے باقی طالب علموں نے انسٹاگرام پر طالبہ کا پلواما حملے میں جوانوں کی شہادت کو لےکر قابل اعتراض پوسٹ پڑھا۔ ‘یونیورسٹی میں ہاسپٹل ایڈمنسٹریٹر ہریش گلیا نے کہا، طالبہ نے پلواما حملے میں جوانوں کے شہید ہونے کے واقعہ کو لےکر سوشل میڈیا پر قابل اعتراض تبصرہ کیا۔ ہم نے اس کی مخالفت کی اور نتیجے کے طور پر طالبہ کو یونیورسٹی سے برخاست کر دیا گیا۔ ہم فی الحال اس معاملے کو آگے نہیں لے جانے کی پلان بنا رہے ہیں۔ ‘
وہیں، ایک
دیگر معاملے میں نوئیڈا کے ایک ہوٹل کے ری سیپشن پر ایک پوسٹر لگایا گیا تھا، جس میں لکھا گیا تھا کہ’ہوٹل میں کشمیریوں کو آنے کی اجازت نہیں ہے ‘۔ حالانکہ بعد میں اس پوسٹر کو ہٹا دیا گیا۔نوئیڈا سیکٹر 15 میں جانی ہومس نام سے یہ ہوٹل ہے، جس کے مالک اتر پردیش نونرمان سینا کے صدر امت جانی ہیں۔ امت جانی کا کہنا ہے، ‘ ان کی پالیسی جاری رہےگی۔ ‘انہوں نے اویو رومس کے ساتھ معاہدے کے بعد اس کو ہوٹل میں تبدیل کر دیا تھا۔
جانی نے کہا، جب پنجاب، گجرات اور دیگر ریاستوں سے لوگ آئے تو انہوں نے ملک کو گالیاں نہیں دی لیکن کشمیری ملک کو گالیاں دیتے ہیں، جس کو میں برداشت نہیں کروںگا۔ ان کے ساتھ ہم اچھا محسوس نہیں کر رہےہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہتھیار چھپائے ہوئے ہوں۔ میرے گیسٹ ہاؤس کے دروازے کشمیر کے راشٹر وادیوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں لیکن کچھ کشمیری اس حملے کا جشن منا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسا کرکے مجھے کچھ فائدہ ہوگا، میں خود نشانے پر ہوں اور مجھے پتا ہے کہ ایسا کرکے مجھے نقصان ہوگا لیکن حب الوطنی سے اوپر کچھ نہیں۔ ‘
اس ہوٹل میں 14 کمرے ہیں اور 10 ملازم ہیں۔ اس ہوٹل میں ایک رات ٹھہرنے کی فیس 700 روپے سے 1500 روپے تک ہے۔نوئیڈا سیکٹر 20 کے ایس ایچ او راج ویر سنگھ چوہان نے کہا، جیسے ہی اس بات کا پتا چلا بوتھ انچارج کو ہوٹل میں بھیجا گیا۔ جب تک ہم وہاں پہنچے، وہاں سے وہ پوسٹر ہٹا دیا گیا تھا۔ اگر ہمارے علم میں یہ آتا ہے کہ کشمیری کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے تو ہوٹل کے مالکوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے جائیںگے۔ ‘
اویو کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس واقعہ کا پتا چلتے ہی ہوٹل کو ڈی لسٹ (فہرست سے ہٹانا) کر دیا ہے۔کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ ‘اویو ہوٹلس اینڈ رومس ‘ رنگ، ذات، مذہب، شہریت، معذوریت، ازدواجی حالت اور جنسی جھکاؤ سے اوپر اٹھکر دنیا بھر کے ہمارے مہمانوں کے لئے رہنے لائق اچھی سہولت دینے کو پرعزم ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں اس طرح کے عدم مساوات کو برداشت نہیں کریںگے اور اس طرح کی سرگرمیاں ہمارے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ جیسے ہی ہمیں اس کا پتا چلا، ہم نے اس پر فوری کارروائی کی اور اس ہوٹل کو چند گھنٹوں میں ہی ڈی لسٹ کر دیا۔ ‘