جموں و کشمیر کے کپواڑہ ضلع کے کنن گاؤں کے رہنے والے 35 سالہ عبدل راشد ڈار کو گزشتہ سال 15 دسمبر کو 41 راشٹریہ رائفلز کےجوانوں نے پولیس کو مطلع کیے بغیر ان کے گھر سے حراست میں لیا تھا۔ راشد کے اہل خانہ نے حراست میں ان کےقتل کاالزام لگایا ہے ،جبکہ فوج نے کسی بھی طرح کی گڑ بڑی سے انکار کیا ہے۔
عبدل راشد ڈار۔ (تصویر اسپیشل ارینجمنٹ)
سری نگر: فوج کی حراست میں لاپتہ ہونے کے دو ماہ سے زیادہ کے بعد ایک کشمیری نوجوان کی لاش بدھ (1 مارچ) کو سرحدی ضلع کپواڑہ کے جنگلاتی علاقے سے برآمد ہوئی۔
ضلع کپواڑہ کےکنن گاؤں کے رہنے والے 35 سالہ عبدل راشد ڈار کی لاش بدھ کے روز ضلع کے سرہامہ سے بوسیدہ حالت میں برآمد ہوئی تھی۔ وہ روزی روٹی کے لیےسامان ڈھونے والی گاڑی چلایا کرتے تھے۔
لاش ملنے کے بعد ان کے اہل خانہ اور پڑوسیوں نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے انصاف اور مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
راشد کے بڑے بھائی شبیر احمد نے فوج پر حراست میں ان کو قتل کرنے کا الزام لگایا۔
انہوں نے روتے ہوئے کہا، ‘میرا بھائی قانون کا پابند شہری تھا۔ اس کے خلاف ایک بھی پولیس کیس نہیں ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اسے کیوں مارا؟ اس کا قصور کیا تھا؟ مجھے انصاف چاہیے۔
کپواڑہ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) یوگل منہاس نے بتایا کہ کپواڑہ کے سرہامہ کے جنگلاتی علاقے میں ایک سرچ آپریشن کے دوران لاش ملی۔
ذرائع نے بتایا کہ لاش کو ایک اتھلے گڑھے میں دبا گیا تھا، جس کے اوپر مٹی کی ایک پتلی تہہ تھی، جو برف اور بارش کی وجہ سے جزوی طور پر بہہ گئی تھی۔
کنن گاؤں کے سرپنچ خورشید احمد نے کہا کہ انتظامیہ نے راشد کے اہل خانہ کو شناخت کے لیےاس علاقے کا دورہ کرنے کو کہاتھا۔
انہوں نے کہا، ‘ان کی لاش بری طرح سڑ گل چکی تھی۔ تاہم اہل خانہ انتظامیہ کی بات سے متفق نہیں تھے اور ان لوگوں نے زور دے کر کہاکہ اسے شناخت کے لیے کپواڑہ لایا جائے۔ اس کے بعد لاش کو ضلع اسپتال کپواڑہ لے جایا گیا۔
جموں و کشمیر پولیس میں اسپیشل پولیس افسر کے طور پر کام کرنے والے راشد کے بھائی شبیر احمد نے بتایا کہ جس جنگلاتی علاقے میں لاش ملی تھی وہ مرہامہ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ فوج کے دعوے کے مطابق یہ سرچ آپریشن کی مبینہ جگہ ہے جہاں راشد حراست سے فرار ہوگئے تھے۔
شبیر نے کہا، کشمیر کے فوج کی سب سے زیادہ تعیناتی والےعلاقے میں راشد کےبھاگنے کی جو بات کہی جارہی ہے، وہ قتل کو چھپانے کے لیے بہت بڑا جھوٹ ہے۔
شبیر کا ماننا ہے کہ راشد کے مبینہ فرار ہونےکے دن فو ج کی ہدایت پرجب پولیس اور شہریوں نے راشد کی تلاش شروع کی تو انہیں مرہامہ کی طرف موڑ دیا گیا، تاکہ وہ گڑھا (جس میں لاش کودفن کیا گیا تھا) سرچ ٹیم کو نہ مل سکے۔
تاہم فوج نے ان کی گمشدگی میں کسی طرح کی سازش سے انکار کیا ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے میں ملوث فوجی یونٹ نے پولیس کو بتایا کہ پوچھ گچھ کے دوران راشد نے کپواڑہ کے بالائی جنگلاتی علاقے مرہامہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانے کے بارے میں جانکاری ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور وہ وہاں فوجیوں کی قیادت کرتے ہوئے بھاگ نکلے تھے۔
اپنے بھائی کے لاپتہ ہونے کے بعد سے کپواڑہ ضلع کے سرکاری دفاتر اور سیکورٹی اداروں میں سراغ ڈھونڈ رہےشبیر نے کہا کہ اس کے جسم پر سرخ نشانات تھے،’جیسے آگ لگا دی گئی ہو’۔
دی وائر کے ساتھ بات چیت میں شبیر نے کہا، ‘ان کا چہرہ واضح طور پر زخمی نظر آ رہا تھا۔ گمشدگی کے دن اس نے جو کپڑے پہن رکھے تھے وہ بھی غائب تھے۔ سوائے تھرمل انرویئر کے جو لگ رہا تھا کہ اسے دفن کرنے سے پہلے جلد بازی میں پہنا گیاہو۔
اہل خانہ کے مطابق، راشد کو 15 دسمبر 2022 کو رات 8:30 بجے کے قریب کنن گاؤں میں واقع ان کے گھر سے کپواڑہ کی ترہگام تحصیل میں تعینات 41 راشٹریہ رائفلز کے جوانوں نے پولیس کو اطلاع دیے بغیر اٹھایا تھا۔
کنن شمالی کشمیر کے کپواڑہ ضلع کے ان دو گاؤں میں سے ایک ہے، جس میں پوش پورہ بھی شامل ہے، جہاں 23 سے 40 خواتین کے ساتھ ، جن میں سے ایک حاملہ تھی، کے ساتھ مبینہ طور پر 23 فروری 1991 کی رات کو فوجی اہلکاروں نے ریپ کیا تھا۔ یہ کشمیر کی شورش اور کریک ڈاؤن کے سب سے افسوسناک اور بدترین ابوب میں سے ایک ہے۔
درجنوں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ راشد کے اہل خانہ ، جس میں ان کی والدہ کھیڑا بیگم، ان کے بیمار والد عبدالفارق ڈار، دو بہنیں اور ان کے بھائی شبیر شامل ہیں، نے21 دسمبر 2022 کو سری نگر کے پریس انکلیو میں مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری بدامنی کے دوران سینکڑوں شہری سیکورٹی فورسز کی حراست میں لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اگرچہ کچھ کی لاشیں برآمد کی گئی ہیں لیکن زیادہ تر کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق کشمیر میں1989 سے اب تک 8000 سے زیادہ لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں۔
‘لاپتہ’ متاثرین کے اہل خانہ ہر ماہ کی 10 تاریخ کو سری نگر کی پریس کالونی میں ان کی جانکاری دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ کرتے تھے، لیکن مرکزی حکومت کی جانب سے 2019 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور سابق ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد یہ بند کر دیاگیا تھا۔
راشد کی موت اور ان کی لاش کی برآمدگی کی افسوسناک خبر پھیلتے ہی ان کے آبائی گاؤں کنن میں غم کی لہر دوڑ گئی، جہاں درجنوں مشتعل باشندے جمع ہوئے اور انہوں نے فوج اور بی جے پی مخالف نعرے لگائے اور مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
دی وائر کے دیکھے گئے احتجاجی مناظر کے ایک ویڈیو میں خواتین کے ایک گروپ کو راشد کے جنازے کی قیادت کرتے ہوئےدکھایا گیا ہے، جس میں مردوں، بچوں اور بزرگوں کی ایک بڑی بھیڑ شامل ہے۔
مردوں کا ایک گروپ راشد کی میت کو کندھا دے رہا ہے۔ اس کے آگے دو نوجوان راشد کی چار تصویروں کے ساتھ ‘شہید عبدل رشید ڈار’ لکھے ہوئے ایک فلیکس بینر اٹھائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اس پر ان کی ‘شہادت’ کی تاریخ، گاؤں کا نام اور کچھ جذباتی اردو اشعار بھی لکھے ہوئے تھے۔
ویڈیو میں جلوس کی قیادت کرنے والی ایک نوجوان خاتون اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کرتی ہے اور ‘مجرموں کو پھانسی دو’، جس پر ہجوم نعرے لگاتا ہے، ‘انہیں پھانسی دو، پھانسی دو’۔ اس کے علاوہ وہ کہتی ہیں،’انڈین آرمی کو سزا دو’ اور ہجوم دہراتا ہے، ‘انہیں سزا دو، انہیں سزا دو’۔
راشد کی نماز جنازہ میں سینکڑوں سوگوار لوگوں نے شرکت کی جس کے بعد بدھ کی رات تقریباً 8 بجے انہیں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اپنے بھائی کی تدفین کے بعد دی وائر سے بات کرتے ہوئے شبیر نے کہا، ‘پچھلے 30 سالوں میں کپواڑہ میں بہت سے لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں میرا بھائی شاید پہلا لاپتہ شخص ہے جو مل گیا ہے، بھلے ہی اس کی لاش ملی ہے۔ اس کی لاش کو گھر واپس لاکرکم از کم میں اس کی قبر پر دعا کر سکتا ہوں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔