کشمیر کے اخبار گریٹر کشمیر کے ساتھ طویل عرصے تک وابستہ رہے خالد گل ان صحافیوں میں سے ایک تھے جن کے گھروں پر گزشتہ ماہ پولیس نے دوسرے صحافیوں کو ملنے والی آن لائن دھمکیوں کے سلسلے میں چھاپے مارے تھے۔
نئی دہلی: پولیس نے منگل کو جموں و کشمیر کے اننت ناگ ضلع سے ایک صحافی کو 2017 کے معاملے میں گرفتار کیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ خالد گل کو اننت ناگ شہر سے گرفتار کیا گیا۔ وہ ان صحافیوں میں سے ایک ہیں جن کی رہائش گاہ پر پولیس نے دوسرے صحافیوں کو ملنے والی آن لائن دھمکیوں کے سلسلے میں چھاپہ مارا تھا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ اس کیس میں ان پر کیا الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
گل مقامی روزنامہ ‘گریٹر کشمیر’ سے کئی سالوں سے وابستہ تھے، حال کے دنوں میں وہ جنوبی کشمیر کے بیورو چیف تھے۔
اخبار نے اطلاع دی کہ گل نے اس سال کی شروعات میں اخبار کو چھوڑ دیا تھا۔
دی وائر نے نومبر میں بتایا تھاکہ ‘کشمیر فائٹ’ بلاگ کے ذریعے صحافیوں کو دی گئی جان سے مارنے کی دھمکی، جو 12 نومبر کو ٹیلی گرام اور وہاٹس ایپ پلیٹ فارم پر نشر ہوئی ، کے سلسلے میں کشمیر میں 19 مقامات پر چھاپے مارے گئے تھے۔ ان میں کشمیر ریڈر کے مالک حاجی حیات کی رہائش گاہ بھی شامل تھی۔ سری نگر کا یہ انگریزی روزنامہ اپنے مزاحمتی ایڈیٹوریل پالیسی کے لیے جانا جاتا ہے۔
اسی دوران گل کی رہائش گاہ پر بھی چھاپہ مارا گیا تھا۔ وہ فی الحال ایک فری لانس صحافی ہیں، لیکن وہ جس گریٹر کشمیر کے لیے پہلے کام کرتے تھے، اس کا نام بھی دھمکی آمیز خط میں تھا۔
غور طلب ہے کہ رائٹرس کے مطابق، پولیس نے صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں کے لیے پاکستان کی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ اور اس کی اور اس کی فرنٹل تنظیم دی ریسسٹنس فرنٹ(ٹی آر ایف ) کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
آن لائن پوسٹ کے ذریعے’کشمیر میں تین میڈیا ہاؤس کے ملازمین کو مرکزی حکومت کی حمایت اور ہندوستانی فوج کی سرپرستی ‘ میں ہونے اور ‘فرضی بیانیہ پھیلانے’ کے لیے دھمکی دی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھاکہ صحافی ہندوستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ‘تعاون’ کر تے ہیں۔
اس دھمکی کے بعد ان میڈیا اداروں سے وابستہ پانچ صحافیوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)