گیلانی صاحب کے بار بار اسلام و قرآن اور اقبال کے تذکرہ سے بھی کئی لوگ نالاں رہتے تھے مگر ہندوستان میں بائیں بازو کے افراد کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے اور وہ بھی ان کو خوب نبھاتے تھے۔ ممبئی میں ایک بار آندھرا پریش کے تعلق رکھنے والے ایک بائیں بازو کے لیڈر نے جن کا کشمیر آنا جانا لگا رہتا تھا اوران کو میری رشتہ داری کا علم نہیں تھا بتایاکہ گیلانی صاحب کشمیر کے گنے چنے مخلص اور سنجیدہ لیڈروں میں سے ہیں۔ وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ بطور کشمیری ان کی قدر کروں۔
سید علی شاہ گیلانی، فوٹو سوم بسو
جنوری کے مہینے میں ویسے ہی کشمیر میں ہر چیز جم جاتی ہے، مگر شمالی کشمیر کے سوپورقصبہ میں 1972کی سردیاں گرمی کا احساس کروا رہی تھیں۔ ایک تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ جب ماضی کو کریدتے ہوئے میں معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اباجی یعنی سید علی گیلانی کو میں نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا، تو یادوں کی دھند صاف کرتے ہوئے مجھے ایک چار سالہ بچہ نظر آیا، جو اپنے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی (جو ان دنوں سرینگر میڈکل کالج میں طالب علم تھے ) کے کندھے پر سوار رات گئے میر سید علی ہمدانی کی درگاہ یعنی خانقاہ کے صحن میں ایک پر جوش ہجوم کے ساتھ کھڑا ہے۔
ایک دراز قد، بارعب مگر شفیق اورخوش لباس شخص درگاہ کے دروازے سے نمودار ہوتا ہے اور نعروں میں مزید ارتعاش آجاتا ہے۔ جوں جوں یہ شخص قد م بہ قدم سیڑھیوں سے نیچے اترتا ہے، ہجوم بے قابو ہوکراس کے قریب جانےاورمصافحہ کرنے کی سبقت لینے کےفراق میں ہے۔معلوم ہوا کہ یہ شخص گیلانی صاحب ہیں، جو ریاستی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے ہیں اور خانقاہ میں نماز شکرانہ ادا کرنے کے لیے آئے تھے۔
وہ ہمار ے قر یب آئے اور میرے چچا سے علیک سلیک کرکے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر گالوں کو تھپکی دی۔ ان کے خاندان کے ساتھ ہمارا بس اتنا تعلق تھا کہ وہ میرے تایا پروفیسر سعید(جو انہی دنوں امریکہ منتقل ہو گئے تھے)کے استاد تھے۔ بعد میں اباجی بتاتے تھے کہ سوپور انٹر میڈیٹ اسکول میں جب وہ سعید صاحب کو پڑھاتے تھے، تو ان کو اپنا بچپن اور غربت میں پڑھائی کے لیے تگ و دو یاد آجاتی تھی۔
اسی وساطت سے وہ میرے دادا غلام نبی، جو ابن حسام کے نام سے شاعر اورعربی فارسی کے عالم بھی تھے، کو بچوں کو پڑھانے کی ترغیب اور حوصلہ دیتے تھے۔ اس الیکشن میں انہوں نے دھاندلیوں کے باوجود اس خطے سے کانگریس کے ایک بت کو پاش پاش کردیا تھا۔
سوپور قصبہ اور اس کے اطراف میں 60اور 70 کی دہائی میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے شعلہ بیان سید علی گیلانی، انقلابی شخصیات شی گویرا، ہوچی من یاآیت اللہ خمینی تھے۔ وہ اپنے خطاب سے بدن میں بجلیاں بھر دیتے تھے۔ چاہے مقامی مسائل ہوں، یا 1979میں افغانستان پرسویت فوجوں کی چڑھائی یا اس کے ایک سال بعد اسرائیل کا یروشلم شہر کا ضم کرنے کا واقعہ ہو، وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کے تجارتی مرکز کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
جیسے گویرا نے کہا ہے ”کہ انقلاب کوئی پکا ہوا سیب نہیں ہوتا ہے، جو خود ہی جھولی میں آکر گرے، اس کو گرانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے،“1989میں کشمیر میں جو ہندوستان مخالف انقلاب برپا ہوا، وہ اس کے اہم محرک تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی پارٹی نے اس سیب کو حاصل کرنے میں خاصی ہچکچاہٹ دکھائی۔1975کے بعدکشمیر کی اکثر آزادی پسندتحریکیں انڈر گراؤنڈ ہوچکی تھیں۔
ویسے 1947کے بعدمسلم کانفرنس کی اعلیٰ لیڈرشپ چودھری غلا م عباس اور میر واعظ یوسف شاہ کی ہجرت کے بعدشیخ محمد عبداللہ کو سیاسی میدان میں چیلنج کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔ 1975 کے اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے ایکارڈ کے بعد ہندوستان مخالف سیاست کو گیلانی صاحب کی صورت میں بلا لحاظ نظریہ ایک آواز، چہرہ اور سرپرست ملا۔
گوکہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو انقلاب کے سیب کو پکڑنے اورعسکری جدوجہد کا آغاز کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، اس کے بیج گیلانی نے ہی بوئے تھے۔ 1987کے اسمبلی انتخابات میں بے انتہا دھاندلیوں سے قبل ہی بارہمولہ میں ایک درزی اور اس کے معاون کی فوج کے ذریعے حراستی موت کے خلاف ایجی ٹیشن کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے تین الف یعنی اتحاد، اسلحہ اور اسلام کا نعرہ دیا تھا۔ ان کی تقریر کا مفہوم تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اپنی حفاظت کے لیےاسلحہ رکھا جائے کیونکہ سیاسی دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔
ان کا بچپن نہایت ہی عسرت اور مفلسی کی داستان ہے۔ کئی کئی دن فاقے کرنے پڑتے تھے۔لیکن اس کے باوجود ان کے والد بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ منجھلے بچے علی پر تو علم حاصل کرنے کا جنون طاری تھا۔ گاؤں کے اسکول سے امتیازی نمبرات حاصل کرکے ان کو نو کیلومیٹر دور سوپور میں پرائمری اور مڈل میں داخلہ ملا۔ گاؤں سے اسکول جانے کے لیےیہ بچہ روز پیدل 18کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا تھا۔
شاید اسی بیک گراؤنڈ نے ان کو سختیاں جھیلنے اورنظم و ضبط کی عادت ڈال دی تھی۔ 1963میں پہلی گرفتاری کے دوران ہی ان کے والد کا انتقال کر گئے۔ ان کو بعد میں بتایا گیا کہ ان کے والد ان کی یاد میں آنسو بہاکر کھڑکی پر بیٹھ کر سوپور کی طرف کی سڑک پر نگاہ جمائے رہتے تھے اور جب بھی کبھی دور سے سیاہ قراقلی پہنے کسی شخص کو آتے دیکھتے تو علی علی پکار کر کمرے سے باہر آجاتے۔
آخرکار یہی گھاؤ لیے دارفانی سے کوچ کر گئے۔ان کے والد ایک معمولی یومیہ مزدور تھے۔ وسائل کی کمی کے باوجود بچوں کوپڑھانے کے لیے کوشاں تھے۔ یہی وصف بعد میں شاید گیلانی صاحب میں بھی سرایت کر گیا۔ تمام تر مشکلات و طعنے سہنے کے باوجود انہوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ جیل سے جو خطوط بیٹیوں کو لکھتے تھے، ان میں بھی ان کو تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔
ویسےتو ان کے خاندان کے ساتھ میرا براہ راست تعلق 1996میں ہوا، جب ان کی صاحبزادی آنسہ میرے عقد میں آئی۔ لیکن ایک لیڈر کی حیثیت اور میرے قصبہ سوپور کے ایک باسی کی نوعیت سے یہ تعلق میرے آنکھ کھولتے ہی شروع ہوگیا تھا۔ شاید ہی کوئی ان کی تقریریا جلسہ جو سوپور یا اس کے اطراف میں منعقد ہوا ہو، جس میں، میں نے شرکت نہ کی ہو۔
اپنے دیگر بھائیوں کے برعکس میرے والد کوروایتی پیروں کی طرح جماعت اسلامی سے چڑ تھی۔ ان کولگتا تھا کہ ان جلسے، جلوسوں کی وجہ سے میری پڑھائی میں ہرج ہوتا ہے اور گمراہ ہوجاتا ہوں۔ کئی دفعہ میری پٹائی بھی کرتے تھے۔ مگر کبھی خود ہی جیب خرچ دیکر سرینگر عید گاہ میں جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں جانے کے لیے کہتے تھے۔ ان کا یہ تضاد میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔
گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر سرکاری ملازمت اختیار کی تھی اور اپنی محرومی کا ازالہ شاید مجھے زندگی میں کامیاب ہوتے دیکھ کر کرنا چاہتے تھے۔اس دوران ان کی ڈیوٹی گیلانی صاحب کے گاؤں ڈورو میں ہوئی تھی اور وہاں ان کے گھر تک ان کی رسائی ہوئی تھی۔ چونکہ ان دنوں میں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار ہوا تھا، لہذا انہوں نے ہی میرے عقد کی بات چلاکر طے بھی کر لی۔
میری ساس کو بھی ایسے داماد کی تلاش تھی، جس کا سیاست کے ساتھ دور دور کا واسطہ نہ ہو۔ اکثر افراد گیلانی صاحب کو طعنہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو تحریک میں شامل نہیں کیا۔ ان کے ایک داماد ظہور جو ان کے بھتیجے بھی ہیں، کشمیر کے اولین عسکریت پسندوں میں ہیں اور نوے کی ابتدا میں ہی گرفتار ہو کر نو سال قید میں رہے۔ ایک اور داماد الطاف احمد شاہ تو پہلے دن سے ہی سیاست سے وابستہ تھے۔
نیشنل کانفرنس فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ وہ پچھلے پانچ سالوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی بار جیلوں کی زیارت کر چکے ہیں۔ ان کے بڑے داماد، غلام رسول، جن کا اب انتقال ہوچکا ہے کے چچا جماعت اسلامی کے رکن تھے، جن کو سرکاری بندوق برداروں نے دن دہاڑے ہلاک کردیا۔ سرکاری بندوق برداروں اور پھر آئے دن کے چھاپوں اور تلاشیوں سے ان کی پوری فیملی کو دردبد ر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
خیر جب میں 90کے اوائل میں دہلی وارد ہواتو دیگرکشمیری طالبعلموں کے ساتھ مل کر ہم نے ایسا ماحول بنایا تھا کہ نظریاتی اور لیڈرشپ کے اختلافات سے بالاتر سبھی لیڈروں کی میزبانی کرکےان کو فورم مہیا کروائیں جائیں۔ اسی لیے چاہے شبیر شاہ ہوں یا یٰسین ملک، عبدالغنی لون یا سید علی گیلانی، سبھی کے لیے ملاقاتوں کا نظم کروانا اور ان کی خیال رکھنے کی ذمہ داری اٹھاتے تھے، جب تک غالباً1995میں دہلی میں حریت کا دفتر نہیں کھلا، جو 2003تک کشمیر ایورنس بیورو کے نام سے کام کرتا رہا۔
ایک بار میں نے گیلانی صاحب سے کہا تھا کہ آپ کو گوریلا مومنٹ جوائن کرنی چاہیے تھی۔ کیونکہ سوپور میں ایک بار انکی زبردست تلاش ہو رہی تھی۔ جگہ جگہ چھاپے پڑ رہے تھے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ وہ جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرنے والے ہیں۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ جامع مسجد جانے والے راستوں اور اس کے آس پاس چپہ چپہ پر پولیس اور سی آئی ڈی کا جال بچھا ہوا تھا۔
خطبہ شروع ہونے سے بس پانچ منٹ قبل وہ محراب کے پاس نمودار ہوئے اور تقریر شروع کی۔ 1975میں جب ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ ہوئی تو شیخ محمد عبداللہ نے جموں و کشمیر میں بھی اس کا اطلاق کرکے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر اس کے لیڈروں اور اراکین کو پابند سلاسل کر دیا۔ کئی روز تک گیلانی صاحب کو گرفتار کرنے کے لیےچھاپے پڑتے رہے۔
سوپور میں معروف تاجران محمد اکبر بساطی و غلام حسن بساطی، جن کے ہاں وہ اکثر ٹھہرتے تھے، کے گھروں اور دکانوں کی ایسی تلاشی ہوئی، جیسے سوئی ڈھونڈی جاری ہو۔ اسمبلی کا سیشن جاری تھا، اور وہاں بھی سخت پہرہ تھا۔ چند روز بعد وہ اسمبلی فلور پر نمودا ر ہوئے اور دھواں دھار تقریر کرکے پھر باہر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا۔
گو کہ گیلانی صاحب عسکری تحریک کے حامیوں اور اس کے سرپرستوں میں شمار کیے جاتے ہیں، مگر اس کی خامیوں پر براہ راست مخاطب بھی ہوتے تھے، جس کی وجہ سے کئی نوجوان اور لائن آف کنٹرو ل کے دوسری طرف کے لوگ بھی ان سے ناراض ہو گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ فروری 1990میں سوپور میں اور پھر یاری پوری اننت ناگ میں انہوں نے بھرے جلسہ میں کہا کہ ”سفر بڑا طویل اور راستہ بڑا ہی کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر اور سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔“انہوں نے عوام سے کہا کہ غلط اندازے نہیں لگانے چاہیے، کیونکہ پنچہ استبداد ابھی کھل کر سامنے نہیں آیا ہے۔
ایک مثال دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، ”اگر آپ کے پاس گاڑی نہ ہو اور سرینگر جانا پڑے، تودوڑ لگا کر زیادہ زیادہ ایک یا دوکیلومیٹر تک چل کر پھر نڈھال ہو کر گر جاؤگے۔ اس کے برعکس اگر آپ آہستہ آہستہ پڑاؤ بہ پڑاؤ چلنا شروع کریں گے۔ رات کسی بستی میں گزاریں گے اور کچھ روزینہ ساتھ لےکر سلامتی کے ساتھ منزل پالیں گے۔“جذبات سے مغلوب نوجوانوں کو ان کی باتیں بہت کھٹکی۔چند لوگ کہہ رہے تھے کہ بڈھا سنکی ہو گیا ہے، نہ خود کچھ کرنا چاہ رہا ہے، نہ ہیں کچھ کرنے دے رہا ہے۔
اننت ناگ کے کھنہ بل میں جہاں وہ غلام نبی سمجھی کے گھر پر ٹھہرے تھے نوجوانوں کا ایک گروپ ان سے ملنے آیا اور کہا کہ”آپ یہ کہہ کر کہ جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے، مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں۔ لوگ تو مارچ کے مہینے میں کھیتیاں جوتنے سے پہلےآزادی کی نیلم پری سے ہم کنار ہونا چاہ رہے ہیں۔سیاسی لیڈر ہماری غلط رہنمائی کر رہے ہیں یا خود بے بصیرت ہو گئے ہیں۔“
اس صاحب بصیرت نے نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز میں کشمیر میں عسکری جدوجہد کی پرتیں کھول کر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پانچ فروگذاشتوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلا کہ”سرفروش نوجوانوں نے سمجھا کہ انہوں نے ہندوستان کو بھگا دیا ہے اور مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے والے سیاسی گروہ یا لیڈران کو اب ان کے ذریعے حاصل کیے ہوئے اقتدار میں شریک ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔نتیجہ نکلا کہ عوامی جدوجہد سیاسی قیادت سے محروم ہو گئی۔“اس طرح کی ہدایات سرحد پار سے بھی ملتی تھیں۔
اس کے بعد خود حکومت نے بھی اس قیادت کو کئی برسوں تک پابند سلاسل رکھا۔دوسرا یہ کہ ”مسلح جدوجہد شروع ہونے کے مرحلے پر تربیت حاصل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔کئی افراد نے بندوق اپنی ذاتی خواہشات اور انتقام گیری کی تکمیل کے لیے حاصل کی۔“گیلانی صاحب کے بقول مسلح جدوجہد حصول آزادی کے لیےآخری مرحلہ ہوتا ہے اور اسی پر ان کی کامیابی اور روشن مستقبل کا انحصار ہوتا ہے، اس لیے اس کے لیے برسہا برس کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تیسری فروگذاشت، ”مسلح نوجوانوں کی سرفرشانہ جدوجہد نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو سرد خانے سے نکال کر عالمی سطح پر ابھارنے میں کامیابی حاصل تو کرلی اور جمود توڑ دیا، مگر عوام کی پے پناہ پذیرائی نے ان میں سے بیشتر کو خود سری کے جنون میں مبتلا کر دیا، جو گروہی تصادم کی شکل میں نمودار ہو گئی۔ہونا تو چاہیے تھا کہ گروپ مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرلیں،یا اپنے دائرہ کار کے اندر کام کرلیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس آپسی ٹکراؤ میں ایسے افراد قوم سے چھین لیے گئے، جو ایک ایک ہزار افراد پر بھاری تھے۔
“چوتھی فرگذاشت ”مسلح جدوجہد شروع کرنے والے اور کوئی گروپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھا کہ کلا شنکوف کے بل بوتے پر ہندوستان کی فوجی قوت کو قبضہ سے دستبردار پر مجبور کیا جائے، بلکہ مقصد تھا کہ ہندوستان کو متنازعہ حیثیت تسلیم کرنے پر تیار کیا جائے اور نتیجہ خیز بامقصد اور دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کروایا جائے۔ مگر یہ ہدف نوجوانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔“پانچویں فرگذاشت تھی کہ”مسلح جدوجہد کے ہر دور میں کھلے دشمن کے ساتھ چھپے دشمن میں ہوتے ہیں۔
اس تلخ حقیقیت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم جدوجہد آزادی کے دوران فضائے بد ر پیدا نہیں کر سکے۔اندھی فوجی قوت نے وسیع ترین پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کیا ہے ان کے مقابلے ہمار ریکارڈ صاف و شفاف ہو نا چاہیے تھا، جو نہیں رکھ پائے۔“
سال 1999کی جنگ کرگل کے بعد حریت کانفرنس کے رہنماؤں میں تحریک کے حوالے سے رویہ میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی تھی۔
میر واعظ عمر فاروق، عبدالغنی لون اور دیگر زعماء کا خیال تھا کہ نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولنا چاہیے۔مگر گیلانی صاحب کا موقف تھا کہ جب تک ہندوستان اٹوٹ انگ کی رٹ بند نہیں کرتا ہے اور مذاکرات کے لیے ماحول نہیں بناتا ہے، تب تک اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ان اختلافات کی وجہ سے بعد میں حریت تقسیم ہوگئی۔ مگر ان کا استدلال تھا کہ سیاسی تحریک کی عدم موجودگی کے وجہ سے عسکری تحریک زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی ہے، اس لیے گراؤنڈ پر جاکر سیاسی جدوجہد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
سال 2003میں جیل سے رہائی اور گردوں کے آپریشن کے بعد انہوں نے قریہ قریہ گھوم کر حتیٰ کہ گریز، پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ جیسے دور دراز علاقوں کا دورہ کرکے سیاسی جدوجہد کے لیے راہ ہموار کی۔ اس دوران حکومت نے بھی موقف اپنایا تھا کہ حریت کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ اس دوران پٹن اور سنگرامہ حلقہ میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ امیداوار کی تقریر ختم ہوتے ہی، گیلانی صاحب پہنچتے تھے، اور اسی اسٹیج سے عوام کو انتخاب کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے تھے۔
حکومت ان کو تقریریا دورہ کرنے سے روکتی نہیں تھی، مگر ان کی میزبانی کرنے والوں پر قہر ڈھاتی تھی۔ بارہمولہ شہر کے چوراہے پر جب انہوں نے تقریر ختم کی تو پاس ہی رہائشی ایک رکن جماعت نے ان کو چائے کی دعوت دے دی۔ چائے پینے کے بعد گیلانی صاحب سرینگر روانہ ہوگئے، تو اس معمر رکن جماعت کی شامت آگئی اور اس کو پبلک سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔
ان کی گرفتاری کی وجہ بتائی گئی اس نے سید علی گیلانی کی میزبانی کی ہے۔ یہ حضرت کئی سال جیل میں رہے۔ اس لیے ان دورں کے دوران وہ کسی کے گھر کے بجائے مسجد میں رات بھر رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ 2008میں کشمیر کی سڑکوں پر امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن اور پھر 2010اور 2016میں برھان وانی کی ہلاکت کے بعد جو تحریکیں برپا ہوگئیں، وہ ان کی 2004سے 2008تک اس زمینی جدوجہد کا شاخسانہ تھیں۔ وہ جوانوں کی پرامن رہنے کی تاکید کرتے تھے اور بتاتے تھے، جب پولیس روکے گی تو بجائے محاذآرائی کے سڑک پر دھرنا دیا کریں۔ پلوامہ ضلع میں ایسا ہی ہوا۔
ایک بھاری جلوس نیوہ سے قصبہ کی طرف جا رہا تھا کہ نیم فوجی دستوں نے ان کو آگے جانے سے روکا تو لوگ سڑک پر بیٹھ گئے۔ مگر پر امن ہجوم پر گولیاں برسائی گئیں ایک جوان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ 117دن کی ہڑتال اور 100دن سے سخت کرفیو کے بعد انہوں نے کاروبار بتدریج کھولنے کی اپیل کی، جس پر ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی افراد نے لکھا کہ گیلانی، مہاتما گاندھی کا راستہ اپنا رہے ہیں۔
جس پر انہوں نے جواب دیا کہ گاندھی کا فلسفہ تو خود ان کی زندگی میں ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔ ”امن کا نعرہ ہم دیتے ہیں۔ امن سے ہی حل طلب مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ مگر ہندوستانی قیادت اس سنگین مسئلے کو طول دےکر خود بدامنی پھیلا رہی ہے اور الزام ہمارے سر تھوپ رہی ہے۔کب تک اس سلسلے کو جاری رکھا جاسکتا تھا۔“
پاکستان میں وقتاً فوقتاً جمہوریت کا خون ہوتے دیکھ کر وہ تاسف کا اظہار کرتے تھے۔نومبر 1996میں جب بے نظیر بھٹوکو برطرف کیا گیا، تو وہ ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔ اس دوران ان کے سکریٹری نے ان کو بتایا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین صاحب لائن پر ہیں۔ انہوں نے فون اٹھاتے ہی حکومت کی بر طرفی کے حوالے سے قاضی صاحب کو خوب سنایا۔“ فون کے بعد ان کے سکریٹری نے ان کو بتایاکہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، آپ کیوں اس میں پڑتے ہیں۔ تو انہوں نے کہاکہ ان کے اندرونی معاملات سے ہمارے معاملات بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہانی اپریل 2005 کی ہے۔
پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے دورہ دہلی کا اعلان ہوچکا تھا۔ چونکہ امن کوششیں عروج پر تھیں،ہندوستانی حکومت اور پاکستانی ہائی کمیشن دورہ کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوششیں کررہے تھے۔ انہی دنوں اس وقت دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر مرحوم منور سعید بھٹی نے مجھے فون کیا۔ بھٹی صاحب وضع داری‘رواداری اور معاملات کو سلجھانے کے حوالے سے ابھی تک دہلی میں ڈیوٹی دے چکے، پاکستان کے مقبول ترین سفارت کاررہے ہیں۔فون پر انہوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ طے ہوا کہ سفارتی علاقہ چانکیہ پوری میں ہی ایک ریستوراں میں چائے نوش کریں گے۔
چونکہ مشرف کی آمد آمد تھی، میری رگ صحافت بھی پھڑک رہی تھی، کہ چلومشرف کی آمد کےحوالے سے کوئی چٹ پٹی خبر بھی مل جائے گی۔مگر ریستوراں میں سیٹ پر بیٹھتے ہی، بھٹی صاحب مجھے بلوچستان کی تاریخ اور شورش کا پس منظر سمجھانے لگے۔ میں حیران تھا کہ آخر اس کا مجھ سے کیا لینا دینا ہے۔ کچھ منٹ کے بعد وہ مدعا زبان پر لائے۔ کہنے لگےکہ کیا میں گیلانی صاحب کو آمادہ کرواسکوں گاکہ مشرف کے ساتھ ملاقات میں وہ بلوچستان کے مسائل کا تذکرہ نہ کریں؟
صدر پاکستان اپنے دورہ کے دوران کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے تھے۔میں نے معذرت کی کہ گیلانی صاحب کی سیاست میں‘میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی میں ان کو کوئی مشورہ دینے کی حیثیت رکھتا ہوں۔گیلانی صاحب نے سرینگر میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خلاف بیانات داغے تھے اور نواب اکبر بگتی کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ کشمیری رہنماؤں اورخصوصاً گیلانی صاحب کا پاکستان کی چوٹی لیڈرشپ سے ملاقات کا موقع ملنا نا ممکنات میں سے ہے اور یہ ایک نایاب موقع ہےکہ کشمیر میں تحریک کو درپیش مسائل سے صدر پاکستان کو، جو ملٹری لیڈر بھی تھے، باور کراکر انہیں فی الفور حل بھی کروایا جائے؛چنانچہ میں معذرت کرکے رخصت ہوگیا۔
مگر ان کی اس بات سے کہ کشمیر کے اپنے مسائل کچھ کم نہیں ہیں، جو کوئی کشمیری رہنما، صدر پاکستان کے ساتھ بلوچستان کا درد بھی سمیٹنے بیٹھے، تھوڑا بہت مجھے بھی اتفاق کرنا پڑا۔گھر آکر میں نے اپنی اہلیہ سے کہا، کہ تمہارے والد (سید علی گیلانی)نے ایک توہندوستان کے خلاف علم بلند کیا ہوا ہے، اور دوسر ی طرف ا ب”واحد دوست اور وکیل“ پاکستان کی لیڈرشپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔آخر میڈیا کی رپورٹس کی بنیاد پر ان کو بلوچستان کے مسائل کا ورد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میٹنگ سے ایک روز قبل 16اپریل 2005 کو گیلانی صاحب دہلی وارد ہوگئے تو میری اہلیہ ان سے ملنے گئی تو شاید ان کے گوش گزار کیا۔ اور دیگر ذرائع سے بھی پاکستانی حکومت نے شاید ان تک یہ بات پہنچائی تھی کہ ْانہیں صدر پاکستان کے ساتھ ملاقات میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔
اگلے روز صبح سویرے میرے گھر وارد ہوکر پہلے انہوں نے مسکرا کر کہا،“ کہ اپنے دوست اور محسن کو یہ کہنا کہ اپنے گھر کاخیال رکھو، اور اس کو کو فتوں سے خبردار کرانا آخرکیوں کر سفارتی آداب کے منافی ہے؟ و ہ شاید متفق ہو گئے تھے کہ گفتگو کشمیر تک ہی مرکوز رکھیں گے۔ بہر حال دوپہر4بجے جب وہ لیاقت علی خان کی دہلی کی رہایش گاہ اور موجودہ پاکستان ہاؤس میں پہنچے تو طاقت کے نشے میں سرشار مشرف نے ان کے وفد میں شامل دیگر اراکین سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔
کرسیوں پر بیٹھنے سے قبل ہی گیلانی صاحب نے دوٹوک الفاظ میں مشرف سے کہا،”کہ یہ داڑھی والا نوجوان (نور احمد)، جو میرے ساتھ ہے، پوسٹ گریجویٹ ہے۔ آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہونگے۔“اس“والہانہ“استقبال کے بعد مشرف نے چھوٹتے ہی کہا،‘گیلانی صاحب آپ آئے د ن بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔آخر آپ کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں کیا پتہ ہے؟ آپ بلوچستان کی فکر کرنا چھوڑیں۔“بقول ان افراد کے جو اس میٹنگ میں شریک تھے،مشرف نے ایک تو خود ہی بلوچستان کا ذکر چھیڑا اوربزرگ کشمیری رہنما کی توہین کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
ان افراد کے مطابق گیلانی صاحب نے جواب دیا کہ کشمیر کاز پاکستان کی بقا سے منسلک ہے۔ اس کے رکھ رکھاؤ، اس کی سلامتی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ان کو فکر ہے۔ اس کے بعد مشرف نے اپنے فارمولہ کی مخالفت کرنے پر ان کو آڑے ہاتھوں لیا۔گیلانی صاحب نے ان کو ان کی افغانستان پالیسی اور امریکہ کی مدد سے اپنے شہریوں کو قتل کروانے پر بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ تحریکوں میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ 20منٹ کی یہ میٹنگ اس طرح کی“خیر سگالی“ پر ختم ہوئی۔
ایک سال بعد اکبر بگتی کو جب ایک غار میں ہلاک کیا گیا، تووہ سخت نالاں تھے۔اس کا ذکر بعد میں2011 میں دہلی میں انہوں نے اس وقت کی پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے ساتھ بھی کیا۔واپسی پر مشرف کے حکم پر پاکستان میں ان کے دفاتر بند کر دیے گئے۔ سرینگر راج باغ میں بھی ان کو اپنا دفتر بند کرنا پڑا۔
چونکہ میرا بھی خیال تھا کہ مشرف فارمولہ سے کم سے کم لائن آف کنٹرول کو کھول کر عوام کو کسی حد تک راحت اور ان کا احساس اسیری دور کیا جاسکتا ہے، میں نے ایک بار ان کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کا جواب تھا کہ”اگر یہ حل قابل عمل ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لیے سید علی گیلانی کا آن بورڈ ہونا کیوں ضروری ہے؟ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے، تو میں خود ہی سیاسی طور پر بے وزن و بے وقعت ہو جاؤں گا۔
اور اگر ہندوستان آمادہ ہےتو مشرف کے بجائے اس کے لیڈران اس کا اعلان خود کیوں نہیں کرتے ہیں۔“ریاستی کانگریس کے صدر غلام رسول کار اور معروف دانشور اے جی نورانی نے ان کو ایک بار کہا ”کہ وہ اس لیے اس امن مساعی کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ کوئی داغ لیے بغیر دنیا سے جانا چاہتے ہیں اور مرتے وقت شیخ عبداللہ کی طرح کا دھوم دھام کا جنازہ چاہتے ہیں۔“گیلانی صاحب نے کہا کہ وہ کوئی سودا کرنے کے بجائے گمنامی کی موت پسند کریں گے۔
دہلی سے سرینگر آتے ہوئے ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے ایک بار مجھے بتایا ”کہ یہ واحد ناقابل تسخیر لیڈر ہے اور جس کو خریدا نہیں جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کو معلوم ہے کہ ان کے پاس بھی وافر فنڈنگ آتی ہے مگر وہ اس کو اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے مستحقین تک پہنچاتے ہیں۔“حتیٰ کہ انہوں نے اپنے آبائی گاؤں میں اپنی اور اہلیہ کی پراپرٹی وہاں ایک اسکول کو وقف کی۔اس سے قبل بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع کرکے بتایا کہ اگر ان کو اعتراض ہے، تو وہ اپنا حصہ یا اس کی قیمت لے سکتے ہیں۔
سرینگر میں ان کی رہائش گاہ جماعت کی ملکیت تھی، جس کو بعد میں تحریک حریت سے متعلق ٹرسٹ کو ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ 1970میں ممبر اسمبلی بننے سے قبل ہی انہوں نے ڈورو گاؤں میں مکان بنانا شروع کیا تھا، جو 1988میں تیار ہو گیا تھا۔ مگر اس میں ان کو رہنا ہی نصیب نہیں ہوا۔ وہ جلد ہی جیل چلے گئے اور پھر پارٹی اور احباب کی ہدایت پر سرینگر منتقل ہو گئے۔ اس مکان کو بعد میں سرکاری جنگجوؤں نے بلاسٹ کرکے تہس نہس کر دیا۔
اے جی نورانی کی معیت میں ایک بار نیشنل کانفرنس کے ایک سینئر لیڈر اور فاروق عبداللہ کے کزن شیخ نذیر نے ہمیں بتایا کہ وہ کشمیر کے سب سے بڑے ہندوستان مخالف شخص ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی انڈین پاسپورٹ کے لیےدرخواست نہیں دی ہے۔وہ انڈین ایر لائنز کے جہاز میں سوار ہوتے ہیں نہ ہی دہلی آتے ہیں۔ اس کی وجہ انہوں نے بتائی کہ جب شیخ محمد عبداللہ دہلی کے کوٹلہ لین میں نظر بند تھے، تو ان کو ان کی بیٹی ثریا کی شادی میں شرکت نہیں کرنے دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ صاحب نے ان کے ہاتھ ثریا کے لیے تحفہ دےکر منہ دوسری طرف کر دیا تھا، کیونکہ وہ رو رہے تھے۔ یہ تاریخ اکتوبر 1999میں دوبارہ دہرائی جا رہی تھی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ خود شیخ نذیر اور فاروق عبداللہ اب پاور میں تھے،اور شادی گیلانی صاحب کی صاحبزدی، جس کا نام بھی ثریا تھا، کی ہو رہی تھی۔
پارلیامانی انتخابات کے موقع پر ان کو گرفتا رکرکے جودھ پور جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ جہاں طبیعت کی ناسازی کے باعث دہلی لاکر ان کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمز)کے آئی سی یو وارڈ میں داخل کر دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر پولیس کے دہلی یونٹ سے فون آیا کہ آئی سی یو کے باہر کسی رشتہ دار کا بطور اٹنڈنٹ ہونا ضروری ہے۔ خیر اس رات میں آئی سی یو کے باہر بیٹھا رہا۔سرکاری اسپتال ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً کوئی وارڈ بوائے یا ڈاکٹر باہر نکل کر کسی مریض کی موت کا اعلان کرتے تھے یا دوائی لانے کی ہدایت دیتے تھے۔ اگلے روز ان کو کمرہ میں منتقل کیا گیا۔ جہاں باہر پولیس کا پہرا ہوتا تھا، اور وہ فون اندر لےجانے نہیں دیتے تھے۔
ان کی بیٹی کی شادی کے دن میں نے ان سے درخواست کی کہ ان کو فون پر ہی نکاح کی تقریب میں شمولیت کی اجازت دی جائے۔ پولیس والوں نے جب تک اجازت طلب کی، تب تک نکاح کی مجلس اختتام کو پہنچ چکی تھی، مگر جب ثریا وداع ہو کر گاڑی میں بیٹھ رہی تھی، تو اس وقت ہمیں فون کرنے کی اجازت مل گئی۔ وہ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ جودھ پور جیل میں رہے۔ اپریل 2001میں ثریا کا بعد میں انتقال ہو گیا۔
فن خطابت پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ بقول پروفیسر بھیم سنگھ، جو ان کے ساتھ اسمبلی میں ممبر تھے، ”ان کی تقریر کے وقت سناٹا چھا جاتا تھا۔ ارکین اسمبلی کے ساتھ اسٹاف سے گیلریاں بھر جاتی تھیں۔ان کی تقریر اردو لغت کا ایک ذخیرہ ہوتی تھی۔ ان کی کتاب روداد قفس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار کلدیپ نیر نے کہا کہ یہ اردو ادب کی بدقسمتی ہے کہ یہ شخص سیاستدان بن گیا۔ کاش ان کی تقریروں کے ریکارڈ محفوظ کیے جاسکتے۔
سوپور کالج میں پڑھائی کے دورا ن ہم ایک بار جنوبی کشمیر کے مقام پہلگام پکنک منانے گئے تھے۔ پہلگام قصبہ سے آرو پہاڑ پر چڑھائی کے دوران جنگل میں ایک کوٹھا نظر آیا، جہاں ایک گوجر فیملی چائے اور بسکٹ سرو کر رہی تھی۔ ہمارے رکنے کی وجہ تھی کہ وہاں ٹیپ ریکارڈ پر گیلانی صاحب کی تقریر لوگ سن رہے تھے۔ جب ہم نے تعارف کرکے بتایا کہ ہمارا گرو پ سوپور سے آیا ہے، تو انہوں نے چائے، بسکٹ کے پیسے لینے سے منع کردیا۔
انتہا پسند ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو غیر مسلم اقلیت کا مخالف بھی مشہور کیا جاتا ہے۔ 1972سے 1983تک سوپور میں ٹائن ایریا کمیٹی کا چیرمین ایک کشمیر ی پنڈت اوتار کشن گنجو تھا۔ جب نیشنل کانفرنس کے اراکین نے ایک بار ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، تو گیلانی صاحب کی ایماء پر جماعت اسلامی سے وابستہ وارڈ ممبران نے ان کو عہدہ پر برقرار رہنے میں مدد کی۔ ہاں وہ کشمیری پنڈتوں کو علیحدہ کالونیوں میں بسانے کے مخالف تھے۔ سنجے صراف کی معیت میں انہوں نے کولگام میں دیسو کے مقام پر کشمیری پنڈتوں کی بستی میں جاکر ان کو بتایا کہ ان کو پڑوسیوں کی طرف سے کسی خوف و ہراس کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اور ان کی جدوجہد فوجی قبضے کے خلاف ہے اور یہ کوئی فرقہ پرستانہ جدوجہد نہیں ہے۔
دہلی میں حریت کے دفتر کے قیام سے قبل وہ شہید مقبول بٹ کے وکیل رہے رمیش چندر پاٹھک کے گھر پر ہی ٹھہرتے تھے۔ ان کی اہلیہ نے ان کو اور شبیر احمد شاہ کو اپنا بھائی بنایا لیا تھااوروہ کسی بھی جیل میں ہوں ہندوؤں کے تہوار رکشا بندھن کے روز وہ ملنے چلی جاتی تھی۔1998میں پاٹھک کی اچانک موت نے ان کے خاندان کو بکھرا کر رکھ دیا تھا، کیونکہ ان کے تینوں بچے ابھی اسکول میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے اور شبیر احمد شاہ نے ہی ان کی فیملی کو سہارا دیا۔بیٹی وسندھرا پاٹھک اب ایک نامور وکیل ہے۔
اسی طرح دہلی میں میرے گھرسے ذرا دوری پر جس دو کمرے کے فلیٹ میں وہ سردیوں میں رہنے آتے تھے، اس کے اوپر ایک کشمیری پنڈت فیملی رہتی ہے، جن کے ساتھ ان کا گھر جیسا تعلق تھا۔ خاص طور پر ان کے بچوں کو ان سے بڑی انسیت تھی وہ بھی سرینگر سے ان کے لیے کوئی نہ کوئی چیز بھیجتے ریتے تھے۔ ان کا علاج بھی ایک کشمیر پنڈت ڈاکٹر سمیر کول کرتے تھے، جو اکثر ان کے پاس آتے تھے۔
سال2003میں رانچی جیل میں جب ان کے گردوں میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی تو اس اسپتال کے چارو ں طرف سیکیورٹی کا حصار بنایا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ ایک خطرناک دہشت گرد کو علاج کے لیے لایا جا رہا تھا۔ انہی دنوں میں ممبئی پریس کلب کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے کےلیےممبئی آیا ہوا تھا۔ ایک کرسچن نرس نے ان کو بتایا کہ آپ تو دہشت گرد نہیں لگتے ہیں۔ آپ تو بہت نیک شخص ہیں۔ میں آپ کی دوسری دنیا کے لیےفکرمند ہوں۔ آپ عیسائی کیوں نہیں بنتے ہیں اور اس کے بعد ڈھیر سارا لٹریچر ان کو دیتی رہی۔ مسکراتے ہوئے وہ وصول کرتے رہے، اور اس کو اسلام کی تعلیمات بھی سمجھاتے رہے۔
دہلی میں ان کے فلیٹ میں ایک صبح دیکھا سفید قمیص اور خاکی نیکروں میں ملبوس ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس سے وابستہ افراد ان کے ساتھ ہم کلام ہیں۔ میں خاصا ڈر گیا اور اپنی اہلیہ سے بھی کہا کہ تمہارے والد کی وجہ سے ہمارا اس کالونی میں رہنا دوبھر ہو جائےگا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مالویہ نگر کی پارک میں صبح سویرے آرایس ایس شاخ کی ڈرل ہوتی ہے۔ چونکہ تہجد اور فجر کی نماز کے بعد قران کی تلاوت کے بعد وہ ورزش اور پھر پارک میں چہل قدمی کرنے جاتے تھے، ان کی اس گروپ کے ساتھ علیک سلیک ہوئی ہے۔ وہ ان کے لیے مرکز جماعت اسلامی ہند سے ہندی زبان میں اسلامی لٹریچر لاتے ہیں اور یہ افراد وہی لینے آئے تھے۔
سال 1986میں وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ کو برطرف کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لیے کشمیر میں پہلا فرقہ وارانہ فساد برپا کروایا گیا۔ گیلانی صاحب نے جماعت کے کارکنوں کی قیادت کرتے ہوئے جنوبی کشمیر میں مختلف جگہوں پر ہجوم کو مندروں اور پنڈت علاقوں پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔ ان کے حکم پر سوپور میں ان کے دست راست غلام رسول مہرو اور عبدالمجید ڈار ایک دیوار کی طرح مندر اور پنڈت دکانوں کے باہر کھڑے ہوکر پتھراؤ کرنے والوں کو للکار رہے تھے۔ وہ اس سعی میں خود بھی زخمی ہوگئے۔ اس کا اعتراف اس وقت پولیس ایس ایس پی نے بھی کیا۔ وہ شاید کشمیر کے مزاحمتی اور ہندوستان نواز خیموں کے واحد لیڈر تھے جو واقعی اظہار آزادی رائے کے قائل تھے۔
سرینگر میں کام کرنے والا کوئی بھی صحافی یہ شکایت نہیں کرسکتا ہے کہ اس کو کبھی ہراساں کیا گیا ہو، چاہے وہ ان کے خلاف لکھتے ہوں۔ کیونکہ ہر کسی لیڈر نے جب بھی اس کے پاس کمانڈ تھی، کشمیر میں پریس کو ہراساں کیا ہے۔ ایک مزاحمتی لیڈر نے ایک بار ایک ایڈیٹر کو لال چوک میں جاڑوں کے دوران ننگے پیر دوڑایا۔ ایک اور لیڈر کے حامیوں نے ایک ہفتہ روزہ کے دفتر پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی۔یہ معمول کی کاروائیاں ہوتی تھیں۔ دراصل شیخ عبداللہ نے کشمیر میں جس سیاست کی بنیاد ڈالی تھی، و ہ غنڈہ گردی، دھونس اور کسی کو برداشت نہ کرنے کی سیاست تھی۔ سوپور کو انہوں نے بڑی حد تک اس سے پاک کردیاتھا۔
ہاں وہ ہفتہ روزہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین سے خفا تھے اور کہتے تھے کہ وہ قنوطیت پھیلا تے ہیں، اس لیے ایک مدت تک وہ ان کو انٹرویو نہیں دیتے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کے سرینگر کے نمائندے نے ان کے خلاف ایک بار انتہائی بہتان آمیز خبر شائع کی تھی۔ ان کے آفس کے ایک رفیق نے اخبار اور اس نمائندے کے خلاف عدالت میں توہین کا کیس درج کیا تھا۔ مگر وہ اس کے خلاف تھے اور ان کو بار بار کہہ رہے تھے، کہ اس کیس کی پیروی ختم کریں۔
ہر انسان مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ یقیناً گیلانی صاحب میں بھی کمزریا ں تھیں اور ان سے لغزشیں سرزد ہوئی ہوں گی۔ تحریک کی قیادت کرتے ہوئے وہ اپنے پیچھے متبادل قیادت چھوڑ نہیں سکے۔80ء کی دہائی میں سو پور میں انہوں نے غلام قادر وانی، عبدالوحید کرمانی، غلام محمد صفی،محمد اشرف صحرائی اور سرینگر میں شیخ تجمل اسلام اور کئی دیگر احباب کو گروم کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان میں سے اکثر جماعت اسلامی کے کڑے ڈسپلن کی تاب نہیں لاسکے۔صحرائی صاحب اپنے آخری دم تک ان کے ہم رکاب رہے، مگر کرشماتی شخصیت ان تک منتقل نہیں ہوسکی۔
گیلانی صاحب کے بار بار اسلام و قرآن اور اقبال کے تذکرہ سے بھی کئی لوگ نالاں رہتے تھے، مگر ہندوستان میں بائیں بازو کے افراد کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے اور وہ بھی ان کو خوب نبھاتے تھے۔ ممبئی میں ایک بار آندھرا پریش کے تعلق رکھنے والے ایک بائیں بازو کے لیڈر نے جن کا کشمیر آنا جانا لگا رہتا تھا اوران کو میری رشتہ داری کا علم نہیں تھا بتایاکہ گیلانی صاحب کشمیر کے گنے چنے مخلص اور سنجیدہ لیڈروں میں سے ہیں۔ وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ بطور کشمیری ان کی قدر کروں۔
1470ء میں سلطان زین العابدین کے سنہری دور اور پھر 1585ء میں کشمیر پر مغل تسلط اور آخری بادشاہ یوسف شاہ چک کی قید و جلا وطنی کے بعد کشمیر ی مسلسل کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں ہیں، جو ان کو صدیوں کے گردآب سے باہر نکالے اور قابض قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔
اس دوران کئی سرابوں کو انہوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ گیلانی صاحب میں کئی کوتاہیاں سہی، مگر وہ اس معیار پر پورے اترے۔کوئی بھی حاکم وقت ان کی گردن جھکا نہیں پایا۔ ان کے آخری سفر سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مخالفین کس قدر ان سے خائف تھے۔ 18سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد پچھلے 11سالوں سے وہ گھر میں نظر بند تھے۔ اس دوران میرے والد، ان کے بڑے داماد اور ان کے دو بھائیوں کے انتقال پر بھی ان کو سوپور نہیں جانے دیا گیا۔ حیدر پورہ کی مسجد کے پاس قبرستان میں انہوں نے دس سال قبل خود ہی دو قبروں کے لیے زمیں خریدی تھی۔ مگر پچھلے سال جب وہ انتہائی علیل تھے، تو عید گاہ سےمتصل مزارشہدا کے ذمہ داروں سے انہوں نے گزارش کی تھی کہ ان کے جسد خاکی کو وہاں دفن کرنے کی اجازت دی جائے۔ مگر حکام نے اس کی اجازت دینے سے منع کردیا۔
خیر حیدر پور ہ کے قبرستان میں سیکیورٹی بندوبست کے ہوتے ہوئے ان کواہل خانہ اور پڑوسیوں کی موجودگی میں ان کو باوقار طریقے سے دفن کیا جا سکتا تھا۔پورے کشمیر میں ویسے ہی کرفیو نافذ تھا۔ مگر طاقت کے زعم میں صبح تین بجے پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بول کر اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ مکان کی بجلی بند کرکے ان کی اہلیہ کو جوتوں تلے روند ڈالا گیا۔ ریڈنگ پارٹی اسٹریچر بھی اپنے ساتھ نہیں لائی تھی۔
پہلے ان کی نعش کو اٹھانے کی کوشش کی گئی، پھر گھسیٹے ہوئے اس کو باہر لے گئے۔ 10محرم الحرام کو میدان کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین کی لا ش کو بعد از مرگ اسی طرح گھسیٹ کر پامال کیا گیا۔ 23 محرم الحرام 1443 یعنی یکم ستمبر 2021 کا یہ واقعہ ہندوستان اور کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دھبہ کے حیثیت سے یاد کیا جائےگا۔
تاریخ اور وقت ایک پہیہ کی طرح گھومتے ہیں۔ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا ہے۔جس طرح ابھی حال ہی میں سومنات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ہزار سال بعد محمود غزنوی کو یاد کیا، اسی طرح کشمیر کی تاریخ اور اس کی نسلیں اس واقعہ کو یاد رکھیں گی۔ جس طرح دھرنوں کے دوران پولیس یا اسمبلی میں مارشل اباجی کو اٹھا کر اور گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالتے تھے، بالکل اسی طرح کا سلوک ان کی نعش کے ساتھ ان کے آخری سفر کے دوران کیا گیا۔
کسی نے کہا ہے–کہ تارے تو ہمیشہ ٹوٹتے ہیں، اب کے مہہ کامل ٹوٹ گیا۔