پولیس کی جانب سےیہ کارروائی سخت یو اے پی اے قانون کے تحت پچھلے سال درج ایک معاملے کو لےکر کی گئی ہے، جو کشمیر کے صحافیوں اور کارکنوں کو جان سے مارنے کی دھمکی سے متعلق ہے۔
واقعہ کے بعد کشمیر پریس کلب پر اکٹھا ہوئے لوگ۔
جموں وکشمیر پولیس کے ذریعےگزشتہ بدھ کو کشمیر کے چار صحافیوں، جس میں ایک سینئر مدیربھی شامل ہیں، کے گھر پر چھاپہ مارنے اور سری نگر کے ایک تھانے میں انہیں حراست میں رکھنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
پولیس کی جانب سےیہ کارروائی سخت یو اے پی اے قانون کے تحت پچھلے سال درج ایک معاملے کو لےکر کی گئی ہے۔
حکام نے بتایا کہ کشمیر نیریٹرمیگزین کے مدیر شوکت مٹا، ٹی آرٹی ورلڈ اور ہاف پوسٹ میں رپورٹ لکھنے والے ہلال میر،فری لانسر اظہر قادری اور سری نگر کے ایک اخبار کے لیے لکھنے والے عباس شاہ کے گھر پر چھاپے ماری کی گئی تھی۔
معاملے کو لےکر52سالہ شوکت نے کہا، ‘انہوں نے میری ہارڈ ڈسک ضبط کر لی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیسک ٹاپ، فون اور میگزین کی ہارڈ کاپی اٹھا لے گئے ہیں۔ بعد میں مجھے پولیس تھانے لے جایا گیا تھا اور شام میں چھوڑ دیا گیا۔’
پولیس نے کئی گھنٹوں تک چلی چھاپےماری کے دوران صحافیوں اور ان کے پارٹنر کے کئی دستاویز اور الکٹرانک آلات ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ صحافیوں کو کوٹھی باغ تھانے میں پورے دن حراست میں رکھا گیا تھا۔
نام نہ لکھنے کی شرط پر ایک دوسرے صحافی نے دی وائر کو بتایا،‘انہوں نے مجھے وارنٹ دکھایا لیکن وہ بہت شائستگی سے پیش آ رہے تھے۔ پولیس اسٹیشن میں ایک پولیس والے نے میری بیسک جانکاری نوٹ کی اور پھر انتظار کرنے کے لیے کہا۔ پورے دن مجھ سے کسی نے بات نہیں کی۔ مجھے میرے اوپر لگے الزامات کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔’
پولیس کے مطابق پچھلے سال سری نگر کے کوٹھی باغ پولیس اسٹیشن(ایف آئی آر نمبر 82/2020)میں یو اے پی اے کی دفعہ 13(کسی بھی غیرقانونی سرگرمی کے لیے اکسانا، صلاح دینا یا طرفداری کرنا)اور آئی پی سی کی دفعہ 506(مجرمانہ طور پر دھمکی) کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف درج ایک معاملے کےسلسلے میں صحافیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
یہ کیس کشمیرفائٹ ڈاٹ ورڈپریس ڈاٹ کام نام کے بلاگ کو چلانے والے ان نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا، جو ‘مرکزی حکومت کےحمایتی’ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کشمیری صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
ان کے پوسٹ میں سینئرصحافی شجاعت بخاری اور ہیومن رائٹس کے وکیل بابر قادری جیسے لوگوں کے بھی نام شامل کیے گئے تھے، جن کو بعد میں سال 2018 اور 2020 میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جانچ افسروں کا کہنا ہے کہ پاکستان حمایتی دہشت گرد گروپوں نے ان کو ہلاک کیا ہے۔
اس کو لےکر ایک پولیس ترجمان نے پچھلے سال کہا تھا کہ اس طرح کے پوسٹ سےملک کی یکجہتی اور سالمیت کو خطرہ ہے اورامن وامان اور ہم آہنگی پر اثر پڑتاہے۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے خیالات دہشت گردانہ نظریے کو پیش کرتے ہیں، جس کا مقصد کشمیر کو ہندوستان سے الگ کرنا ہے۔
ایک دوسرے پوسٹ میں سماجی کارکنوں ، سرکاری افسروں ،سیاستدانوں اور صحافیوں کو دھمکی دینے کے بعد اس سال مئی میں کوٹھی باغ پولیس اسٹیشن نے یو اے پی اے کی یکساں دفعات کے تحت ایک اور معاملہ (ایف آئی آرنمبر41/2021) درج کیا تھا۔
جموں کشمیر پولیس نے جولائی میں سری نگر میونسپل کے ایک اعلیٰ افسر محمد اکبر صوفی، ان کے بیٹےنازش رحمٰن، بیٹی تابش اکبر رحمٰن، صوفی کی بیٹی جاوید خالد کے شوہر اور سری نگر میں قانون کے ایک طالبعلم رفیق مخدومی کو گرفتار کرکے معاملے میں کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
حال ہی میں سری نگر سے شائع ہونے والے چار انگریزی اخباروں اور ایک اردو روزنامہ کے مالکان کے خلاف تازہ دھمکیاں جاری کی گئیں تھی، جس کے بعد پولیس نے ان صحافیوں کو حراست میں لیا تھا۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کے ذریعے پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے اکثراہتماموں کو رد کر کےجموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سے ہی مقامی میڈیا نے سرکار کے خلاف تنقیدی خبریں چھاپنا بند کر دیا ہے۔
انہیں اس بات کا خوف ہے کہ سرکار کی جانب سے انہیں ہراساں کیا جا سکتا ہے اور اشتہارات پرپابندی لگائی جا سکتی ہے۔
آر ایس ایف کے 2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان 180ممالک میں سے 142ویں نمبر پر ہے۔ آر ایس ایف دنیا کا سب سے بڑا این جی او ہے جو میڈیا کی آزادی کوتحفظ فراہم کرانے میں مہارت رکھتا ہے، جسے باخبر رہنے اور دوسروں کو باخبرکرنے کا ایک بنیادی انسانی حق مانا جاتا ہے۔
ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی ان 37ممالک کے سربراہوں یا حکومت کے قائدکی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں،جنہیں عالمی ادارہ رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس (آرایس ایف )نے پریس کی آزادی کو کنٹرول کرنے والوں (پریڈیٹرس)کےطورپر پہچانا ہے۔
مودی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ 26 مئی، 2014 کو وزیر اعظم بننے کے بعد سے ایک پریڈیٹر رہے ہیں اور اپنے طریقوں کو ‘نیشنلسٹ پاپولرازم اور پروپیگنڈہ’کی صور ت میں لسٹ کرتے ہیں۔
آرایس ایف نے کشمیر کے صحافیوں کو اس طرح حراست میں لینے کی واقعہ کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ‘صحافت جرم نہیں’ ہے۔
پچھلے دوسالوں سے اظہار رائے کی آزادی کے حق کے تحفظ کے لیےاقوام متحدہ کے خصوصی سفیر نے کشمیر میں ‘صحافیوں کو من مانے ڈھنگ سے حراست میں رکھنے اور انہیں ڈرانے’ کی رپورٹ پر حکومت ہند کو کم از کم تین مواقع پر لکھا ہے۔
گزشتہ 3 جون کو حکومت ہند کو بھیجے گئے اپنے تازہ ترین خط میں، جسے 25 اگست کو عوامی کیا گیا تھا، اقوام متحدہ کے سفیرنے کشمیر کے صحافیوں فہد شاہ، قاضی شبلی، سجاد گل اور عاقب جاوید کی مبینہ ہراسانی کو لےکر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)