جموں و کشمیر میں چار اگست کی شام سے پابندیاں نافذ ہیں۔ پریشان صحافیوں نے اب مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو کم سے کم میڈیا اداروں کے براڈبینڈ خدمات کو بحال کرنا چاہیے۔
نئی دہلی : کشمیر میں پچھلے 40 دنوں سے انٹرنیٹ اور موبائل خدمات نہیں ہونےکی وجہ سے وادی کے صحافیوں کو خاصی مشکلات کا سامناکرنا پڑ رہا ہے اور حکومت کی طرف سے بنایا گیا ایک عارضی میڈیا سینٹر ہی باقی دنیا کے ساتھ ان کے رابطہ کا محض ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں باٹنے کے فیصلے سے قبل چار اگست کی شام سے وادی میں پابندیاں نافذ ہیں۔
لینڈلائن فون خدمات کو اس مہینے کے شروع میں پھر سے بحال کیا گیا ہے لیکن موبائل خدمات اور انٹرنیٹ (کسی بھی پلیٹ فارم پر) اب بھی بند ہیں۔ پریشان صحافیوں نے اب مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو کم سے کم میڈیا اداروں کے براڈبینڈ خدمات کو بحال کردینا چاہیے۔ایک سینئر فوٹو جرنلسٹ عرفان احمد نے کہا، ‘ہمارا اپنے صدر دفتر سے کم از کم رابطہ ہے۔ ہم اکثر اسائن مینٹ یا کچھ دوسرے کاموں کی وجہ سے اپنے دفتروں سے باہر رہتے ہیں اور ایسے میں صدر دفتر میں بیٹھے افراد یا ہمارے گھروالوں کے لئے بھی موبائل فون خدمات کی غیرموجودگی میں ہم سے رابطہ کرنا بےحد مشکل ہوتا ہے۔ ‘
ایک روزنامہ کے لئے کام کرنے والے ایک دیگر مقامی صحافی مدثر نے کہا کہ مواصلات متاثر ہونے کی وجہ سے اطلاع جمع کرنے کا کام بھی مشکل ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا، ‘ ہمیں اکثر پتہ نہیں چلتا کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے اور دوسرے اضلاع سے بھی اطلاعات آنی مشکل ہو گئی ہیں۔ ہمیں واقعات کے بارے میں سرکاری بیان پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ دیگر اضلاع کے افسروں اور ذرائع تک پہنچنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ‘
پابندی لگائے جانے کے بعد شروعاتی کچھ دنوں میں صحافیوں کو ٹی وی چینلوں کی او بی وین کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے خبر بھیجنا ممکن نہیں تھا۔کئی صحافی اپنی خبروں کو پین ڈرائیو میں ڈالکر ہوائی اڈہ پر جاکر ہوائی جہاز کے مسافروں کے ذریعے اپنی خبر بھیجتے تھے۔ مسافر تب میڈیا ہاؤس کو فون کر کے رابطہ کر کے پین ڈرائیو دیتے تھے۔
تقریباً ایک ہفتہ کے بعد ریاستی حکومت نے ایک مقامی ہوٹل کےکانفرنس روم میں عارضی طور پر میڈیا سہولیات مرکز قائم کیا۔یہاں ریاست اور ریاست کے باہر کے سیکڑوں صحافیوں کے لئے چار کمپیوٹر اور محض ایک موبائل فون ہے جو ناکافی ثابت ہوتا تھا۔ صحافیوں کی شکایتوں کے بعد حالانکہ یہاں کچھ کمپیوٹر بڑھائے گئے ہیں اور نیٹ ورک کی اسپیڈ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)