صدر گوٹا بایا کے بھائی اور وزیر اعظم مہندا راجا پکشا نے کہا تھا کہ ہندوستان نے جموں و کشمیر میں جو اقدامات کیے ہیں، سر ی لنکا ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ جو حکومت خود اپنے ملک میں اقلیتوں کے حقوق غصب کرکے ایک ریاست کو تحلیل کرسکتی ہے وہ ایک پڑوسی ملک کو کس طرح اقلیتوں کو حقوق دینے کے لیے مجبور کرسکتی ہے۔
سری لنکا میں سنہالا بد ھ قوم پرست گوٹا بایا راج پکشا کی
صدارتی انتخابات میں کامیابی نے ہندوستان کو مخمصہ میں ڈال دیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے اس جزیرہ میں ہندو تامل نژاد اقلیت کے مسائل کے حل کے لیے، ہندوستان، شمالی علاقہ جافنا اور مشرقی علاقوں ام پارہ، بتی کلاوہ اور ٹرنکوملی کو ملاکر ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دینے اور اس کو ایک آئینی خودمختاری دینے کا خواہاں رہا ہے۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے، چونکہ اب ہندوستان نے خود ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے، اس کی آئینی خود مختاری ختم کردی، سری لنکا کو اختیارات کی منتقلی کا سبق پڑھانا، اب اس کے لئے مشکل ہو رہا ہے۔ سری لنکا کے حوالے سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز1987کے ہندوستان-سری لنکا ایکارڈ کر لاگو کروانا رہا ہے۔
اس معاہدہ کی رو سے، سری لنکا نے اپنے آئین میں 13ویں ترمیم کرکے، تامل اکثریتی شمالی و مشرقی صوبوں کو ضم کرکے ایک علیحدہ صوبہ بنانے اور اس کو خود مختاری اور اختیارات تفویض کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ مگر چونکہ ان علاقوں کے بیشتر حصہ پر کئی برس قبل تک انتہا پسند عسکری گروہ تامل ٹائیگرز یعنی ایل ٹی ٹی ای کا قبضہ تھا، اسی لیے 13ویں ترمیم پچھلے 32سالوں سے نفاذ کا انتظار کر رہی تھی۔تامل عسکری تنظیم سری لنکا کی سرحدی حدود کے اندر اٹانومی کے قائل نہیں تھے، بلکہ وہ ایک علیحدہ تامل مملکت چاہتے تھے۔ 13ویں ترمیم کے خد و خال تقریباً ایسے ہی ہیں، جیسے ہندوستانی آئین میں دفعہ 370اور دفعہ 35(اے)کے تحت جمو ں و کشمیر کو اختیارات تفویض کئے گئے تھے اور اس علاقہ کی آبادیاتی شناخت کو قائم رکھنے کی گارنٹی دی گئی تھی۔ رقبہ کے لحاظ سے یہ علاقہ سری لنکا کا 30فیصد بنتا ہے، جبکہ ہندو تامل آبادی اس جزیرہ میں 11.2فیصد ہے۔
سری لنکا میں مسلمان بھی تامل نژاد ہیں اور ان کی آبادی 9.7فیصد ہے۔ مگر تامل اور بدھ سنہالا قضیہ کے دوران مسلمانوں غیر جانبدار رہے۔ جس کی وجہ سے وہ کئی بار تامل ٹائیگرز کا نشانہ بنے۔ستم تو یہ ہے کہ تامل باغیوں کا صفایا ہونے کے بعد وہ اب اکثریتی سنہالا بدھ فرقہ کے نشانہ پر ہیں۔ 2015میں جب ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی جافنا کے دورہ پر گئے، تو انہوں نے سری لنکا اور سنہالا بد ھ اکثریت کو یاد دلا یا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ آئین کی 13ویں ترمیم کا مکمل نفاذ عمل میں لایا جائے۔ افہام و تفہیم پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے تاملوں کو مزید رعایتیں دینے کی بھی مانگ کی۔ نئے صدر گوٹا بایا کی تاجپوشی کے بعد اپنے پیغام میں انہوں نے دوبارہ سری لنکا کو 13ویں ترمیم یاد دلادی۔ یہ کچھ ایسا ہی ہوا، کہ اوروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت۔
انتخابی مہم کے دوران ہی صدر گوٹا بایا کے برادر اکبر، مہندا راجا پکشا، جو اب نئے وزیر اعظم بن گئے ہیں، نے کہا تھا کہ ہندوستان نے جموں و کشمیر میں جو اقدامات کئے ہیں، سر ی لنکا ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ جو حکومت خود اپنے ملک میں اقلیتوں کے حقوق غصب کرکے اور ایک ریاست کو تحلیل کرسکتی ہے، تو وہ ایک پڑوسی ملک کو کس طرح اقلیتوں کو حقوق دینے کے لیے مجبور کرسکتی ہے۔ سری لنکا کے مسائل کا براہ راست اثر ہندوستان کے جنوبی صوبہ تامل ناڈو کی سیاست پر پڑتا ہے۔ سری لنکا کی تامل اقلیت دراصل تامل ناڈو سے ہی ترک سکونت کرکے وہاں آباد ہوئی تھی۔
اقتصادی لحاظ سے تامل ناڈو ہندوستان کے ترقی یافتہ صوبوں میں شامل ہے اور سیاسی لحاظ سے بھی اس لئے اہم ہے کہ وہاں سے لوک سبھا کی 39 نشستیں ہیں، جو مرکز میں مخلوط حکومتوں کی وجہ سے خاصی اہم ہو جاتی ہیں۔ ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر جو ابھی کولمبو گئے تھے، نے نئے بد ھ قوم پرست صدر کو رام کرنے کے لیے بتایا کہ ہندوستان نے لداخ کو مسلم اکثریتی صوبہ کشمیر سے صرف اس وجہ سے الگ کیا، تاکہ وہاں بد ھ آبادی کو حقوق تفویض کئے جائیں اور ان کو سرینگر میں مسلمانوں کا دست نگر نہ ہونا پڑے۔ وہ یہ بھی مفروضہ عام کرتے ہیں کہ لداخ میں بدھ آبادی کی اکثریت ہے، جبکہ ہندوستان کی اپنی مردم شماری کے مطابق لداخ میں بد ھ آبادی محض 36فیصد ہے۔ اکثریت یہاں بھی مسلمانوں کی ہی ہے۔
تامل ناڈو کے ایک سیاستدان اور ہندوستانی پارلیامنٹ کے ممبر وی گوپال سوامی، جو وائیکو کے نام سے جانے جاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ جب مودی حکومت نے کشمیر کی اٹانومی چھین لی، تو انہوں نے اسی دن خبردار کیا تھا کہ اس کے اثرات خطے کی سیاست پر پڑیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی من مانی کا خمیازہ اب سری لنکا میں تاملو ں کو غیر ضروری طور پر بھگتنا پڑے گا۔ سری لنکا کے انتخابات میں تامل اور مسلم آبادی نے ساجتھ پریم داسا کا ساتھ دیا تھا، جو ان کے بقول نسبتاً لبرل تصور کئے جاتے ہیں۔ تامل صحافی اور مصنف شاستری راما چندرن کا کہنا ہے کہ گوٹا بایا نے سری لنکا میں بالکل اسی طرح کی انتخابی مہم چلا کر اکثریتی بدھ فرقہ کو لام بند کیا، جس طرح ہندوستان میں مودی نے ہندو اکثریت کو پاکستان اور مسلمانوں کا خیالی خوف دکھا کر اپنے حق میں ہموار کر دیا۔
راجا پکشا بھائیوں نے ہندوستان اور ہندو ؤں کا خوف دکھا کر ووٹ حاصل کئے۔ ہندوستان میں تامل ناڈو صوبہ کی آبادی 67.86ملین ہے، جبکہ سری لنکا کی آبادی 21.44ملین ہے۔ راجا پکشا کا کہنا ہے کہ اگر سری لنکا کے تامل علاقوں کو حق خود اختیاری ملتا ہے، تو وہ تامل ناڈو کے ساتھ مل کر بد ھ سنہالا آبادی کو اقلیت میں تبدیل کردیں گے۔ سابق ہندوستانی سفارت کار ایم کے بھدر کمار کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے ہندوستان اور سری لنکا کی سیاست میں کئی مماثلتیں ہیں۔ جس طرح ہندوستان میں ہندو نیشنلزم کا بھوت سر چڑھ کر بول رہا ہے، اسی طرح سری لنکا میں بدھ قوم پرستوں نے ملک کو اپنی لپٹ میں لیاہوا ہے۔ 2015کے انتخابات میں مہند راجا پکشا نے اپنی ہار کے لیے ہندوستان کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ انتخابات سے قبل سری لنکا نے کولمبو میں ہندوستانی خفیہ ادارے را کے اسٹیشن آفیسر کے النگو کو ملک چھوڑنے کا حکم بھی دیا تھا۔
ان انتخابات سے قبل تامل پارٹیوں نے 13مانگوں پر مشتمل ایک چارٹر سیاسی جماعتوں کو پیش کیا تھا۔ جس میں 13ویں ترمیم کا نفاذ، تامل آبادی کے لیے حق خود ارادیت، وفاقی ڈھانچہ کا قیام، جنگ کے دوران ہوئی زیادتیوں پر ایک بین الاقوامی کمیشن کا قیام، دہشت گردی سے متعلق سخت قوانین کی منسوخی، نیز شمال اور مشرق میں بدھ آبادی کی بستیاں بسانے کی کوششوں کو روکنا شامل تھا۔ گوٹا بایا نے ان مانگوں کو مسترد کردیا تھا۔ بھدر کمار کا کہنا ہے کہ آئندہ وقت تامل آبادی کے لیے نہایت سخت ہوگا اور ان کو اس کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ چونکہ مودی حکومت خود اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کچھ ایساہی رویہ اختیار کررہی ہے، اس لیےوہ شاید ہی ان کی کوئی مدد کر پائے گی۔
1971کی ہندوستان-پاکستان جنگ کے بعد ہی سری لنکا ہندوستانی خفیہ اداروں اور اس کی حکومت کے نشانہ پر آگیا تھا۔ کانگریس پارٹی کے اہم عہدیدار نے چند برس قبل راقم کو بتایا تھا کہ 1984ء میں اگر وزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقہ جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی۔ ان کے مطابق مسزگاندھی نے سری لنکا کو1971ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔ سر ی لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکہ جانے والے سویلین جہازوں کے لئے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑتے ہوئے تامل ناڈوکو مستقر بنا کر تامل انتہا پسندوں کوگوریلا جنگ کے لئے تیارکرنا شروع کردیا تھا۔
کانگریسی حکومتیں1971ء کے بعد خطے میں ہندوستان کو ایک بارعب پاورکے طور پر منوانے کی کوششوں میں مصروف تھیں مگر یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔اس لیے کسی بھی جنوبی ایشیائی ملک کے ساتھ ہندوستان کے رشتے سدھر نہیں سکے۔ 60 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بنگلہ دیش کے سوا کسی پڑوسی، حتیٰ کہ بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدوں کا حتمی تعین نہیں ہوسکا۔ اسی لیے شاید 1977ء میں جب جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تواس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اشتراک کی تجویز رکھی مگر اس حکومت کا جلد ہی خاتمہ ہوگیا۔ اس پالیسی کا اعادہ 1996ء میں اندر کمارگجرال نے کیا مگر وہ ایک کمزور حکمراں تھے۔ ایک سال بعد واجپائی ایٹمی دھماکہ کرکے کشیدگی کو نقطہ انتہا تک لے گئے، چند ماہ بعد ہی انہیں ادراک ہوگیا کہ ایٹم بم اپنی جگہ مگر اشتراک کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
اپنے چھ سالہ دورمیں پارلیامنٹ حملہ اور کارگل کے ہوتے ہوئے بھی وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں رہے اور دیگر پڑوسی ممالک کا خوف دور کر کے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہندوستان ایک غیر متوازن پاور نہیں بلکہ ان کی ترقی میں معاون بن سکتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کا بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ اشتراک اور جنوبی ریاست تامل ناڈو کا سری لنکا کے ساتھ اشتراک اسی دور کی پیداوار ہیں اور اسی پالیسی کو من موہن سنگھ نے اپنی کمزوریوں کے باوجود جاری رکھا۔ مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی اب اس گیم کو تبدیل کرکے دوبارہ سابق کانگریسی حکومتوں کی روش پر چل پڑے ہیں، یعنی پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے اور پاکستان کے اردگرد حصار قائم کیا جائے۔ حکمراں بی جے پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارکراور پاکستان پر تنقید کرکے وہ زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔