پاکستان نے امریکہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے 2013سے اس پائپ لائن پر کام بند کیا ہوا تھا۔
پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی۔ تصویر: X/@ForeignOfficePk
ابھی حال میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے پاکستان کے دورہ کے دوران بتایا گیا کہ کئی دہائیوں سے سرد خانے میں پڑی بین ملکی گیس پائپ لائن پر جلد ہی کام شروع کیا جائے گا۔ اصل منصوبہ کے مطابق، ایران کے اسالویہ سے شروع ہوکر اس پائپ لائن کو پاکستان کے شہرملتان میں افغانستان کے راستے آرہی ترکمنستان گیس پائپ لائن کا ایک جنکشن بنا کر، پھر آگے ہندوستانی پنجاب کے شہر فاضلکہ تک گیس سپلائی کرنی تھی۔
مگر 2009 میں امریکہ کے دباؤ اور ٹرانزٹ فیس کا بہانہ بنا کر ہندوستان اس سے دستبردار ہو گیا۔ امریکہ نے ہندوستان کو ایران سے گیس کی خریداری اور اس کو چاہ بہار کی بندر گاہ سے ایل پی جی کی صورت میں لوڈ کرنے کا استثنیٰ دیا ہوا ہے۔ اس کا یہ کارگو امریکی پابندیوں کی زد میں نہیں آتا ہے۔
پاکستان نے امریکہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے 2013سے اس پائپ لائن پر کام بند کیا ہوا تھا۔
ایران سے پائپ لائن کے ذریعے جنوبی ایشیا کو گیس لانے کا خاکہ گو کہ 1950 سے ہی موجود تھا، مگر اس کو عملی جامہ پہنانے کا کام ہندوستانی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے 1995 میں انجام دیا، اورانہی دنوں ایک ابتدائی معاہدے پر دستخط بھی ہوئے۔
مجھے یاد ہے کہ دی انرجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سربراہ راجندر پچوری آئے دن اس پر بریفنگ کا انعقاد کرکے اس کے خدو خال پر میڈیا کو آگاہ کرتے رہتے تھے۔ 2004 میں جب منی شنکر ائیر کو پٹرولیم منسٹر بنایا گیا تھا، تو انہوں نے اس پائپ لائن کو جلد از جلد مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس سلسلے میں زیرک سفارت کار تلمیذ احمد کو اپنی وزارت میں ایڈیشنل سکریٹری متعین کرکے ان کو اس کا انچارج بنادیا۔
مگرجب ہندوستان امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ پر دستخط کرنے کے سلسلے میں گفت و شنید شروع ہوگئی، تو اس کا پہلا خمیازہ ائیر کو ہی بھگتنا پڑا۔ ان کو اس وزارت سے فارغ کردیا گیا۔
نرسمہا راؤ کو اس پائپ لائن کی یاد کیوں اور کیسے آئی؟ اس کی ایک دلچسپ کہانی ہے اور اس کا کشمیر کے ساتھ ایک مضبوط کنکشن ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم یعنی او آئی سی مارچ 1994 کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن جس کو اب کونسل کہا جاتا ہے، میں پاکستان کی ایما پر ایک قرار داد لا رہی تھی، جس میں کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے ہندوستان کی مذمت کی جانے والی تھی۔
فلسطین کے برعکس ان دنوں کشمیر کے معاملے پر مغربی ممالک ایک نرم گوشہ رکھتے تھے۔ کیونکہ ہندوستان ابھی تک سویت یونین، جو اب ٹوٹ چکا تھا کی لابی کے زیر اثر ہی مانا جاتا تھا۔ قراد داد کی منظوری کی صورت میں اس کو سلامتی کونسل میں لے جانے کا منصوبہ تھا، جہاں امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے فراق میں تھے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کے مندوبین اس قرار داد کو حتمی شکل دینے کے لیےجنیوا میں مل رہے تھے۔
ہندوستانی وزیر خارجہ دنیش سنگھ ان دنوں خاصے علیل تھے اور نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل تھے۔ میٹنگ سے چند روز قبل وزیر اعظم راؤ رات گئے اپنے وزیر خارجہ کی خیرو عافیت دریافت کرنے اسپتال پہنچے۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اگلے 24 گھنٹے دنیش سنگھ کے بیڈ پر ان کے بجائے کوئی اور لیٹا ہوا تھا۔
راؤ بیڈ اور ڈاکٹر سمیت دنیش سنگھ کو اپنے ساتھ ہی لےکر گئے اور ان کو ہندوستانی فضائیہ کے ایک طیارہ میں سوار کراکے ان کوایرانی صدر کے نام ایک خفیہ پیغام دیا۔ ادھر اگلے روز اعلا ن کیا گیا کہ جنیوا جانے والے ہندوستانی وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کریں گے۔
اس وفد میں نائب وزیر خارجہ سلمان خورشید اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو بھی شامل کیا گیا۔یہ توجہ ہٹانے کے لیےایک اہم قدم تھا۔
مارچ 1994 کی صبح طہران ہوائی اڈہ پر جب ہندوستانی فضائیہ کا طیارہ اترا، تواسپتال کے بیڈ پر لیٹے دنیش سنگھ اس میں ڈاکٹر سمیت نمودار ہوگئے۔ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی جو اس وقت خود ہی ایرپورٹ پرآئے تھے، بھی حیران تھے کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ ہندوستانی وزیر خارجہ کو ایسی حالت میں طہران آنا پڑا۔
خیر سنگھ نے ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کووزیر اعظم راؤ کا خط پہنچا دیا اور پھر صدر کی ہی استدعا پر اسپیکر ناطق نوری سے ملاقات کرکے رات کو واپس اسپتال میں اپنے بستر پر آن پہنچے۔ راؤ کو معلوم ہو گیا تھا کہ اگر قرار دار جنیوا میں منظور ہو جاتی ہے اور پھر سلامتی کونسل میں پہنچ جاتی ہے، تو اس وقت روس اس کو ویٹو کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس ابھی تک اپنے زخم چاٹ رہا تھا اوربورس یلسٹن کی قیادت میں اپنی اقتصادیات کو پٹری پر لانے کے لیےمغربی ممالک کی ناز برداری کر نے میں لگا تھا۔ ادھر ہندوستان کی معاشی صورت حال بھی کچھ بہتر نہیں تھی، چند سال قبل ہی بینک آف انگلینڈ میں قومی خزانہ کا سونا گروی رکھا گیا تھا۔
وزیراعظم راؤ کے اس خفیہ خط کے مندرجات، جس نے ایران کو قرارداد سے ہاتھ کھنچنے پر مجبور کردیا،کے بار ے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہے۔ یہ ابھی بھی کسی بارسوخ تفتیشی صحافی یا کسی سفارت کار کی کتاب کا منتظر ہے۔ مگر اس کے بعد جو اقدامات اٹھائے گئے یا بیانات کا تجزیہ کرنے پر کچھ کچھ عندیہ ملتا ہے۔
ہندوستان کے ایک سابق سفارت کار بھدرا کمار کے مطابق راؤنے ناوابستگی کا حوالہ دے کر رفسنجانی سے درخواست کی تھی کہ مغربی ممالک کے استعمار سے وہ ہندوستان کو اس وقت بچائے۔
پاکستان کے بعد اگر کوئی ملک اس وقت کشمیر کے سلسلے میں عملی طور پرخاصا فعال تھا وہ ایران ہی تھا ۔کمار کے مطابق راؤ کو معلوم تھا کہ، اسلامی کانفرنس تنظیم میں ووٹنگ کے بجائے اتفاق رائے سے فیصلے ہوتے ہیں، یعنی اگر ایک ملک بھی تحفظات ظاہر کرتا ہے، تو قرار داد منظور نہیں ہوتی ہے۔ یعنی اقوام متحدہ کے کمیشن میں پہنچنے سے قبل ہی وہ قرار داد کو او آئی سی میں ہی ختم کرنا چاہتے تھے۔
اس پوری سعی سے ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر علی شیخ رضا عطار نے حریت لیڈران سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کے لیے اپنی رہائش گاہ پر عشائیہ رکھا تھا۔بعد میں دودن بعد وہ پھر گیلانی صاحب سے ملنے آگئے تھے اور یقین دہائی کروا رہے تھے کہ کشمیرکا تصفیہ ایرانی فارن پالیسی کا ایک جز ہے۔ چار دن بعد خبر آگئی کہ اسلامی کانفرنس تنظیم میں قرار داد کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں، ایران نے کسی ایسی قرار داد کی حمایت کرنے سے انکار کیا ہے، جس سے مغربی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچے۔
دہلی میں پاکستانی سفیر ریاض کھوکھر، حریت لیڈران سبھی گم سم تھے۔ ایرانی سفیر کو خود پتہ نہیں تھا کہ طہران میں کیا کھچڑی پک گئی ہے، مگر وہ بار بار یہ یقین دہائی کرارہے تھے کہ اس کے بدلے میں ہندوستان نے کشمیر اور خطے کے حوالے سے ایک بڑی پیشکش کی ہے، جس کو ٹھکرانا اچھا نہ ہوگا۔ اس سے زیادہ شاید ان کو بھی پتہ نہیں تھا۔
رات گئے جب گیلانی صاحب ان سے ان کی جور باغ رہائش گاہ پر ملنے پہنچ گئے تھے، تو راستہ گائیڈ کرنے کے لیے مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ عبدالغنی لون ایرانی سفیر کو بتا رہے تھے کہ وہ ہندوستان سیٹ اپ میں وزیر رہے ہیں، اس لیے ا ن کو ہندوستانی لیڈران کے کام و کاج کا بخوبی ادراک ہے۔ اگر کوئی وعدہ کیا بھی گیا ہے، بس پریشر ختم ہونے کے بعد وہ اس کا نام بھی نہیں لیں گے۔ وہ بھی ایسا وعدہ ہے، جس کو میڈیا کے سامنے عام نہیں کیا گیا ہو۔
اس کے فوراً بعد ہی ایران—پاکستان—انڈیا گیس پائپ لائن کی بساط بچھائی گئی اور اس کو امن کی پائپ لائن کا نام دیا گیا۔ چند ماہ بعد جب وزیر اعظم نرسمہا راؤ ناوابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے افریقی ملک برکانہ فاسو جا رہے تھے، تو انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حتمی حل کے لیےآزادی سے کم کسی بھی آپشن پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ ان کا انگریزی میں جملہ اسکائی از دی لمٹ فار کشمیر بہت مشہور ہوگیا۔ مگر بعد میں پائپ لائن نہ اسکائی از دی لمٹ فار کشمیر پر کوئی پیش رفت ہوسکی۔ عالمی دباؤ کے ہٹتے ہی ان دونوں کو دفن کر دیا گیا۔
جنیوا میں ایران کو منانے کا کریڈٹ ہمیشہ واجپائی اور فاروق عبداللہ لیتے رہے۔ نرسمہا راؤ نے جیتے جی یہ کریڈٹ ان سے چھیننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ مگر ان لیڈروں کے جنیوا روانگی سے دو روز قبل ہی راؤ کی ایما پر علیل دنیش سنگھ نے طہران میں پوری گیم بدل دی تھی، جو ایک ٹاپ سکرٹ آپریشن تھا اور پھر کئی دہائیوں کے بعد ہی دہلی کے سفارتی حلقوں میں اس کی باز گشت سنائی دی۔ دنیش سنگھ کا یہ آخری غیر ملکی دورہ تھا، اور کئی ماہ بعد وہ انتقال کرگئے۔