کشمیر ’خاموش اور اُداس‘ ہے: کنسرنڈ سٹیزنز گروپ کی رپورٹ میں انکشاف

12:19 PM Dec 31, 2025 | افتخار گیلانی

’ہمیں خاموش کر دیا گیا ہے، لیکن یہ خوفناک خاموشی اس بات کی دلیل نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ دبایا گیا غصہ اور مایوسی ایک ایسے آتش فشاں کی مانند ہے جو نفرت کی سرحد پر کھڑا ہے اور کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ اس کے لیے صرف ایک محرک درکار ہے۔’

کشمیر کی ایک علامتی تصویر۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

ہندوستان کے ایک سول سوسائٹی گروپ نے حال ہی میں کشمیر کا دورہ کرکے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ خطے میں حالات پریشان کن، غیر مستحکم اور خطرناک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

سیاسی، سول سروس اور فوج سے تعلق رکھنے والی شخصیات پر مشتمل اس گروپ نے 28 سے 31 اکتوبر 2025 کے درمیان کشمیر اور جموں کا تفصیلی دورہ کیا، درجنوں ملاقاتیں کیں۔

ان کا کہنا ہے کہ زمینی حقیقت ہندوستانی حکومت کے بیانیے سے بالکل مختلف ہے۔

کنسرنڈ سٹیزنز یعنی فکر مند شہریوں کے گروپ میں سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، سماجی کارکن سشوبابھا روے، ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) کپل کاک اور سینئر صحافی بھارت بھوشن شامل تھے۔

یہ گروپ دراصل 2016 میں وادی کشمیر میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کے بعد قائم کیا گیا تھا۔

اراکین نے واضح کیا کہ ان کا کسی سیاسی جماعت یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں، اور ان کے تمام دورے اور سرگرمیاں ذاتی وسائل سے انجام پاتی ہیں۔حال ہی میں کیا گیا ان کا کشمیر کا گیاہواں دورہ تھا، جس کے بعد انہوں نے نئی دہلی میں حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی۔

سول سوسائٹی اراکین کے مطابق، کشمیر بظاہر خاموش ہے، مگر یہ خاموشی اطمینان یا بہتری کی علامت نہیں بلکہ خوف، دباؤ، نگرانی اور دبے ہوئے غصے کا نتیجہ ہے۔

رپورٹ کے الفاظ میں کشمیر’خاموش اور اُداس’ہے، اختلافِ رائے خطرناک ہو چکا ہے، اور 2019 کے بعد سے بیگانگی اس حد تک بڑھ چکی ہے جو ماضی کے کسی بھی دور میں دیکھنے میں نہیں آتی ہے۔ رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ غصہ اب صرف وادی تک محدود نہیں رہا بلکہ جموں میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

دورے کے دوران گروپ  نے سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، تاجروں، صحافیوں، طلبہ، وکلا اور مذہبی شخصیات سے تفصیلی بات چیت کی۔

تقریباً تمام ملاقاتوں میں سب سے نمایاں اور مشترک احساس خوف کا تھا۔ سری نگر میں مقیم ایک سینئر ڈاکٹر نے گروپ کو بتایا کہ

‘ہمیں خاموش کر دیا گیا ہے، لیکن یہ خوفناک خاموشی اس بات کی دلیل نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ دبایا گیا غصہ اور مایوسی ایک ایسے آتش فشاں کی مانند ہے جو نفرت کی سرحد پر کھڑا ہے اور کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ اس کے لیے صرف ایک محرک درکار ہے۔’

اسی ڈاکٹر کے بیان کے فوراً بعد، اور دیگر کئی ملاقاتوں میں بھی، لوگوں نے گروپ کو بار بار یہ احساس دلایا کہ حالات کسی بڑے دھماکے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

متعدد افراد نے ایک ہی جملہ دہرایا کہ ‘کچھ بڑا ہونے والا ہے، کچھ بڑا ہونے والا ہے۔’ایک سینئر ایڈیٹر نے کہا کہ کشمیری معاشرے کی یہ خاموشی غیر فطری اور غیر مستحکم ہے، اور جب یہ ٹوٹے گی تو اس کے نتائج نہ صرف کشمیر بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہوں گے۔

سب سے چونکا دینے والا انکشاف حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق نے کیا۔ انہوں نے گروپ کو بتایا کہ اکثر اوقات ان کو تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکا جاتا ہے۔ جس روز ان کو اجازت ملتی ہے، اس سے ایک روز قبل ان کو خطبہ اور وعظ کے نکات حکام کے حوالے کرنے پڑتے ہیں۔ان کی اجازت کے بعد ہی ان کو خطاب کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

اس کے علاوہ نکاح کی مجالس میں جانے سے قبل ان کو دولہا اور دلہن کے خاندان کے کوائف حکام کو دینے پڑتے ہیں اور جانچ پڑتا ل کے بعد ہی ان کو نکاح کی مجالس میں جانے اور نکاح خوانی کی اجازت ملتی ہے۔ حال ہی میں میرواعظ فاروق نے اپنے ایکس اکاؤنٹ کے پروفائل پر حریت کانفرنس چیر مین کے عہدے کی شناخت کو ہٹا دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ا ن پر اس شناخت کو ہٹانے کے لیے دباؤ تھا۔ ان کا اکاؤنٹ معطل کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ گو کہ حریت کی بیشتراکائیوں پر پابندی لگائی گئی ہے، مگر خود حریت پر پابندی نہیں ہے۔ اس لیے اس کو ہٹانے کے لیے میرواعظ پر دباؤ ڈالنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔

ایک ریٹائرڈ پروفیسر نے اس سول سوسائٹی گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے  خدشے کا اظہار کیا کہ 2019 کے بعد سے کشمیری شناخت کے تحفظ کے لیے کوئی مؤثر بندوبست باقی نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی محرومی کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ یہ تاثر بھی مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ کشمیری ہونے کی کوئی ضمانت یا تحفظ باقی نہیں ہے۔

کئی افراد نے بتایا کہ انہیں ہندوستان کے دیگر حصوں میں گالیوں، نفرت انگیز رویوں اور دقیانوسی تصورات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سرینگر کی سول سوسائٹی کے ایک رکن نے  وفد کو بتایا کہ کشمیر میں منعقد ہونے والے ایک متنازعہ بالی ووڈ گلوکار کے ایونٹ کو’ثقافتی یلغار’قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقامی لوگ اسے کشمیری تہذیب اور وقار کی دانستہ توہین سمجھتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، مئی 2025 میں آپریشن سیندور اور اس کے بعد نومبر میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد انڈیا مخالف جذبات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر نوجوان شدید ذہنی اور سماجی بحران کا شکار ہیں۔

گروپ کا مشاہدہ ہے کہ نوجوان دو خطرناک راستوں کے درمیان پھنس چکے ہیں: ایک طرف منشیات کی لت، اور دوسری طرف شدت پسندی کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ہے۔

سیاسی سطح پر رپورٹ کا کہنا ہے کہ 2024 کے اسمبلی انتخابات کے باوجود جموں و کشمیر میں جمہوریت محض رسمی حیثیت رکھتی ہے۔

عمر عبداللہ کی قیادت میں منتخب حکومت کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے، مگر حقیقی اختیار بدستور لیفٹیننٹ گورنر کے پاس مرتکز ہے۔ عمر عبداللہ نے خود گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو ‘آدھا وزیر اعلیٰ’ محسوس کرتے ہیں۔

ان کے مطابق، وادی کی 47 میں سے 41 نشستوں کا واضح مینڈیٹ حاصل ہونے کے باوجود منتخب حکومت بے اختیار ہے جبکہ انتظامیہ پر لیفٹیننٹ گورنر کا کنٹرول برقرار ہے۔اہم فیصلے، جن میں سول سرونٹس اور پولیس افسران کی تعیناتیاں شامل ہیں، منتخب حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ اس طرزِ حکمرانی نے عوام میں شدید مایوسی کو جنم دیا ہے۔

شہریوں نے گروپ کو بتایا کہ بہت کم کشمیری افسران کو ضلعی سطح پر ذمہ داریاں دی جاتی ہیں، جبکہ باہر سے آنے والے افسران نہ مقامی زبان سمجھتے ہیں اور نہ زمینی حقیقت، جس سے عدم اعتماد مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

نیشنل کانفرنس کے اندرونی اختلافات، خاص طور پر عمر عبداللہ اور بڈگام سے پارٹی کے رکن پارلیامنٹ آغا روح اللہ کے درمیان  تنازعات، نے حکومت کو مزید کمزور کیا۔

حال ہی میں بڈگام کے ضمنی انتخاب میں نیشنل کانفرنس کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف محبوبہ مفتی کی سیاسی سرگرمیوں میں دوبارہ جان آتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی طرف سے کشمیری قیدیوں کو  مقامی جیلوں میں منتقلی کے مطالبے پر دائر عوامی مفاد کی درخواست اور احتجاجی سیاست نے ان کے لیے ہمدردی پیدا کی ہے۔

رپورٹ یاد دلاتی ہے کہ اکتوبر 2024 میں جموں و کشمیر اسمبلی نے ریاستی درجہ فوری بحال کرنے کی قرارداد منظور کی تھی، مگر ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ریاستی درجہ نہ ہونے کے باعث انسانی حقوق کمیشن، صارفین کے ازالے کے ادارے اور اپیلٹ فورمز مؤثر طور پر کام نہیں کر پا رہے، جس سے شہری ادارہ جاتی انصاف سے محروم ہیں۔

لوگوں نے گروپ کو بتایا کہ اگست 2019 کے بعد آرٹیکل 370 اور 35-اے کی منسوخی کے نقصانات آج بھی تازہ محسوس ہوتے ہیں۔

اس اقدام کو انہوں نے شناخت، عزت اور وقار کے نقصان سے تعبیر کیا۔ رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کو بھی مرکز کی جانب سے ریاستی درجہ بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، اور اُس وقت کے جسٹس سنجیو کھنہ نے ایک علیحدہ عدالتی نوٹ میں ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کرنے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ تاہم، پہلگام حملے اور مبینہ لال قلعہ سازش جیسے واقعات کو فیصلے میں مزید تاخیر کے جواز کے طور پر استعمال کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

اس گروپ کے مطابق، نئی ریزرویشن پالیسی کو طلبہ نے ایک ‘ٹائم بم’قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق،گو کہ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں ریزرویشن یعنی نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کیلئے نچلے طبقہ کے لیے نشستیں مخصوص رکھنے کا ایک پس منظرہے، کشمیر میں اس کو اکثریتی آبادی کو بے اختیار کرنے اور سسٹم سے باہر کرنے کے لیےاستعمال کیا جارہا ہے۔

اس ریزرویشن پالیسی کے تحت ریاست میں 69فیصد کشمیری بولنے والی مسلم آبادی کے لیے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 40فیصد سے کم نشستیں رہ گئی ہیں۔

میڈیا کے حوالے سے رپورٹ کہتی ہے کہ 2024 کے انتخابات کے باوجود صحافتی آزادی بحال نہیں ہوئی۔ سنسرشپ، دھمکی اور نگرانی بدستور جاری ہے۔

کئی ایسے صحافی جو بڑے قومی اداروں سے منسلک ہیں کی ایکریڈیشن منسوخ یا مسترد کی جا چکی ہے۔ آپریشن سیندور کے دوران مقامی صحافی آزادانہ رپورٹنگ سے قاصر رہے اور کئی کو پولیس نے طلب کیا۔

ایک صحافی نے کہا کہ سرکاری تقریبات کی کوریج کی اجازت نہ دینا’جان بوجھ کر ان کے کیریئر کو سبوتاژ کرنے’ کے مترادف ہے۔ پھر ایک نیا سرکاری ہدایت نامہ صحافیوں سے کہتا ہے کہ وہ چھ ماہ کی تنخواہ کی سلپس اور تفصیلی پس منظر کی معلومات جمع کرائیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ ’حقیقی صحافی‘ ہیں۔

انتظامیہ نقالی اور اسناد کے غلط استعمال کی شکایات کا حوالہ دیتی ہے، لیکن صحافی اسے دخل اندازی اور خوفزدہ کرنے والا قرار دیتے ہیں۔

رپورٹ میں اس خدشے کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر اکثر عسکری گروہوں کے ’اوور گراونڈ ورکرز‘ پر کریک ڈاون کی بات کرتے ہیں، جس سے رپورٹرز کو یہ خوف ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی ’دہشت گرد ماحولیاتی نظام‘ کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے صحافی عرفان میراج کی طویل حراست کا حوالہ دیا، جنھیں دہلی کی روہنی جیل میں سوسے زیادہ دنوں سے رکھا گیا ہے، اور سماعتیں بار بار ملتوی کی جاتی ہیں۔

اقتصادی محاذ پر صورت حال مزید تشویش ناک ہے۔ پہلگام حملے کے بعد سیاحت تقریباً مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ ہزاروں ہوٹل مالکان، ٹیکسی ڈرائیور اور دکاندار موسمِ سرما سے قبل اپنی بنیادی آمدنی سے محروم ہو گئے۔ سری نگر–جموں ہائی وے کی طویل بندش نے سیب کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا، اور صرف پلوامہ منڈی میں نقصانات20 بلین روپے سے تجاوز کر گئے۔

رپورٹ کے مطابق ہندو اکثریتی جموں میں بھی بیگانگی اور غصہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

آپریشن سیندور کے بعد گولہ باری کے واقعات جموں شہر کے قریب تک پہنچ گئے، جس کے باعث کئی خاندان عارضی طور پر ہماچل پردیش اور دہلی منتقل ہوئے۔

بعض علاقوں میں مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔جموں کے ایک دانشور نے گروپ کو بتایا کہ وہ بھی خود کو ایک کالونی کی طرح محسوس کرتے ہیں کیونکہ منصوبہ بندی میں جموں کا کوئی واضح مقام نظر نہیں آتا۔

چار دن کے سفر اور درجنوں ملاقاتوں کے بعد کنسرنڈ سٹیزنز گروپ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جموں و کشمیر کی صورتِ حال غیر مستحکم، پریشان کن اور منظم انداز میں غلط طور پر پیش کی جا رہی ہے۔

رپورٹ ایک واضح انتباہ کے ساتھ ختم ہوتی ہے کہ اگر سیاسی مکالمہ، ریاستی درجہ کی بحالی، انتظامی اصلاحات اور اقتصادی تحفظات پر فوری اور سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے، جموں و کشمیر پر چھائی خاموشی زیادہ دیر تک نہیں رہے گی۔