ریٹائر ہونے کے فوراً بعد فاروق خان کو شاید اندازہ تھا کہ کسی نہ کسی وقت وہ مکافات عمل کا شکار ہو جائےگا، تو ڈیفنس میکانز م کے طور پر اس نے بی جے پی جوائن کرکے دفعہ 370 کے خلاف عرضی دائر کی اور وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ سکھ برادری قومی اور عالمی اداروں کو جھنجھوڑ کر ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کا مطالبہ کرکے ملزمین کو سزا دلوانے میں رول ادا کرے۔
فوٹو بہ شکریہ: فری پریس کشمیر
جموں وکشمیر کی تاریخ نہ صرف خونی سانحوں سے بھری پڑی ہے، بلکہ باضابطہ ایک منصوبہ کے تحت ان میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہچاننے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا۔ بیشتر واقعات میں سرکاری مشنری نے ان کو بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسا ہی ایک دلدوز سانحہ 21اور22مارچ 2000کی رات کو جنوبی کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں پیش آیا۔
امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے چند گھنٹوں کے بعد ہی اس گاؤں میں خون کی ہولی کھیلی گئی، جس میں 35نہتے اور معصوم سکھ افراد ہلاک کئے گئے۔ اس کے چند روز بعد ہی جب کلنٹن ابھی ہندوستان میں ہی تھے، بتایا گیا کہ اس سانحہ میں لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین سے وابستہ بیرونی عسکری ملوث تھے، اور پتھری بل کی پہاڑیوں میں ان کو فوج اور پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ یعنی ایس او جی نے گھیر کر ہلاک کر دیا۔
جلد ہی معلوم ہوا کہ یہ پانچوں افراد مقامی کشمیر ی دیہاتی تھے اور ان کو گھروں سے گشتی پارٹی کو گائیڈ کرنے کے لیے اٹھا یا گیا تھا۔ ان میں ایک دکاندار تھا، جس کو دکان بند کرتے وقت جیپ میں بٹھایا گیا تھا۔ جب متعلقین اس ہلاکت پر احتجاج درج کراوانے کے لیے ضلع ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کررہے تھے، تو راستے میں براک پورہ میں ان پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کیا گیا۔
پورے کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔دوسری طرف کشمیر اور باہر پنجاب میں سکھ برادری کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایس آر پانڈین کی قیاد ت میں یک رکنی کمیشن تشکیل دیکر تحقیقات کا حکم دے دیا۔ ایک سال بعد جب کولکاتہ اور حیدرآباد کی فورنسک لیبارٹریوں نے بتایا کہ مہلوکین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ڈی این اے جو ٹیسٹ کیلئے بھیجے گئے تھے، نقلی تھے، اس پر ایک اورعدالتی کمیشن جسٹس جی اے کوچھے کی سربراہی میں مقرر کیا گیا۔
خیر دونوں عدالتی کمیشنوں نے دیگر سیکورٹی اداروں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں ایس او جی کے سربراہ فاروق احمد خان کو نامزد کرکے اس کے خلاف کارروائی کرنے کی سفار ش کی۔ ہاں جی ہا ں، وہی فارو ق خان، جن کو ریاست کو تحلیل کرنے اور خصوصی پوزیشن ختم کرنے سے چند روز قبل کشمیر میں گورنر ستیہ پال ملک کا مشیر مقرر کیا گیا۔ فاروق عبداللہ کی حکومت نے ان کو معطل کر دیا تھا۔ ان کے جانشین مفتی محمد سعید پر ہندوستان کی وزارت داخلہ نے ان کو بحال کرنے کے لیے خاصا دباؤڈالا، مگر وہ ڈٹے رہے۔ 2005میں جب کانگریسی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے قلمدان سنبھالا، تو انہوں نے فاروق خان کی بحالی کے احکامات صادر کر دئے۔
وہ 2013میں ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے اور فوراً ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوکر قومی سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ہندوستانی آئین کی دفعہ 370کی منسوخی سے متعلق پہلی رٹ پیٹیشن انہوں نے ہی کورٹ میں دائر کی تھی۔
جسٹس پانڈین کمیشن کی تقرری ہی چھٹی سنگھ پورہ اور اس کے بعد رونما واقعات کی تفتیش کے لیے کی گئی تھی۔ چارچ سنبھالنے کے بعد جب جج صاحب نے ان علاقوں کا دورہ مکمل کیا، توحیرت انگیز طور پر ان کو بتایا گیا کہ اپنی تحقیق و تفتیش صرف براک پورہ میں ہجوم پر ہوئی فائرنگ تک ہی محدود رکھیں۔ اکتوبر 2000میں وہ نئی دہلی کے کشمیر ہاؤس میں اپنی رپورٹ مکمل کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک دن میں ان سے ملنے پہنچا، تو ایک ہی کمرے میں ایک طرف ان کے اہل خانہ مقیم تھے اور دوسرے کونہ میں وہ اسٹینو اور سکریٹری کو رپورٹ ڈکٹیٹ کر رہے تھے۔
وہ ابھی بھی مصر تھے کہ چونکہ چھٹی سنگھ پورہ، پتھری بل اور براک پورہ کے واقعات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، اس لیے ان کو سکھوں کے قتل عام کی تفتیش کی بھی اجازت دی جائے۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید کوئی کڑی ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اکتوبر کے اواخر میں جب انہوں نے سرینگر میں وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو رپورٹ پیش کی، تو اس وقت بھی انہوں نے چھٹی سنگھ پورہ کے واقع کی تحقیق کی اجازت طلب کی۔
کابینہ کی میٹنگ میں پانڈین کمیشن آف انکوائری کی رپورٹ کو تسلیم کرنے کے بعد پریس کانفرنس میں فاروق عبداللہ نے ا علان کیا کہ جوڈیشل کمیشن سکھوں کے قتل عام کی بھی تحقیقات کرے گا اور کابینہ نے اس سفارش کو منظوری دی ہے۔ خیر رپورٹ پیش کرنے کے بعد جسٹس پانڈین واپس دہلی آکر نئے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے، کہ میں ان سے ملنے کشمیر ہاؤس پہنچا۔ دیکھا کہ جسٹس صاحب اور ان کی فیملی ریفوجیوں کی طرح ریسپشن کے پاس کھڑے ہیں۔
لابی میں ان کا سامان بکھرا پڑا ہے۔ ان کا سکریٹری کشمیر ہاؤس کے ذمہ داروں کو قائل کروانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کمیشن کو اگر توسیع نہیں ملتی ہے تو بھی یہ ابھی تحلیل نہیں ہوا ہے، اور کئی انتظامی امور کے مرحلے ابھی باقی ہیں۔آخر وہ کیسے سپریم کورٹ کے ایک سابق جسٹس جس کی خدمات ریاستی حکومت نے مستعار لی ہیں، کمرے سے اس طرح بے دخل کرسکتے ہیں۔ مگر افسران کا کہنا تھا کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ جسٹس صاحب سے کمرہ خالی کروانا ہے اور کسی وزیر کو اس میں قیام کرنا ہے۔
ٖفوٹو بہ شکریہ:dailyexcelsior
بعد میں قریب میں ہی تامل ناڈو ہاؤس نے جسٹس پانڈین اور ان کے اہل خانہ کو ٹھہرایا اور اس کے چند روز بعد وہ مدراس (چنئی) روانہ ہوگئے۔ روانہ ہونے سے قبل انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت میں اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ چھٹی سنگھ پورہ اور بعد میں جولائی2000 میں پہلگام میں ہندو یاتریوں کے قتل عام کی تحقیقات کرنے والی لیفٹنٹ جنرل جے آر مکرجی کمیٹی رپورٹ کے مندرجات اور ان کی سفارشوں پر کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
کور کماندڑ جنرل مکرجی کی رپورٹ نے پہلگام میں ہندو زائرین کی ہلاکتوں کے لیے نیم فوجی تنظیم سی آر پی ایف اور پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ حیران کن بات یہ تھی، کہ آخر حکومت ان سانحوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کیوں نہیں کرنا چاہتی تھی؟کس کو بچایا جا رہا تھا؟ ان تینوں واقعات کے تار کسی نہ کسی طور پر فاروق خان کی دہلیز پر آکر رکتے تھے۔
چھٹی سنگھ پورہ کے واقعہ کے اگلے دن ہی پولیس سربراہ اشوک بھان نے بتایا کہ فوج کی جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کے ایک سپاہی کے بھائی محمد یعقوب وگے کو حراست میں لیا گیا ہے۔ جس نے انکشاف کیا کہ حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کے ایک مشترکہ گروپ سے تعلق رکھنے والے 18بندوق برداروں نے رات کے اندھیرے میں گاؤں پر دھاوا بول کر 31سکھ مردوں کو قطار میں کھڑا کرکے قتل کردیا اور صرف نانک سنگھ کو زندہ چھوڑا۔ 25مارچ کو سرینگر میں آرمی اور پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ وگے کی نشاندہی پر چھٹی سنگھ پورہ کے مشرق میں 13کیلومیٹر دور پتھری بل کی پہاڑیوں میں آرمی اور پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جنگجوؤں کو گھیر کر مار دیا ہے۔
آپریشن کی کمانڈ برگیڈیر دیپک بجاج اور فاروق خان کر رہے تھے۔ پولیس نے ایک فوٹو گراف بھی جاری کیا، جس میں ان افراد کی شناخت ابو حنیف، ابو شہام اورحمان بھائی کے طور پر کی گئی تھی اور بتایا گیا کہ یہ سبھی پاکستانی شہری تھے۔ فوٹومیں مردہ اجسام مسخ شدہ حالت میں تھے۔ کشمیر ٹائمز ایڈیٹوریل میں ہم نے ان تصویروں کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 26مارچ 2000کو جب نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی چھٹی سنگھ پورہ پہنچے، تو میجر جنرل آر کے کوشل، بریگیڈیر بجاج اور فاروق خان ان کو بریفنگ دے رہے تھے۔
انہوں نے خاص طور پر ان افسران اور اس ٹیم کے متعلق پوچھا،جس نے چھٹی سنگھ پورہ کے قتل عام میں ملوث مبینہ دہشت گردوں کا پتہ لگا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچایا۔اڈوانی نے فاروق خان کو خاصی شاباشی دی۔ جب اڈوانی گاؤں میں ہی موجود تھے، تو دوسری طرف چھٹی سنگھ پورہ کے بالائی علاقوں کے گاؤں والے 17دیہاتیوں کے غائب ہونے کی رپورٹ درج کروا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کی ایک ٹکڑی نے ان کو بطور گائیڈ ساتھ لیا تھا۔ جوڈیشیل مجسٹریٹ نے ان کی عرضی پر تحقیقات کا حکم دیا۔ وہ بضد تھے کہ انکاؤنٹر میں مارے جانے والے افراد کی نعشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی شناخت کروائی جائے۔ کیونکہ ایک قبر کے پاس براری آنگن کے غائب مکین جمہ خان کاشناختی کارڈ گاؤں والوں کو ملا تھا۔ یہ گاؤ ں والے اجتماعی طور پر تین دن تک لگاتار ضلع ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کرکے ان نعشوں کی تحقیق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تیسرے دن راستے میں براک پورہ کے پاس پولیس کی ایس او جی کیمپ سے ان پر فائرنگ کی گئی، جس سے نو افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں غائب شدہ جمہ خان کا بیٹا بھی شامل تھا۔
ان ہلاکتوں پر برپا طوفان کو خامو ش کرنے کے لیے حکومت نے نعشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی شناخت کاعمل شروع کردیا۔ گو کہ انگلیوں وغیرہ کے نشانات نے ہی ثابت کردیا کہ یہ مقامی گمشدہ سویلین افراد ہیں، مگر ان کی شناخت کو یقینی بنانے کے لیے ان کے اعضا کے چند نمونے معہ ان کے قریبی رشتہ داروں کے خون کے کولکاتہ اور حیدر آباد کی فورنسک لیبارٹریوں کو بھیجے گئے۔
دو سال کے بعد مارچ 2002میں ٹائمز آف انڈیا نے انکشاف کیا کہ خون کے نمونوں کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ خون کے جو نمونے خواتین کے ہونے چاہیے تھے، وہ مردوں کے تھے اور اسی طرح کی اور بھی ہیرا پھیری کی گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اسمبلی کے ایوان میں معافی مانگ کر جسٹس کوچھے کی قیادت میں ایک اور عدالتی کمیش مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ جس نے ڈی این اے نمونوں کی ادلا بدلی کے لیے فاروق خان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
کمیشن نے وکیل منیر الدین شال کے حوالے سے لکھا کہ فاروق خان جوڈیشیل رپورٹ میں ڈی این اے سیمپل کے ذریعے شناخت درج کروانے پر مصر تھا۔ جب ڈی آئی جی راجہ اعجاز علی نے اس کو بتایا کہ انگلیوں کے نشانات سے شناخت کروانا زیادہ آسان ہے، تو خان کا کہنا تھا کہ لاشیں جل چکی ہیں، اس لیے ڈی این اے سے ہی ان کی شناخت ہو سکتی ہے۔ مگر وکیل کو اس نے بتایا کہ ڈی این اے کے ذریعے وہ معاملہ سنبھال لے گا۔
اس سے قبل اس نے وکیل کو بتایا تھا کہ یہ معاملہ ختم کروانے میں وہ اس کی مدد کرے۔ کمیشن نے شواہد اور تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فاروق خان نے پردے کے پیچھے ڈی این اے کے نمونوں کو تبدیل کرنے کی سازش رچی تھی اور ایسا کیوں کیا تھا، اس کے لیے مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔ خان، جمو ں و کشمیر پولیس کا کوئی معمولی افسر نہیں تھا، بلکہ اس نے اسپیشل آپریشن گروپ کو تشکیل دیا تھا۔
فوٹو بہ شکریہ ، یو فار یو وائس ڈاٹ کام
مئی 2005کو سی بی آئی نے آرمی کے سات افسران بشمول کرنل اجے سکسینہ، میجر ڈی پی سنگھ، میجر سریش شرما، کیپٹن امت سکسینہ پر فرد جرم دائر کی۔ ان کو قتل اور اغوا کا ملزم ٹھہرایا۔ آرمی نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ز ایکٹ کا حوالہ دیکر استثنیٰ حاصل کیا۔
سی بی آئی نے خان کو بری کرکے پورا ملبہ آرمی کے اوپر ڈالا۔ مگر عدالتی کمیشن خان کو ذمہ دار ٹھہرا چکی تھی۔ جس کے لیے خان نے کورٹ میں جاکر عدالتی کمیشن کے آرڈر پر اسٹے حاصل کر دیا۔
چھٹی سنگھ پورہ کے سکھ مکین، پتھری بل میں مارے گئے بے قصور افراد اور براک پورہ میں ہلاک کئے گئے ان کے لواحقین، آج تک انصاف کے منتظر ہیں۔ آخر انصاف ملے تو کیسے؟ جب پوری حکومتی مشنری ہی ملزمین کو بچانے اور پردہ پوشی میں ملوث ہو، اور تو اور جب ملزمین ہی خود اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں۔
ریٹائر ہونے کے فوراً بعد خان کو شاید اندازہ تھا کہ کسی نہ کسی وقت وہ مکافات عمل کا شکار ہو جائےگا، تو ڈیفنس میکانز م کے طور پر اس نے
بی جے پی جوائن کرکے دفعہ 370 کے خلاف عرضی دائر کرکے وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔
اب اس کے
گورنر کے مشیر کے عہدے پر براجمان ہوکر چھٹی سنگھ پورہ اور دیگر سانحات کی تحقیق و تفتیش کا باب ہمیشہ کے لیےبند ہوگیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سکھ برادری قومی اور عالمی اداروں کو جھنجھوڑ کر ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کا مطالبہ کرکے ملزمین کو سزا دلوانے میں رول ادا کرے۔