کاس گنج میں جن اقلیتوں نے ترنگا پھہرانے کے لئے سڑک پر کرسیاں بچھا رکھی تھیں، وہ اچانک وندے ماترم کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت کیوں کرنے لگیںگے؟
اتر پردیش کے کاس گنج میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد یہ سمجھنا زیادہ آسان ہو گیا ہے کہ 2011 میں اس وقت کی کانگریس صدر سونیا گاندھی کی صدارت والی قومی مشاورتی کونسل برائے انسداد فرقہ وارانہ او رزیر ہدف تشدد بل کا مسودہ لےکر آئی اور اس وقت کی ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت نے اس کو منظور کرانے کا عمل شروع کیا تو بی جے پی اور اس کی معاون تنظیموں نے اس کو ملک کے وفاقی ڈھانچے کو تہس نہس کرنے والا ‘ کالا قانون ‘ کیوں بتایا تھا؟
کیوں الزام لگایا تھا کہ وہ صرف اقلیتوں کو تحفظ عطا کرتا ہے اور منظور ہو گیا تو اقلیتوں کے ہاتھوں میں اکثریتوں کے خلاف ایسا ہتھیار آ جائےگا، جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ عداوت کی کھائی بےحد چوڑی ہو جائےگی۔ اتنی کہ اس کو پاٹنا مشکل ہو جائےگا۔کاس گنج میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد لگتا ہے کہ وہ ایسا اس لئے کہہ رہے تھے تاکہ ترنگا پھہرانے جا رہے اقلیتوں تک پر حملہ کرنے کی ان کی سہولیت برقرار رہے! وہ ترنگا پھہرانے جا رہے ہوں تو اس پر بھی پہلا حق اپنا نہیں، ان تنظیموں کا مانیں، اس کے تحت ان کے حکم پر عمل کریں اور نہ کریں تو بھگتیں۔
یقیناً، منموہن راج میں وہ بل قانون بن پایا ہوتا تو آج بی جے پی کی حمایتی طاقتوں کے ذریعے ترنگا یاترااور وندے ماترم کی مخالفت میں پتھراؤ اور پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے جیسے بہانوں سے پولیس فورسز کی موجودگی میں کاس گنج جیسے شہر کو خونریزی، آگ زنی اور بدامنی کے حوالے کرنا آسان نہیں ہوتا۔
تب یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے لئے بھی، جو ابتک اس بات کو لےکر اتراتی پھر رہی تھی کہ اس کے آتے ہی فسادات ہونے رک گئے ہیں۔ کاس گنج میں جو کچھ ہوا، گورنر رام نائک کے ذریعے کلنک بتائے جانے کے باوجود اس کو مقامی انتظامی افسروں کی چوک کہہکر اپنی ذمہ داری سے پلّا جھاڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
ویسے، جس کو وہ انتظامی چوک کہہ رہے ہیں اور جس کے لئے انہوں نے وہاں کے ایس پی کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے، اس تناظر میں بھی پورے ذمہ دار وہی ہیں، کیونکہ انتظامیہ کے ذریعے اپنائی جانے والی پالیسیوں ، کیے جانے والے فیصلوں اور اٹھائے جانے والے قدموں کا تعین حکومتیں ہی کیا کرتی ہیں۔سو، حکومت کہیں یا انتظامیہ یا دونوں باخبر ہوتے تو کاس گنج کے بےقصور کو وہ سب نہ جھیلنا پڑتا، جو ان کو بلاوجہ جھیلنا پڑا۔ ایک مشہور روزنامہ نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ کاس گنج میں فساد کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی۔
نہ عید اور دیوالی کے تہوار ساتھ پڑ رہے تھے، نہ محرّم کے تعزیوں اور درگا مجسموں کے جلوس آمنے سامنے تھے۔ لیکن اس سے کیا، جن کو فرقہ وارانہ عداوت پھیلانا اور فائدہ اٹھانا تھا، انہوں نے ترنگے کو ہی اس کا بہانہ بنا لیا۔ پھر تو ایک جوان کی جان لینے اور کئی گھروں، دکانوں اور گاڑیوں کو آگ کے حوالے کرکے بھی ان کو راحت نہیں آئی۔
فسادیوں کو ایک بےقصور کو سبق سکھانے کا کوئی اور بہانہ نہیں ملا تو انہوں نے اس کو اس کی داڑھی کے ہی بہانے اتنا پیٹا کہ بیچارے کی ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی۔فطری طورپر ہی ‘ حالت کو قابو میں لانے ‘ کے انتظامی اقدامات کے باوجود شہر کی ہوا میں وہ کسک اب بھی باقی ہے، جس کو اخباروں کی زبان میں کشیدگی کہا جاتا ہے۔ خونریزی اور آگ زنی جھیل چکے لوگوں کے دل و دماغ میں چھپی دہشت اور عدم تحفظ تو خیر جاتے جاتے ہی جائےگی۔
اس حوالہ سے، کاس گنج میں یہ سارا کھیل ٹھیک اس وقت شروع ہوا جب ملک کی حکومت اس کی راجدھانی میں راج پتھ پر ہو رہی عظیم الشان پریڈ میں دنیا کو اپنی جمہوریت کی آن بان شان دکھانے میں لگی ہوئی تھی۔کاس گنج میں بدّو نگر محلے کی اقلیت بھی، سامراجی قوتوں کے اس پروپیگنڈہکے برعکس وہ قومی جشن کے بارے میں جوش و جذبہ نہیں دکھاتے، یوم جمہوریہ کے جشن کے لئے تیاریوں میں مصروف تھے۔
اس روایت کے مطابق، جس کے تحت وہاں وہ یوم جمہوریہ اوریوم آزادی مل جل کر مناتے رہے ہیں۔ ہاں، انہوں نے سڑک تک کرسیاں بچھا رکھی تھیں اور ان کو اندیشہ نہیں تھا کہ وہی فساد کی وجہ بن جائیںگی۔ابھی وہ ترنگا پھہرانے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ وشو ہندو پریشد اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی ترنگا ریلی میں شامل لوگ وہاں پہنچے اور کرسیاں ہٹاکر ریلی کو نکل جانے دینے کا فرمان سنانے لگے۔
لوگوں نے ان سے جھنڈا پھہرانے تک انتظار کرنے کی التجا کی تو وہ ان کو منظور نہیں ہوا اور وہ من مانی پر اتر آئے۔ نعرےبازی کے بعد جھگڑا شروع ہوا تو بڑھتے بڑھتے مارپیٹ اور آگ زنی تک جا پہنچا اور ایک جوان کو قتل کر دیا گیا۔اس سلسلے میں آگے وہ سب بھی ہوا، کہنا چاہیے، جان بوجھ کر کیا گیا، جس سے یہ ‘ ثابت کرنا ‘ آسان ہو جائے کہ بات جھنڈاپھہرانے تک انتظار قکو منظور نہ ہونے کو لےکر نہیں، اس لئے بگڑی کہ دوسری طرف سے وندے ماترم کی مخالفت کی گئی، پتھر پھینکے گئے اور پاکستان کی حمایت میں نعرےبازی کی گئی۔
ایسا کیوں ثابت کیا گیا، اس کو سمجھنے کے لئے جاننا چاہیے کہ حال کے سالوں میں لگاتار کئے جاتے رہے اس ‘ دلیل ‘ کے ‘ اثرونفوذ ‘ کی کوششیں بلاوجہ نہیں ہیں کہ پاکستان کی حمایت اور وندے ماترم کی مخالفت وغیرہ کے نام پر اقلیتوں سے کبھی بھی ان کی حب الوطنی کا تصدیق نامہ مانگا جا سکتا ہے اور اس سے مطمئن نہ ہونے پر ان کو ایک طرفہ طور پر سزا سنائی جا سکتی ہے۔
فکر کی بات یہ کہ کاس گنج میں ان کوششوں کی کامیابی اتنی ہی نہیں ہے کہ فسادی توڑ-پھوڑ اور آگ زنی کرتے رہے اور پولیس ‘ سب کچھ ختم ہو جانے ‘ کے بعد حرکت میں آئی۔ تب، جب اس کی طرف سے ان کو دی گئی غیر اعلانیہ چھوٹ کو آگے بڑھانا ممکن نہیں رہ گیا۔اس سے پہلے یوم جمہوریہ کے موقع پر ‘ چاک و چوبند ‘ حفاظتی انتظام میں بھی اس کو یہ دیکھنے کی فرصت نہیں تھی کہ وہپ اور ودیارتھی پریشد بنا اجازت لئے ترنگا یاترا نکال رہے ہیں۔ اس یاترا کو لےکر تو اس کو اس سبب بھی محتاط رہنا چاہیے تھا کہ ان کے Paternal Organization کی ترنگے سے پرانی عداوت رہی ہے اور وہ اس کو منحوس تک بتاتا رہا ہے۔جھنڈاپھہرانے کے لئے ترنگا یاترا کو کچھ دیر تک روکنا بھی گوارا نہ کر ناان تنظیموں نے پھر یہی ثابت کیا ہے کہ ان کے ذریعے جھوٹ موٹ ترنگے کے وارث بنے پھرنے کے پیچھے ان کی سنگین بدنیتی ہے۔
پھر یوگی حکومت کی انتظامی چوک کشیدگی بڑھ جانے کے باوجود پولیس کے ذریعے ہاتھ پر ہاتھ تھامے فساد کا انتظار کرتے رہنے تک صرف اس لئے پہنچ پائی کہ اس حکومت نے شروع سےہی اپنے رویے سے اس بابت پولیس کو واضح پیغام دے رکھے ہیں۔تبھی تو پولیس اور انتظامیہ نے فسادیوں سے سختی سے پرہیز رکھا اور کرفیو لگانے میں بھی دیر کی۔ اتناہی نہیں، ایٹہ سے بی جے پی رکن پارلیامنٹراج ویر سنگھ کے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے والی تقریر کی بھی مجرمانہ اندیکھی کی۔
ان رکن پارلیامنٹ جناب نے یہ دھیان بھی نہیں رکھا کہ منتخب رکن پارلیامنٹکی شکل میں وہ کسی ایک کمیونٹی کے نمائندہ نہیں ہیں اور اپنے علاقے کی اقلیتی آبادی کے متعلق بھی ان کی کوئی ذمہ داری ہے۔بی جے پی کے دوسرے رکن پارلیامنٹگری راج سنگھ نے اپنے ٹوئٹ میں اس واردات کو لے کر بھرپور فرقہ وارانہ نشانے سادھے، تو ہندو مہاسبھا اور ہندو جاگرن منچ کے رہنماؤں نے بھی اس کو سنہرے موقع کی شکل میں دیکھا۔
کیا تعجب کہ ان سب کے درمیان یہ سوال لگاتار جواب کی مانگکر رہا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس معاملے میں بھگوا چولےسے باہر نکلکر اپنے عہدے کی آئینی ذمہ داری اور فرض کو کیسے نبھائیںگے؟دوسرے لفظوںمیں کہیں تو سوال یوں ہے کہ کیا وہ راج دھرم پر عمل کریںگے؟ اپنی جماعت کے لوگوں سے پوچھیںگے کہ کاس گنج میں جن اقلیتوں نے ترنگا پھہرانے کے لئے سڑک پر کرسیاں بچھا رکھی تھیں، وہ اچانک وندے ماترم کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت کیونکر کرنے لگے؟
اب تو اٹل بہاری واجپئی جیسا کوئی وزیر اعظم بھی نہیں ہے، جو ان کو راج دھرم کی یاد دلا سکے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)