کرناٹک میں مڈ ڈے میل اسکیم کے لگ بھگ 40 لاکھ بچوں میں سے تقریباً10فیصد کو اکشے پاتر فاؤنڈیشن نام کی تنظیم کھانامہیا کراتی ہے۔حال ہی میں اس تنظیم میں دھاندلی کے الزام لگے ہیں۔ ساتھ ہی یہ تنظیم انڈے جیسےمقوی غذا کو بھی اس اسکیم سے جوڑ نے کے خلاف رہی ہے۔
حکومت ہندکےمڈ ڈے میل اسکیم کے تحت سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو دن میں ایک وقت کا گرم کھانا ملتا ہے۔مرکزی حکومت گیہوں چاول کے ساتھ ہر بچہ پر 4.5-7 روپے روزانہ کی رقم خرچ کرتی ہے۔
کئی ریاستوں میں ریاستی سرکاراپنا پیسہ ڈال کر مقوی غذا(جیسے کہ انڈے، سویابڑی وغیرہ)دستیاب کرواتی ہیں۔ اس اسکیم میں کھانا پکانے اور ہیلپر کے طورپر25 لاکھ خواتین کو روزگار مل رہا ہے۔مڈ ڈے میل اسکیم ملک کے 10-12 کروڑ بچوں تک پہنچتی ہے، اور سب سے کامیاب اسکیموں میں سے ایک ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں اصلاح کی گنجائش نہیں۔ بیچ بیچ میں خبر آتی رہتی ہے کہ دودھ یا دال کو پانی میں گھول کر بچوں کو دیا جاتا ہے۔بدعنوانی کی بھی شکایتیں ہیں۔ایک دقت یہ ہے کہ کہیں کہیں ریاستی سرکار نے کھانا بنانے کی ذمہ داری نجی اداروں کو دے رکھی ہے۔
مثال کے طور پر کرناٹک میں لگ بھگ 40 لاکھ بچہ مڈ ڈے میل اسکیم میں شامل ہیں، جن میں سے 10 فیصدی سے کم کو سرکاری اسکول کی رسوئی سے تازہ کھانا نہیں، بلکہ اکشے پاتر فاؤنڈیشن(اےپی ایف)نام کی تنظیم سے ملتا ہے۔
اس تنظیم کو کئی لوگ جانتے ہیں، کیونکہ یہ اسکان مندر سے جڑی ہوئی ہے اور کئی لوگوں نے کبھی نہ کبھی ان مندروں میں کھانا کھایا ہے۔
مڈ ڈے میل اسکیم کے لیے اکشے پاتر کو سرکاری اسکولوں کی طرح اناج اور پیسہ، دونوں ملتا ہے۔ لیکن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اکشے پاتر ہی بچوں کو کھانا کھلاتی ہے۔
اس امیج کو قائم کرنے کا راز شایداشتہار پر اس کی جانب سے کیا جا رہا خرچ ہے۔ انٹرنیٹ پر ‘مڈ ڈے میل’ ڈھونڈیں گے تو کئی لنک اس تنظیم کے بارے میں ہیں، جس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ اشتہار پر کتنا خرچ کرتی ہے۔
ریاستی سرکار کو اکشے پاتر کی ضرورت نہیں۔ 90 فیصدی بچوں کو سرکاری اسکول کی رسوئی میں بنا کھانا مل رہا ہے۔ شاید اکشے پاتر کو مڈ ڈے میل اسکیم کی ضرورت ہے۔اس کام کے دم پر اسے بڑی تعداد میں نجی چندہ حاصل ہوتا ہے۔ سرکار سے ملی رقم میں شاید چندےکا پیسہ جوڑا جاتا ہے۔
کچھ سال پہلے کیگ کی رپورٹ میں اکشے پاتر پر کچھ سوال اٹھے تھے۔ اس وقت کسی نے خاص دھیان نہیں دیا اور کوئی کارر وائی نہیں ہوئی۔ کچھ دنوں سے یہ پھر خبروں میں ہے۔اس کی نجی آڈٹ میں کچھ ایسے سوال اٹھائے گئے ہیں جس کی وجہ سےتنظیم کے آزاد ٹرسٹی نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سوال گمبھیر ہیں۔
ایک الزام ہے کہ آدھے کچن میں پیسوں اور اناج کی دھاندلی ہوئی ہے۔ فی بچہ پر خرچ بہت زیادہ ہے سرکاری اسکولوں کے مقابلے یہاں دوگنی لاگت درج کی جا رہی تھی۔کچن کو اسکان مندروں کے لیے بھی استعمال کیا گیا، لیکن اناج اور پیسوں کا صحیح طور پر حساب نہیں رکھا گیا۔
الزامات سے نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جو سرکاری اناج اور پیسہ اکشے پاتر کو بچوں کے لیے دیا جا رہا تھا، اس کا استعمال اسکان مندروں کو چلانے میں بھی کیا گیا۔آزادانہ جانچ کروانے کے بجائے اسکان مندر کے ٹرسٹی، جو اکشے پاتر میں کام کر رہےہیں، اسے روک رہے تھے۔
اکشے پاتر جیسی تنظیموں کو سرکاری اسکیم میں شامل کرنے سے جوابدہی طے کرنے میں مشکل آتی ہے۔ جب کسی تنظیم کو سرکاری پیسہ مل رہا ہے تو اس پر کیگ اور آر ٹی آئی دونوں لاگو ہونا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ اکشے پاتر کرناٹک میں انڈے جیسے مقوی غذا کو مڈ ڈے میل اسکیم کے مینو میں جوڑ نے کے خلاف رہا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ان 10فیصد اسکولوں کے بچہ متاثر ہوتے ہیں، جہاں اکشے پاتر کے ذریعے کھانا دیا جاتا ہے، بلکہ ریاست کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے 40 لاکھ بچوں پر بھی اس کا اثر دکھتا ہے۔
کچھ مہینوں پہلے اپنے عقیدےکے مطابق انہوں نے کھانےمیں پیاز اور لہسن بھی نہیں دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔اگر پورا خرچ اکشے پاتر کی جانب سے ہی دیا جا رہا ہوتا، تب اس میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا، لیکن سرکاری پیسہ ہے تو اسے سرکاری مینو اور عوامی مفادکے مطابق چلنا چاہیے، نہ کہ اپنے عقیدےکے مطابق۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کرناٹک میں چاہے کسی بھی پارٹی کی سرکار رہی ہو، ان سے سوال نہیں پوچھے۔ ایسا کیوں؟ اکشے پاتر میں نجی ٹرسٹی امیر لوگ ہیں اور باقی اسکان مندر کے مذہبی گرو ہیں۔ کیا مذہب اور پیسے کے لیے ملک کے بچوں کی غذائیت سے کھلواڑ کرنا صحیح ہے؟
(رتیکا کھیڑا آئی آئی ایم احمدآباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔)