بنگلورو واقع کے ایس آر ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کےریسٹ روم میں طویل عرصے سےمسلمان کارکن نماز پڑھ رہے تھے۔ اب ہندو جن جاگرتی سمیتی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اس کو ‘سازش کا حصہ’ قرار دیا ہے۔
متنازعہ کمرے کے قریب پولیس اہلکار۔ (تمام تصویریں: رابعہ شیریں)
دائیں بازو کی تنظیم ہندو جن جاگرتی سمیتی (ایچ جے ایس) نے سوموار31 جنوری کو انڈین ریلوے کو ایک خط لکھ کر بنگلورو کے کرانتی ویر سنگولی رائینا (کے ایس آر) ریلوے اسٹیشن میں قلیوں کے لیے بنے ریسٹ روم کو نماز کے لیےاستعمال کرنے پر اعتراض کیا۔
خط میں کمیٹی نے اسے ‘قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے خطرہ’ قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ اگر یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے تو مستقبل میں اس جگہ (ریلوے اسٹیشن) کومسجد میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
اتوار کو ایک ٹوئٹر ہینڈل نے دعویٰ کیا تھاکہ اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر5 پر واقع قلی کے ریسٹ روم کو مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایچ جے ایس کے ارکان سوموار کواس وقت ریسٹ روم میں داخل ہوگئے، جب لوگ وہاں نماز ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے حکام سے مطالبہ کیاکہ انہیں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی جائے۔
اس واقعہ کے گھنٹوں بعدایچ جے ایس کے ترجمان موہن گوڑا نے اسٹیشن انتظامیہ کو خط لکھا اور کہا کہ ‘یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ مسلمانوں نے کارکنوں کے ریسٹ روم کوعبادت گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔’
خط میں لکھا گیا ہے کہ اسٹیشن احاطے کےقریب مسجد ہےاس کے باوجود پلیٹ فارم پر نماز پڑھنے کی اجازت دینا کوئی سازش لگتی ہے۔ اس جگہ کو مستقبل میں مسجد میں تبدیل کرنے کا مطالبہ اٹھ سکتا ہے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ استدعا ہے کہ اس سلسلے میں ان لوگوں پر فوراً کارروائی کی جائے،جنہوں نے اس کی اجازت دی تھی۔ ریسٹ روم میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، اگر اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔
اس تنازعہ نے ساؤتھ ویسٹرن ریلوے کے حکام کو حیرت میں ڈال دیا ہے، کیونکہ اسٹیشن میں پریئر ہال برسوں سے موجود ہے اور مسافروں کو بھی اس سے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ریلوے اسٹیشن میں دو مندر بھی ہیں۔ ایک پلیٹ فارم نمبر 7 پراور دوسرا لوکوموٹیو شیڈ کے پاس۔ اس کے علاوہ، ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جہاں عیسائی کمیونٹی عبادت کرتے ہیں۔
کرناٹک کے ریلوے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سری گوڑا نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا، یہ سرکاری ملکیت ہے،یہ میرے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے، ڈویژنل ریلوے منیجر (ڈی آر ایم ) اور ساؤتھ ویسٹرین ریلوے کریں گے۔
دریں اثنا دی وائر سے بات کرتے ہوئے موہن گوڑا نے کہا، ہمیں پتہ چلا ہے کہ قلی کے آرام کرنے کی جگہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے، ہم اسٹیشن منیجر کے پاس گئے اور ان سے نماز روکنے اور اس سلسلے میں دی گئی منظوری کو رد کرنے کی درخواست کی۔ یہ غیرقانونی اور ہےاورتجاوزات ہے۔
انہوں نےمزیدکہا کہ ،اسٹیشن انتظامیہ نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں ہے، وہ صرف تین ماہ پہلے ہی یہاں آئے ہیں، لیکن وہ جانچ کرکے کارروائی کریں گے۔
اسٹیشن پر مندر ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ یہ مندر ریلوے کی توسیع سے پہلے ہی موجود تھا۔ ریلوے اہلکار اور دیگر لوگ وہاں عبادت کرتے ہیں۔
پلیٹ فارم نمبر سات پر بنا مندر۔
مندر اور عیسائیوں کےپریئر ہال کےبھی ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔جبکہ ٹوئٹر صارفین نے تنظیم کے اس قدم کی مذمت کرتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے والا قدم بتایا ہے، جبکہ دوسروں لوگوں کا مشورہ ہے کہ تمام مذہبی مقامات کو ریلوے اسٹیشن سے باہر منتقل کیا جائے۔
جب دی وائر متنازعہ جگہ پر پہنچا تو پایاکہ جس ریسٹ روم میں نماز ادا کی گئی تھی اسے دوبارہ قلیوں کے ریسٹ روم میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور داخلہ دروازے پر ایک بڑا بورڈ لگا دیا گیا ہے، جس پر ‘ریلوے سہایک ریسٹ روم’ لکھا ہوا ہے۔ہال کے باہر پانچ پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
ریلوے کےسینئر ڈویژنل کمرشیل منیجرکرشنا ریڈی نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ہمیں نماز ہال کے بارے میں ابھی ابھی پتہ چلا ہے۔ یہ قلیوں کا ریسٹ روم تھا اور وہی رہے گا۔ ہم نے ان سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوبرقرار رکھنے اور مل جل کر رہنے کے لیے کہا ہے۔ وہ کمرے کو آرام کرنے، نہانے، یہاں تک کہ نمازادا کرنے، پوجا کرنے اور پریئر(عیسائیوں کی عبات)کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ان سب کو ایک ساتھ رہنے دیجیے۔
ریڈی نے کہا،اس مسئلے کو مختلف طبقوں کی طرف سےالگ الگ زاویے دیے گئے ہیں، یہ آرام کرنے کے لیے ریلوے کی ملکیت ہے۔عقیدہ ایک ذاتی معاملہ ہے، انہیں کسی کو پریشان کیے بغیر اندر عبادت کرنے دیجیے۔
جب ان سے مندر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، میں مندر کے بارے میں نہیں جانتا، میں یہاں 2019 میں آیا تھا۔
بعد میں جب ان سے ایچ جے ایس کے الزامات کےبارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئےقلی یونین کے ایک سابق رکن مصطفےٰ نے بتایا، پہلے یہاں ایک چھوٹا سا ریسٹ روم تھا، جہاں مسلمان نماز پڑھاکرتے تھے اور ہندو اور دوسرے لوگ آرام کیاکرتے تھے۔ چونکہ کمرہ چھوٹا تھا، اس لیے ہم نے حکام سے کہا کہ وہ ملحقہ خالی کمرہ فراہم کریں۔ انہوں نے ہمیں وہ کمرہ دیا اور ہم یہاں نماز پڑھنے لگے۔
انہوں نے مزید کہا، اب تک اس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ہمارے ہندو بھائیوں نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن وہ لوگ (ایچ جے ایس)اب اسے ایک بڑا معاملہ بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ریلوے حکام نے بھی ہمیں کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر ہمیں پریشان نہیں کریں گے۔ لیکن شاید دباؤ کی وجہ سے انہوں نے نماز سے متعلق تمام چیزیں وہاں سے نکال دی ہیں۔
مصطفےٰ نے مزید کہا، تقریباً 30-35 سال پہلے میرے والد اور ان کے دوستوں، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں نےشامل تھے ، نے وہ مندر ساتھ میں بنایا تھا۔
غور طلب ہے یہ تنازعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ریاست میں دائیں بازو کی تنظیموں کی طرف سے اقلیتوں کے خلاف جرائم کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔