یہ واقعہ اس ماہ کے شروع میں کولارضلع کے ملور تعلقہ کے ایک گاؤں میں پیش آیا تھا۔گاؤں میں نکالے جا رہےگرام دیوتا کے جلوس میں 15 سالہ لڑکے کے مورتی کو چھونے کے بعد اس کے اہل خانہ سے 60000 روپے کا جرمانہ ادا کرنے کو کہا گیا۔ایسا نہ کرنے پر ان کو گاؤں سے باہر نکالنے کی دھمکی دی گئی۔
(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: کرناٹک کے کولار ضلع میں ایک دلت خاندان پر 60000 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے، کیونکہ اس خاندان کے ایک 15 سالہ لڑکے نے جلوس کے دوران مبینہ طور پرگرام دیوتا یعنی بستی کے دیوتا کی مورتی سے جڑے ستون کو چھولیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس کے بعد گاؤں کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ ایک ‘اچھوت’ کےچھونے سے مورتی ‘ناپاک’ ہوگئی۔
آٹھ ستمبر کو بنگلورو سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر کولار ضلع کے ملور تعلقہ کے الرہلی میں گاؤں والوں نے بھوت یمما میلے کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں دلتوں کے شامل ہونے اور بستی کے دیوتا کے مندر میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ میلے کے ایک حصے کے طور پر گاؤں والوں نے بستی کے ایک اہم دیوتا سدیرانا کا جلوس نکالا۔
پندرہ سالہ نوجوان جلوس کے راستے میں موجود تھا اور اس نے مبینہ طور پر دیوتا کی مورتی سے جڑے ستون پر ہاتھ رکھ دیا۔ پھر گاؤں والوں میں سے ایک وینکٹیشپا نے اسے دیکھا اور دوسروں کو اس کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد لڑکے اور اس کے گھر والوں کو گاؤں کے بزرگوں کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔
اگلے دن 9 ستمبر کو جب لڑکا اپنی ماں شوبھما کے ساتھ گاؤں کے بزرگوں کے سامنے پیش ہوا تو ان سے 60000 روپے جرمانہ ادا کرنے کو کہا گیا۔ انہیں یہ رقم ایک اکتوبر تک ادا کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا اور کہا گیا تھا کہ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو انہیں گاؤں سے نکال دیا جائے گا۔
مقامی لوگوں کے مطابق، گاؤں میں تقریباً 75-80 خاندان ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ووکلیگا برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جسے کرناٹک میں ‘اعلیٰ ذات’ سمجھا جاتا ہے۔ شوبھما کا خاندان ان دس درج فہرست ذات کے خاندانوں میں سے ایک ہے جو گاؤں کے باہری حصے میں رہتے ہیں۔ ان کا بیٹا قریبی ٹیکل گاؤں میں دسویں جماعت کا طالبعلم ہے۔
شوبھما کا شوہر اکثر بیمار رہتا ہے اور وہ خاندان کا واحد کمانے والا ہے۔ وہ وہائٹ فیلڈ، بنگلور میں ہاؤس کیپنگ اسٹاف کے طور پر کام کر کے تقریباً 13000 روپے ماہانہ کماتی ہے۔
انہوں نے اخبار کو بتایا،میں روزانہ صبح 5:30 بجے بنگلور کے لیے ٹرین لیتی ہوں اور وہائٹ فیلڈ کے ایک اپارٹمنٹ میں ہاؤس کیپنگ اسٹاف کے طور پر کام کرتی ہوں، پھر شام 7:30 بجے تک واپس آتی ہوں۔ مجھے ماہانہ 13000 روپے ملتے ہیں اور اسی میں ہمیں گھر چلانا پڑتا ہے۔ 60000 روپے کا جرمانہ ہمارے لیے بہت بڑی بات ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے اہل خانہ پر عائد اس جرمانے کے بارے میں انہیں کیا بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ گاؤں کے بزرگوں کے مطابق، دلت لڑکے کے چھونے سے مورتی ‘ناپاک’ ہو گئی تھی اور انہیں اسے ‘پاک’ کرنے اور دوبارہ پینٹ کرنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا، اگر بھگوان کو ہمارا لمس پسند نہیں ہے یا لوگ ہمیں دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھرہماری پوجا کا کیا مطلب ہے؟ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح میں نے بھی پیسہ خرچ کیا ہے، بھگوان کے لیے چندہ دیا ہے۔آج سے میں ایسا کچھ نہیں کروں گی اور صرف ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی پوجا کروں گی۔
حالانکہ یہ واقعہ 8 ستمبر کو پیش آیا تھا اور جرمانہ 9 ستمبر کو عائد کیا گیا تھا، لیکن 10 دن بعد دلت تنظیموں کی مداخلت کی وجہ سے یہ واقعہ منظر عام پر آیا۔
امبیڈکر سیوا سمیتی کے ایک مقامی کارکن سندیش کو جیسے ہی اس واقعے کا علم ہوا، انہوں نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا،میں ان کے گھر گیا اور پولیس میں شکایت درج کرانے میں ان کی مدد کی۔ اگر آزادی کے 75 سال بعد بھی ایسی سماجی برائیاں جاری ہیں تو غریب لوگ کہاں جائیں گے؟
اس دوران کولار کے ڈپٹی کمشنر وینکٹ راجہ نے کہا کہ انہوں نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی ہے اور مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انہوں نے کہا، ہم نے انہیں گھر بنانے کے لیے پلاٹ دیا ہے اور کچھ روپے بھی دیے ہیں۔ ہم شوبھما کو سوشل ویلفیئر ہاسٹل میں نوکری بھی دیں گے۔ میں نے پولیس کو بھی کہا ہے کہ ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور وہ اس پر کارروائی کر رہے ہیں۔
پولیس نے اس واقعہ پر کئی گاؤں والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے اور سابق گرام پنچایت رکن نارائن سوامی گاؤں کے سربراہ کے شوہر وینکٹیشپا، پنچایت نائب صدر اور کچھ دوسرے لوگوں کے خلاف شہری حقوق کے تحفظ کے قانون کے تحت الزامات لگائے گئے ہیں۔
کرناٹک میں ذات پات سے متعلق اس طرح کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ سال، کوپل ضلع کے میا پور گاؤں کے ایک دلت خاندان پران کے دو سالہ بچے کے گاؤں کے ایک مندر میں داخل ہونے کی وجہ سے
25000 روپے کاجرمانہ لگایا گیا تھا۔
واضح ہو کہ اس طرح کے متواتر واقعات کے پیش نظر گزشتہ سال کرناٹک حکومت نے ریاست کی گرام پنچایتوں میں ذات پات کے امتیاز اور چھوا چھوت کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے ‘ونئے سمرسیہ یوجنا’ شروع کی ہے۔