دو بی جے پی ایم ایل اے انل بناکے اور اڈگر ایچ وشواناتھ نے کرناٹک کے کچھ حصوں میں مندروں کے میلے اور دیگر مذہبی تقریبات میں مسلم تاجروں پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا ہے ۔ وشوناتھ نے اسے ‘پاگل پن’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی بھگوان یا مذہب اس طرح کی چیزیں نہیں سکھاتا۔ وہیں بناکے نے کہا کہ ہر شخص اپنا کاروبار کر سکتا ہے، یہ فیصلہ لوگوں کاہے کہ وہ کہاں سے کیاخریداری کریں۔
بی جے پی ایم ایل اے انل بناکے اور اڈگر ایچ وشواناتھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/وکی میڈیا کامنس)
نئی دہلی: بی جے پی کے ممبران اسمبلی انل بناکے اور اڈگر ایچ وشواناتھ نے کرناٹک کے کچھ حصوں میں مسلم تاجروں کو مندروں کےسالانہ میلے اور دیگر مذہبی تقریبات میں پابندی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بناکے نے سوموار کو کہا کہ ہر شخص اپنا کاروبار کر سکتا ہے اور یہ لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کہاں سے کیاخریداری کریں۔
بیلگاوی نارتھ کے ایم ایل اے نے اس سلسلے میں آئین کا حوالہ دیا۔ بناکے نے کہا، مندر میں میلے کے دوران کسی قسم کی پابندی لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم پابندی لگانےکی اجازت نہیں دیں گے، لیکن اگر لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو یہ بتانا غلط ہے کہ وہ کون سی چیزکہاں سے خریدیں۔ ایم ایل اے نے کہا کہ آئین سب کو مساوی مواقع فراہم کرنے کی وکالت کرتا ہے۔
کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے 23 مارچ کو
اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ غیر ہندوؤں کو مندر کے احاطے کے اندر یا باہر تجارت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، وشوناتھ نے مسلم تاجروں پر لگائی گئی پابندی کو ‘پاگل پن’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘کوئی بھگوان یا مذہب اس طرح کی چیزیں نہیں سکھاتا ہے۔ مذاہب جامع ہوتے ہیں، کسی کو باہر رکھنے والے نہیں۔
مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے اس معاملے پر ریاستی حکومت کی خاموشی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قدم ‘غیر جمہوری’ ہے۔
او بی سی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کنڑ رائٹر وشوناتھ جنتا دل (ایس) کے سابق صدر اور تین بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ وہ 2019 میں بی جے پی کی یدیورپا حکومت کے ذریعے ایچ ڈی کمارسوامی کی سرکار گرانے کے دوران بی جے پی میں شامل ہوئے تھےاور انہیں ایم ایل سی نامزد کیا گیا تھا۔
اس معاملے پر انہوں نے مزید کہا، مسلم ممالک میں کتنے ہندوستانی کام کرتے ہیں؟ اگر وہ ممالک ان کے خلاف جانے لگیں تو یہ سب کچھ کہاں جاکر رکے گا … تقسیم کے وقت ہندوستان کے مسلمانوں نے ملک میں رہنے کا انتخاب کیا تھا۔ وہ جناح کے ساتھ نہیں گئے۔ ہمیں اس کے بارے میں سوچنا چاہیے، وہ ہندوستانی بنےرہنے کے لیےیہاں ٹھہرے تھے۔ وہ ہندوستانی ہیں، کسی اور ملک کے رہنے والے نہیں ہیں…
انہوں نے مزید کہا، میں سمجھ نہیں پاتا کہ مسلم تاجروں اور کاروبا کو کس بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بہت خراب صورتحال ہے۔ حکومت کوئی قدم اٹھائے ورنہ عوام کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آئے گا۔
میسور کے بارے میں وشوناتھ نے کہا کہ لوگوں کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کمائی کے ذرائع کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر روزی روٹی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تو پھر جمہوریت، مذہب، ذات پات کا کیا فائدہ… اسے اٹھا کر پھینک دیجیے۔جب کھانا خریدنے کے لیے کچھ نہیں ہے ، تو اس دنیا میں ہم کیا ڈھونڈ رہے ہیں!
شروع میں اس طرح کے بینر اُڈوپی ضلع میں سالانہ کوپ ماری گڑی فیسٹیول میں لگائے گئے تھے، جس میں کہا گیا تھا کہ غیر ہندو تاجروں اورریہڑی پٹری والوں کو اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس کے بعد مندر انتظامیہ نے کچھ ہندو نواز تنظیموں کی درخواست پر کان دھرا تھا۔
اس کے بعد پادوبدری مندر کی تقریب میں بھی اسی طرح کے بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔ اسی طرح جنوبی کنڑ ضلع کے کئی مندروں میں بھی ایسے بینر دیکھے گئے۔
حال ہی میں جب یہ معاملہ اسمبلی میں پہنچا تو بی جے پی حکومت نے اس معاملے سے خود کو دور کر لیا۔
ایوان میں کرناٹک کے وزیر قانون جے سی مدھوسوامی نے ریاستی اسمبلی میں ہندو مذہبی ادارے سے متعلق ایکٹ کی دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غیر ہندوؤں کو ہندو مندروں میں اور اس کے آس پاس کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
لیکن حکومت نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ضابطہ مندر کے باہر ریہڑی پٹری والوں پر لاگو نہیں ہوتا۔
اس دوران کانگریس لیڈروں نے اس ایشو کو اٹھایا اور حکومت سے کارروائی کرنے کو کہا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس طرح کے پوسٹر لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)