بک ریویو: رہنماؤں کی شان میں قصیدے پڑھنے کے اس دور میں آمنے سامنے بیٹھکر آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر سخت اور مشکل سوالوں کے لئے معروف کرن تھاپر کی کتاب’میری ان سنی کہانی‘ کو پڑھنا باعث تسکین ہے، کیونکہ عدم اتفاق اور سوال پوچھنا ہی جمہوریت کی طاقت ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرن تھاپر ہمارے زمانے کے ایسے ٹی وی صحافی ہیں، جو ملک اور بیرون ملک کے رہنماؤں سے اپنے خاص انداز میں لئے گئے تیکھے اور خطرناک انٹرویو کے لئے معروف ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ یہ انداز اب تقریباً نایاب ہے۔ اب نیا انداز یہ ہےکہ رہنما صحافی کو چھوڑ کر من پسند اداکار کو انٹرویو دیتے ہیں اور اگر صحافیوں کو انٹرویو دیتے بھی ہیں تو پہلے ہی سوال لےکر چھوٹے سے سوال کا طول طویل جواب دیتے ہیں۔اس لئے جب کرن تھاپر کی کتاب ‘میری ان سنی کہانی’ملی تو میں نے اس کو ایک ہی نشست میں مکمل کرلیا۔ دراصل کتاب ہے ہی اتنی دلچسپ۔ اس کتاب کا ایک حصہ کرن نے اپنی فیملی اور اپنی پرورش و پرداخت کو مخصوص کیا ہے مگر دوسرا حصہ ان کے رہنماؤں سے انٹرویو اور اس کے بعد بنتے بگڑتے رشتوں پر ہے۔
کرن تھاپر کی یہ کتاب ان کی لکھی’ ڈیولس ایڈووکیٹ ؛ دی ان ٹولڈ اسٹوری’ کا ترجمہ ہے۔کرن خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد فوج میں سینئر جنرل رہے ہیں اور تین بہنوں کے بعد جب کرن پیداہوئے تو ان کے والد کی عمر کافی ہو چکی تھی۔ کرن کی زندگی کا ایک حصہ ملک اور بیرون ملک کے بورڈنگ اسکولوں میں گزرا۔ان کی اسکولی تعلیم دون میں تو کالج کی تعلیم انگلینڈ کے کیمبرج یونیورسٹی میں ہوئی۔ اس کے پاس واقع آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستان کی وزیر اعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو پڑھتی تھیں جہاں ان کی دوستی ہوئی۔کرن نے بے نظیر کے کالج کے دنوں کے بولڈنیس کے بعد ایک رہنما کے طور پر ان کی پاکستان واپسی اور وہاں ان کی شادی کے بارے میں بہت سلیقے سے لکھا ہے۔
کرن نے صحافت کی شروعات لندن میں’دی ٹائمس ‘اخبار سے کی مگر کچھ سالوں بعد ہی وہ ٹیلی ویژن کی دنیا میں آ گئے، جہاں انہوں نے لمبے وقت تک یاد رہ جانے والے انٹرویو لینے کے طریقے سیکھے۔کرن کہتے ہیں کہ انٹرویو دینے والے کے چار ہی جواب ہوتے ہیں-‘ہاں ‘، ‘ نا ‘، ‘ نہیں جانتے ‘ اور ‘ کہہ نہیں سکتے ‘۔ان چار میں سے بعد کے دو امکانات کو ختم کرکے پہلے دو پر ہی انٹرویو دینے والے کو گھیر لیا جائے تو انٹرویو بہتر ہو جاتا ہے، جب انٹرویو دینے والا کشمکش میں ہوتا ہے کہ ‘ہاں ‘کہیں یا’نا’ کہیں۔اور یہ کشمکش جب کیمرے کی گرفت میں آتا ہے تو ناظرین بھی انٹرویو کا مزہ لیتے ہیں۔ اپنی اس کتاب میں کرن نے کئی بڑے رہنماؤں سے لئے گئے انٹرویو کے قصہ سنائے ہیں، جن میں اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن اڈوانی، راجیو گاندھی، براک اوبامہ، پرویز مشرف، وی پی سنگھ، نرسمہا راؤ وغیرہ شامل ہیں۔
مگر ان کے کچھ انٹرویو میل کے پتھر ثابت ہوئے اور آج بھی یوٹیوب پر سب سے زیادہ دیکھے جانے والے انٹرویو کا درجہ رکھتے ہیں۔تمل ناڈو کی سابق وزیراعلیٰ جے جئے للیتا کے چنئی میں ان کے گھر پر لیا گیا وہ انٹرویو جس میں پورے وقت کرن اور جئے للیتا کے درمیان تصادم ہوتا رہا، جئے للیتا کی آنکھوں سے انگارے نکلتے رہے اور آخر میں کرن کے یہ کہنے پر کہ آپ سے ملکر خوشی ہوئی، تب جئے للیتا نے یہ کہہکر چونکا دیا تھا کہ ان کو خوشی نہیں ہوئی۔جئے للیتا تمتماتے ہوئے چلی تو گئیں اور بعد میں یہ کہلوایا کہ وہ پھر سے یہ انٹرویو کرنا چاہتی ہیں مگر کرن نے منع کر دیا۔ جئے للیتا کا جب انتقال ہوا اس کے بعد کرن کا یہ انٹرویو خوب دیکھا گیا۔کچھ ایسا ہی انٹرویو گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کا رہا، جس میں وہ تین منٹ بعد ہی انٹرویو سے اٹھکر چلے گئے۔ یہ کہتے ہوئے کہ اب بس کرو اپنی دوستی بنی رہے۔
گجرات کے گاندھی نگر میں ہوئے اس انٹرویو کی شروعات ہی کرن نے گجرات کے فسادات سے کی جس سے
مودی پریشان ہو گئے اور کچھ سوالوں کے جواب دینے کے بعد انہوں نے بریک لیا پانی پیا اور اٹھکر چلے گئے۔کرن کے مطابق یہ انٹرویو ان کو سالوں بعد بہت مہنگا تب پڑا جب نریندر مودی وزیر اعظم بنکر دہلی آئے۔ اس کے بعد سے کرن کو کسی بھی بی جے پی رہنما اور ترجمان نے انٹرویو نہیں دیا۔کرن نے اس کے لئے امت شاہ، نرپیندر مشرا اور اجیت ڈوبھال سے بھی بات کی مگر بات نہیں بنی۔ مودی اس انٹرویو کو کبھی نہیں بھولے۔لال کرشن اڈوانی سے بھی کرن کی قربت تھی جو بعد میں ایک انٹرویو کی وجہ سے ہی ٹوٹ گئی۔ اڈوانی اس انٹرویو کو پھر سے کرنے کی ضد کر رہے تھے، اس کو کرن نے یہ سوچکر چلا دیا کہ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جو اڈوانی کے خلاف جائے مگر اڈوانی نے اس بات کو دل پر لے لیا۔
‘ میری ان سنی کہانی’میں ایک اور دلچسپ قصہ لال کرشن اڈوانی اور ہندوستان میں پاکستان کے ہائی کمشنر اشرف جہانگیر قاضی کے درمیان ملاقاتوں کا ہے۔ یہ ملاقاتیں کیسے کرن نے چھپکر کروائیں اور جس کا خاتمہ آگرہ سمٹ کی صورت میں ہوا۔ایک صحافی کیسے کبھی دو بڑے لوگوں کے درمیان دوستی کرواتا ہے اور جس کی وجہ سے کیسے بڑےبڑے فیصلے ہو جاتے ہیں، یہ بھی کرن نے بہت اچھے اور سلسلہ وار طریقے سے بتایا ہے۔کرن نے لکھا ہے کہ جب ہائی کمشنر اشرف جہانگیر قاضی کو مدت کار مکمل ہونے پر پاکستان واپس جانا پڑا تو اڈوانی نے ان کو گھر پر ڈنر کے لئے بلایا اور بیوی پرتیبھا اڈوانی کے کہنے پر گلے لگکر اشکبار آنکھوں سے رخصت کیا۔ملک کی رائٹ ونگ پارٹی کا وزیر داخلہ پاکستان کے کسی سفارت کار کو اس طرح رخصت کرے ،اپنے آپ میں یہ حیران کرنے والا واقعہ ہے۔
انٹرویو کی ان کہانیوں کے دوران ایک صحافی کی ان الجھنوں کو کرن نے بتایا ہے کہ کیسے جب کوئی با اثر رہنما انٹرویو کے سوال پہلے مانگتا ہے یا انٹرویو کا کچھ حصہ ہٹانے کو یا پھر پورا انٹرویو دوبارہ کرنے کو کہتا ہے، تب صحافت کی شہرت اور صحافی کی خود اعتمادی کو بچانا کتنا مشکل بھراہوتا ہے۔امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ جب ایک پروگرام میں شامل ہونے کے لئے ہندوستان آئے تھے تو ان کا انٹرویو لینے کی ذمہ داری کرن کو ہی ملی۔تب اوبامہ کے دفتر نے پہلے ہی سارے سوال پوچھکر جو سوال ناپسند تھے وہ بھی بتا دئے تھے۔ مگر جب کرن نے وہ سوال شرارتاً پوچھے تو اوباما نے لمبےلمبے پیچدار جواب دےکر سوالوں کا کیسا برا حشر کیا، یہ بھی کرن نے دلچسپ انداز میں سمجھایا ہے۔کبھی کبھی انٹرویو دینے والے شخص کو ایسا لگتا ہے کہ وہ انٹرویو دےکر احسان کر رہا ہے تب وہ امید کرتا ہے کہ صحافی سوال پہلے بتائے اور کوئی بھی سخت اور ناپسند سوال نہ پوچھے، مگر بنا سخت سوالوں کے کوئی انٹرویو یادگار نہیں بنتا۔
یہ کتاب کئی پر لطف قصوں سے بھری ہے خواہ وہ سچن تیندولکر اور روتے ہوئے کپل دیو کا انٹرویو ہو یا پھر امیتابھ بچن کے گھر پر لیا گیا انٹرویو، جس میں انٹرویو کے سوالوں سے پریشان امیتابھ نے بعد میں اپنا غصہ جیا بچن پر نکالا تھا۔انٹرویو کرنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، کتنی تیاری کرنی پڑتی ہے اور کیا حکمت عملی بنانی پڑتی ہے، یہ سب باتیں کرن کی زیر تبصرہ کتاب کو پڑھکر سمجھ آتی ہے۔صحافی کے پاس سوال پوچھنے کی قوت ہوتی ہے، مگر سخت سوال سننے کی عادت اور ان کے جواب دینے کی صلاحیت رہنماؤں میں کم ہی ہوتی ہے۔رہنماؤں کی شان میں قصیدہ پڑھنے کے اس دور میں آمنے سامنے بیٹھکر آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر سخت اور مشکل سوالوں کے لئے معروف کرن تھاپر کی کتاب ‘میری ان سنی کہانی’ کو پڑھنا باعث تسکین ہے، کیونکہ عدم اتفاق اور سوال پوچھنا ہی جمہوریت کی طاقت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)