کانگریس تبدیلیوں کو لے کر سنجیدہ نہیں، شاید پارٹی نے ہر ہار کو مقدر مان لیا ہے: کپل سبل

05:11 PM Nov 17, 2020 | دی وائر اسٹاف

سینئر کانگریسی رہنما کپل سبل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ اب لوگ کانگریس کو ایک مؤثر متبادل نہیں مان رہے ہیں۔ سبل کانگریس کے ان 23رہنماؤں میں سے ایک ہیں ،جنہوں نے صدرسونیا گاندھی کوخط لکھ کر پارٹی میں تبدیلی  لانے، جوابدہی طے کرنے اور ہار کا صحیح تجزیہ  کرنے کامطالبہ کیا تھا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  کانگریس پارٹی کےسینئررہنما کپل سبل نے بہاراسمبلی انتخاب  میں پارٹی کے خراب مظاہرہ  کے مدنظر کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ اب لوگ کانگریس کو ایک مؤثرمتبادل  نہیں مان رہے ہیں۔انڈین ایکسپریس کو دیے ایک انٹرویو میں سبل نے کہا کہ کانگریس پارٹی کی قیادت پارٹی کے مسائل کا حل نہیں کر پا رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘کانگریس کو اس کودرپیش پریشانیاں پتہ ہیں اور وہ اس کا حل بھی جانتی ہے لیکن وہ ان کو اپنانے سے کترا رہی ہیں۔’کانگریس کو اپنی پریشانیاں اور اس کے حل کے بارے میں پتہ ہے پر وہ انہیں حل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ہم میں سے کچھ لوگوں نے آواز اٹھائی ہے کہ کانگریس کو صحیح راہ پر آگے لے جانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ ہماری سننے کے بجائے انہوں نے (قیادت)ہماری بات ان سنی کر دی۔ اس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ صرف بہار میں ہی نہیں بلکہ ملک کے لوگ، جہاں کہیں بھی ضمنی انتخاب ہوئے ہیں، وہاں لوگوں نے کانگریس کو ایک مؤثر متبادل نہیں مانا۔’

سبل نے کہا کہ خوداحتسابی  کاوقت اب ختم ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘کانگریس ورکنگ کمیٹی(سی ڈبلیوسی)کا حصہ رہے میرے ایک معاون  نے کانگریس کے اندر خوداحتسابی اور غور وفکر کی بات کی  تھی۔ اگر چھ سالوں میں کانگریس نے خوداحتسابی نہیں کی تو اب اس کی امید کیسے کریں؟ ہمیں کانگریس کی کمزوریاں پتہ ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ تنظیمی  طور پر کیا پریشانی ہے؟ ہمارے پاس اس کا حل بھی ہے۔ کانگریس پارٹی بھی اس کا حل جانتی ہے لیکن وہ ان کو اپنانے سے کتراتےہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے رہیں گے تو گراف یوں ہی گرتا رہےگا۔ کانگریس کو بہادر بن کر انہیں پہچاننا ہوگا۔’

سبل سے جب یہ پوچھا گیا کہ جب کانگریس کو مسائل کاحل پتہ ہے تو پارٹی کی اعلیٰ قیادت اسے اپنانے سے کیوں ہچکتی ہے؟

اس پر انہوں نے کہا، ‘سی ڈبلیوسی ایک نامزدادارہ ہے۔ سی ڈبلیوسی کو پارٹی کے آئین کے مطابق جمہوری بنایا جانا ضروری ہے، جو پارٹی کے آئینی اہتماموں میں مضمرہوتا ہے۔ آپ نامزد ممبروں سے یہ سوال اٹھانے کی امید نہیں کر سکتے کہ آخر کانگریس پارٹی انتخاب در انتخاب کمزور کیوں ہوتی جا رہی ہے۔’

سبل نے کہا، ‘کانگریس گجرات کے ضمنی انتخابات میں سبھی آٹھوں سیٹیں ہار گئی۔ گجرات میں ہمارے تین امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ اتر پردیش کے ضمنی انتخاب میں سات سیٹوں پر پارٹی کے امیدواروں کو دو فیصدی سے بھی کم ووٹ ملے۔ یہاں تک کہ مدھیہ پردیش میں28 سیٹوں پر ہوئےضمنی انتخاب میں بھی پارٹی کا خراب مظاہرہ رہا۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کانگریس کی قیادت ایک اور ہار کونارمل مان رہی ہیں؟

اس پر سبل نے کہا، ‘مجھے نہیں پتہ، میں صرف اپنی بات کر رہا ہوں۔ میں نے پارٹی قیادت کو مجھے کچھ کہتے نہیں سنا۔ مجھ تک صرف قیادت کے آس پاس کے لوگوں کی آواز پہنچتی ہے۔ بہار میں حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخاب اور کچھ ریاستوں میں ہوئے ضمنی انتخابات میں کانگریس پارٹی کے مظاہرہ پر اب تک پارٹی قیادت کی رائے سامنے نہیں آئی ہے۔ شاید انہیں سب ٹھیک لگ رہا ہے اور اسے معمول مانا جا رہا ہے۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پارٹی کے اندرجمہوری انتخاب کانگریس کے لیے ضروری ہے۔

اس پر سبل نے کہا، ‘جب سے آئی ٹی انقلاب رونما ہوا ہے، انتخاب صدارتی انتخاب میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اگر ہم اپنی کمیوں کو نہیں پہچان پا رہے ہیں تو انتخابی عمل کےمطلوبہ نتائج نہیں آئیں گے۔نامزدگی کے ذریعےانتخاب سے مطلوبہ نتیجے نہیں آئیں گے۔ نتیجہ صرف وقت، بھروسہ،غوروخوض کے طریقے میں تبدیلی اور ہماری آئیڈیالوجی کو قبول کیے جانے کے ساتھ آئیں گے۔’

سبل نے کہا کہ ہر تنظیم میں ملک  کے سیاسی حقائق کو سمجھنے والے تجربہ کار لوگوں کے ساتھ مکالمہ  کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جو جانتے ہوں  کہ میڈیا میں کیا اور کیسے اظہارکرنا ہے، لوگ جو جانتے ہوں  کہ لوگ انہیں کیسے سنیں۔

انہوں نے گٹھ بندھن کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب لوگوں سے ہمارے ساتھ جڑنے کی اور امید نہیں کر سکتے۔ ہم اب اس طرح کے نہیں ہیں، جو پہلے ہوا کرتے تھے۔

بتا دیں کہ کپل سبل کانگریس پارٹی کے ان 23رہنماؤں میں سے ایک ہیں ،جنہوں نے پارٹی صدر سونیا گاندھی کو خط لکھ کر پارٹی میں تبدیلی لانے، جوابدہی طے کرنے، طے شدہ ضابطوں کو مضبوط بنانے اور ہار کا صحیح تجزیہ  کرنے کی مانگ کی تھی۔

اس خط کے بارے میں پوچھنے پر سبل نے کہا، ‘اس خط کو لکھے جانے کے بعد سے اب تک پارٹی قیادت سے کوئی بات  چیت نہیں ہوئی ہے اور پارٹی قیادت کی جانب  سے بات چیت کے لیے کوئی کوشش بھی نہیں نظر آ رہی ہے۔’

سبل نے کہا، ‘میرے لیے اپنی رائے کے اظہار کا کوئی منچ بھی نہیں ہے تو میں اپنی بات عوامی  طور پر رکھنے کے لیے مجبور ہوں۔ میں ایک کانگریسی ہوں اور ہمیشہ رہوں گا اور مجھے امید ہے کہ کانگریس اقتدار کے اس موجودہ خاکے کا متبادل فراہم  کرےگی، جس نے ملک کی تمام قدروں کو برباد کر دیا ہے۔’

کارتی چدمبرم نے سبل سے رضامندی کا اظہار کیا، کہا کانگریس کے لیے یہ خوداحتسابی اورغوروفکر کا وقت

تمل ناڈو سے پارٹی کےایم پی  کارتی پی چدمبرم نے سوموار کو کہا کہ کانگریس کے لیےیہ خوداحتسابی،غوروفکر اورصلاح ومشورہ کرنے کا وقت ہے۔تمل ناڈو میں شیوگنگا سے لوک سبھاایم پی  کارتی نے بہارانتخاب کےنتیجے پر انگریزی اخبار ‘انڈین ایکسپریس’ کو پارٹی کے سینئررہنما کپل سبل کی جانب سے دیے گئے انٹرویوکالنک کو ٹوئٹ کرتے ہوئے یہ تبصرہ  کیا ہے۔

سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم کے بیٹے نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘کانگریس کے لیےیہ خوداحتسابی،غورفکراور قدم اٹھانے کا وقت ہے۔’اس سے پہلے کانگریس کے سینئررہنما طارق انور نے کہا تھا کہ بہار انتخاب کے لیے سیٹ بٹوارہ سمجھوتے کو حتمی شکل دیے جانے میں تاخیرکی وجہ سے مہاگٹھ بندھن کے مظاہرہ پر برا اثر پڑا۔

بہار میں کانگریس نے 70 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے لیکن صرف 19 کو ہی جیت ملی۔آرجے ڈی  کے تیجسوی یادوکی قیادت والے مہاگٹھ بندھن کو 243 رکنی اسمبلی میں 110 سیٹیں ملی جبکہ این ڈی اے 125 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہا۔

انور نےاتوارکو پی ٹی آئی-بھاشا کو ایک انٹرویو میں کہا کہ کانگریس کو اس نتیجےسے سبق لینا چاہیے اور آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے وقت سے گٹھ بندھن سے متعلق چیزوں  کو پورا کر لینا چاہیے۔سابق مرکزی وزیر سبل نے اپنے ٹوئٹ میں انٹرویو کو ٹیگ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی قیادت  نے شاید ہر انتخاب  میں ہار کو ہی اپنا مقدر مان لیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہار ہی نہیں، ضمنی انتخابات کے نتیجوں سے بھی ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کے لوگ کانگریس پارٹی کو مؤثرمتبادل نہیں مان رہے ہیں۔پچھلے دنوں سبل سمیت کانگریس کے 23 سینئررہنماؤں نے پارٹی چیف سونیا گاندھی کو تنظیم میں ردودل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)