کانپور کے بکرو گاؤں میں جان گنوانے والے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ وکاس دوبے کے مبینہ انکاؤنٹر سے مطمئن ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب اس کے ساتھیوں اور سرپرستوں کا پردہ فاش نہیں ہو پائےگا۔
ہاسپٹل میں وکاس دوبے کی لاش۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: اتر پردیش کے کانپور میں پچھلے ہفتے آٹھ پولیس اہلکاروں کے قتل کے کلیدی ملزم وکاس دوبے کی مبینہ انکاؤنٹر میں موت پر ہلاک ہونے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ نے راحت کی سانس بھلے ہی لی ہے، مگرمبینہ انکاؤنٹر پر وہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔
ٹائمس آف انڈیا کے مطابق،مبینہ انکاؤنٹر میں وکاس دوبے کی موت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اتر پردیش پولیس کے کانسٹبل جتیندر پال سنگھ کے 56 سالہ والد تیرتھ پال سنگھ نے کہا، ‘وکاس دوبے کی موت کے ساتھ ہی بہت سارے راز اس کے ساتھ چلے گئے۔
انہوں نے کہا، ‘اتر پردیش پولیس کو وکاس دوبے کے تمام حامیوں کی پہچان کرنی چاہیےتھی۔سیاسی رہنماؤں کے ساتھ گینگسٹرکی حمایت کرنے والوں میں کئی بڑے لوگ شامل تھے۔’سنگھ نے کہا کہ حالانکہ وہ دوبے کی موت سے مطمئن ہیں لیکن اب اس بات سے مایوس بھی ہیں کہ اس کے حامیوں اورسرپرستوں کا پردہ فاش نہیں ہو پائےگا۔
انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھائے کہ کیسے دوبے ریاست کی سرحدپار کرکے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ انہوں نے کہا، ‘یہ دکھاتا ہے کہ وہ کچھ طاقتور لوگوں کی سرپرستی میں تھا اور ان کا نام سامنے آنا چاہیے۔’ایک دوسرے کانسٹبل ببلو کمار کے اہل خانہ نے دوبے کی موت پر خوشی کا اظہار کیا اور سرکار سے اس کی پوری سلطنت کو تباہ کرنے کی اپیل کی۔
معاملے میں سی بی آئی جانچ کی مانگ کرتے ہوئے ببلو کے بڑے بھائی بنٹو نے کہا، ‘اس کے تمام ساتھیوں کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں کبھی کوئی دوسرا دوبے بننے کی نہ سوچ سکے۔’وہیں، کانسٹبل سلطان سنگھ کی بیوی ارملا نے کہا، ‘میں مطمئن ہوں۔ لیکن اب یہ کبھی سامنے نہیں آ پائےگا کہ کون لوگ اس کی مدد کر رہے تھے۔’
شہید سی او دیویندر سنگھ کے رشتہ دار کمل کانت نے دوبے کی موت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے وکاس دوبے کی سرپرستی کی ان کے خلاف معاملہ درج کیا جانا چاہیے اور آگے کی جانچ کی جانی چاہیے۔وہیں، سال 2001 میں وکاس دوبے نے جس وزیر سنتوش شکلا کا قتل کر دیا تھا، ان کے بھائی منوج شکلا نے کہا، 19 سال کے بعد اب ان کے بھائی کی روح کو سکون ملے گا۔
ایک زخمی کانسٹبل اجئےکشیپ نے کہا، ‘انکاؤنٹر سے راحت ملی ہے۔ اس سے عوام کی نظر میں پولیس کےلیے بھروسہ لوٹےگا۔’