ہمیں خیال آیا ‘اقبال’ عربی کا لفظ ہے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے عربی نام رکھنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ ہم نے اپنا نام ‘کنگال چند’ رکھ لیا۔ یہ نام ویسے بھی ہماری مالی حالت کی غمازی کرتا تھا۔ نہ صرف ہماری بلکہ ملک کی حالت کی بھی!
(علامتی تصویر،فوٹو: پی ٹی آئی)
ہم نے سوچا اس سے پہلے کہ کوئی شخص ہمارا بھارتیہ کرن کرے کیوں نہ ہم ہمت سے کام لے کر اپنا بھارتیہ کرن کر ڈالیں۔سب سے پہلا مسئلہ ہمارے نام کا تھا۔ جیسا کہ آپ شاید نہیں جانتے ہمارا نام اقبال چند ہے۔
ہمیں خیال آیا ‘اقبال’ عربی کا لفظ ہے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے عربی نام رکھنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ ہم نے اپنا نام ‘کنگال چند’ رکھ لیا۔ یہ نام ویسے بھی ہماری مالی حالت کی غمازی کرتا تھا۔ نہ صرف ہماری بلکہ ملک کی حالت کی بھی!
دوسرا مسئلہ لباس کا تھا۔ پتلون، کوٹ اور ٹائی میں کہیں ہندوستانیت نظر نہ آئی۔ یہ تینوں چیزیں ہماری غلامانہ ذہنیت کی نمائندگی کرتی تھیں۔ بے حد تعجب ہوا ہم آج تک انہیں کیسے پہنتے رہے؟ سوچا پتلون کی بجائے پاجامہ پہنا کریں گے، لیکن کسی فارسی نے بتایا ‘پاجامہ’ لفظ بھی ایران سےہندوستان میں آیا ہے۔ ہم دھوتی اور کرتہ پہننے لگے۔ قمیص اس لیے نہیں کہ قمیص عربی کا لفظ ہے اور اس میں عرب کی بو باس بسی ہوئی ہے۔
تیسرا مسئلہ بالوں کا تھا۔ انگریزی ڈھنگ سے بال رکھنا ملک سے غداری نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم نے نائی سے کہا ہمارے سر کے درمیان ایک لمبی چوٹی رکھنے کےبعد سارے بال کاٹ دو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ قدیم ہندوستانیوں کی تصاویر میں ہم نے دیکھا تھا وہ بڑی گھنی اور لمبی مونچھیں رکھا کرتے تھے۔ ان کی پیروی کرتے ہوئے ہم مونچھیں بڑھانے لگے۔
ہمارے چھوٹے سے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں دیکھ کر ہمارے احباب سمجھے ہم نے کسی ناٹک میں کام کرنے کے لیے بناوٹی مونچھیں لگائی ہیں۔ احباب کی بات چھوڑیئے۔ جب ہم اپنے کو اس نئے روپ میں دیکھتے، یوں محسوس ہوتا ہمیں خدا نے نہیں شنکر کارٹونسٹ نے بنایا ہے، لیکن ہم ذرا بھی نہیں گھبرائے۔ ہندوستانی بننے کے لیے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا۔
اب آپ ہماری عینک ہی کو لیجئے۔ ہم نے کئی پنڈتوں سے پوچھا۔ کیا رامائن اور مہابھارت میں کہیں عینک کا ذکر بھی آیا ہے؟ انھوں نے کہا۔ “اس دور میں لوگ وناسپتی گھی کہاں کھاتے تھے جو ان کی بینائی جوانی ہی میں کمزور ہوجاتی۔” ہم نے سوال کیا۔ کیا سگریو، کنبھ کرن، دوشاسن سب کی بینائی اتنی تیز تھی کہ انھیں کبھی عینک لگانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی؟کہنے لگے وہ سب کاجل لگایا کرتے تھے۔
ہمیں اپنے مسئلے کا حل مل گیا۔ عینک اتار دی اور کاجل استعمال کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رات کے وقت رسی پر سانپ اور بکرے پر کتے کا دھوکہ ہونے گا۔ نیز جب کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کرتے تو کالا اکھشر بھینس برابر والا معاملہ ہوتا۔ کچھ دنون بعد ہمیں رات کے علاوہ دن میں بھی ہر چیز پر کسی دوسری چیز کا دھوکہ ہونے لگا۔ آنکھوں کے ایک ڈاکٹر سے مشورہ کیا اس نے سمجھایا۔’اگر آپ اندھے نہیں ہونا چاہتے تو فوراً عینک لگا لیجئے۔’
“لیکن یہ ہندوستانی نہیں ہے۔”
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ گھڑی جو آپ نے کلائی پر باندھ رکھی ہے، ہندوستانی نہیں اور یہ سگریٹ جو آپ پی رہے ہیں، یہ سبھی ہندوستانی کہاں ہے۔”
“آپ نے بہت اچھے وقت یاد دلایا۔ کل سے ہم حقہ پیا کریں گے۔”
“اور گھڑی کے بارے میں آپ نے کیا سوچا ہے؟”
“گھڑی اتار دیں گے۔”
“اور وقت معلوم کرنا ہوا تو؟
“کسی سے پوچھ لیا کریں گے۔”
“خیر جو چاہے کیجئے، لیکن عینک ضرور لگا لیجئے۔ نہیں تو آنکھیں نہ رہیں گی۔”
یہ سوچتے ہوئے اگر ہم اندھے ہوگئے تو ہندوستان میں اندھوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکیں گے۔ ہم نےعینک لگا لی۔
ایک رات جب ہم ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے۔ ہمارے ایک دوست نے اعتراض کیا۔ ٹیلی ویژن ہندوستانی نہیں۔ ہم نے اس کی عقل کا ماتم کرتے ہوئے کہا۔” اگر زمانہ قدیم میں ٹیلی ویژن نہ ہوتا تو سنجے مہاراج دھرت راشٹر کو مہابھارت کا آنکھوں دیکھا حال کس طرح سنا سکتے تھے؟”
“وہ تو یوگ کا معجزہ تھا۔”
“آپ اسے یوگ کا معجزہ کہہ لیجئے۔ ہم تو سمجھتے ہیں سنجے کے پاس ٹیلی ویژن سیٹ تھا۔”
“سنجے کی وفات کے بعد وہ سیٹ کہاں گیا؟”
“مہا بھارت کی جنگ میں تباہ ہوگیا۔”
کچھ اور دنوں کے بعد ہمارے ایک دوست نے ہم پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا۔ “آپ نے اپنا بھارتیہ کرن تو کر لیا، لیکن آپ بوٹ کیوں پہنتے ہیں؟”
“کل سے جوتا پہنا کریں گے۔”
جوتا پہن کر چلنے میں کافی تکلیف کا احساس ہوا کیونکہ وہ پاؤں کو بری طرح کاٹتا تھا۔ ہم نے اس کی بھی پرواہ نہ کی۔ لیکن باتیں بنانے والے کب چپ رہ سکتے تھے کہنے لگے۔ “آپ بس یا ٹیکسی میں دفتر کیوں جاتے ہیں۔ رتھ یا پالکی میں جایا کیجئے۔” ہم نے جھنجھلا کر کہا۔ ” بیسویں صدی میں رتھ اور پالکیاں ہیں کہاں جن میں سوار ہوا جاسکے؟”
“تو پھر پیدل جایا کیجئے۔”
“دفتر آٹھ میل پر ہے۔ پیدل کس طرح جاسکتے ہیں؟”
“تو پھر بھارتیہ کرن کا خبط چھوڑ دیجئے۔”
“وہ ہم نہیں چھوڑ سکتے۔”
وہ پھبتی کستے ہوئے بولا۔ “آپ کی شریمتی جی تو ابھی تک لپ اسٹک اور پوڈر لگاتی ہیں ان کا بھارتیہ کرن کب ہوگا؟”
بات تلخ ضرور تھی، لیکن سچی تھی۔ ہم نے وعدہ کیا کہ شریمتی جی سے اصرار کریں گے، آئندہ پان سے اپنے ہونٹ رنگا کریں اور پاؤڈر کی بجائے چندن کا لیپ کیا کریں۔
ہم نے سمجھا تھا کہ اب کوئی نکتہ چیں ہم پر الزام نہ لگائے گا کہ ہم سو فیصد ہندوستانی نہیں ہیں، لیکن ہمارا خیال غلط ثابت ہوا۔ ایک شام کچھ نوجوان ہمیں مبارکباد دینے کے بہانے گھر پر آئے۔ باتوں باتوں میں انھوں نے پوچھا۔ “مکمل ہندوستانی ہونے کے باوجود آپ نے ٹیلی فون کیوں لگا رکھا ہے؟”
“ٹیلی فون تو زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے۔”
“لیکن اس کی ایجاد ہندوستان میں نہیں ہوئی۔”
“یوں تو بجلی کی ایجاد بھی ہندوستان میں نہیں ہوئی۔
“آپ بجا فرماتے ہیں۔ پھر بجلی کے بلبوں کی بجائے چراغ جلایا کیجئے۔”
“چراغوں سے اتنی روشنی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟”
“آپ نے گھر میں کرسیاں کیوں رکھی ہوئی ہیں؟”
“بیٹھنے کے لیے۔”
“قدیم ہندوستانی کرسیوں پر نہیں بیٹھتے تھے۔”
“اور کس چیز پر بیٹھتے تھے؟”
“فرش پر۔”
دو ایک منٹ کے سکوت کے بعد ایک نوجوان نے کہا۔ “آپ چائے کیوں پیتے ہیں؟”
“اور کیا پیا کریں؟”
“جوشاندہ۔”
“جوشاندہ بھی کوئی پینے کی چیز ہے؟”
“پھر دودھ پیا کیجئے۔”
“دودھ ہضم نہیں ہوتا پھر مہنگا بھی ہے۔”
“آپ کے لڑکے میڈیکل کالج میں کیوں پڑھتے ہیں؟”
“ہم انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں۔”
“ڈاکٹر کیوں، وید کیوں نہیں؟”
“ہمارا آیورویدک سسٹم میں اعتقاد نہیں ہے۔”
“وہ خالص ہندوستانی سسٹم ہے۔”
“ہوگا۔ ہمیں پسند نہیں۔”
“باقی ہندوستانی چیزیں پسند ہیں، یہ کیوں نہیں؟”
“اس سوال کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔”
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سو فی صدی ہندوستانی نہیں۔”
وہ چلے گئے، لیکن ہم عجیب دبدھا میں پڑ گئے۔ کتنا اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی ہم اپنا مکمل بھارتیہ کرن نہیں کر سکے؟ کیا واقعی چراغ جلانا ہوں گے؟ جوشاندہ پینا پڑے گا؟ لڑکوں کو گوروکل بھیجنا ہوگا؟ اور یہ سب کچھ کر لیا تو نکتہ چیں کہیں گےـــــ آپ انگریزی اخبار کیوں پڑھتے ہیں؟ پینسلین کے ٹیکے کیوں لگواتے ہیں؟ کیک اوربسکٹ کیوں کھاتے ہیں؟ شریمتی جی کو ڈارلنگ کیوں کہتے ہیں؟
بہت دیر تک سوچنے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا، اخبارات میں اعلان کر دیں۔ جہاں تک ممکن تھا، ہم نے اپنا بھارتیہ کرن کر لیا ہے۔ اس سے زیادہ بھارتیہ کرن کرنے کی ہم میں توفیق نہیں۔
کنہیا لال کپور کی یہ تحریر18فروری2018کو شائع کی گئی تھی۔
بحوالہ :نازک خیالیاں،ہند پاکٹ بکس