صدی تقریبات کے موقع پر کیفی اعظمی کی نظموں کا یہ خیال انگیز انتخاب اور معنیاتی پر کاری سے مملو تراجم کی اشاعت ایک اہم ادبی وقوعہ ہے۔
ایک ایسے عہد میں جب چھپے ہوئے لفظ کی حرمت اور تقدس باقی نہیں رہی ہے اور قلم کی وساطت سے دنیا بدلنے کا تصور قصہَ پارینہ محسوس ہونے لگا ہے، انگریزی کے ایک بہت اہم شاعر سدیپ سین نے جنہیں میکڈونیا میں اسٹرو گا پوئٹری فیسٹیول میں معاصر عالمی شاعری کو ثروت مند بنانے میں اہم رول ادا کرنے کی بنا پر پلائیڈس اعزاز سے نوازا گیا ہے، انگریزی اور ہندی قارئین کو کیفی اعظمی کی تخلیقی کائنات سے متعارف کرانے کےلیے ان کی پچاس نظموں کا ایک انتخاب ‘کیفی اعظمی کی نظمیں’ کے عنوان سے مرتب کیا ہے ۔
سدیپ سین نے انگریزی اور اردو پر یکساں قدرت رکھنے والے بیدار بخت (کناڈا) اور حسین میر علی (امریکہ)کے خیال انگیز اورمعنیاتی امکانات سے متصف تراجم کو شامل اشاعت کیا ہے ۔ اسی طرح مشہور انگریزی صحافی، شاعر اور پینٹر پرتیش نندی (ایڈیٹر، السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا)اورمشہور ڈائریکٹر اور سنیماٹوگرافر سمنترا گھوشال کے معنویت سے لبریز تراجم بھی اس انتخاب کی زینت ہیں ۔ سدیپ سین نے ترجموں کے ضمن میں لکھا ہے کہ؛
کیفی اعظمی کی نظموں کا ترجمہ کرنے والے ہر مترجم کا طریقہ کار، سیاسی رجحانات اور جمالیاتی احساس منفرد ہے تاہم ان لوگوں میں مشترک بات یہ ہے کہ ان کا لسانی پس منظر ہندوستان اور جنوبی ایشیا ہے۔ نظموں کے یہ تراجم متنوع، کثیرا لابعاد اور مرکز جو ہیں ۔
مرتب کے نزدیک کیفی اعظمی کی شاعری سےاسی، جمالیاتی اور سماجی روابط کا احاطہ کرتی ہے اور قوم، ملک، سرحد، تاریخ، محبت، وفور شوق، امید اور مایوسی کی مختلف جہتوں کو موضوع بحث بناتی ہے۔مرتب نے کیفی اعظمی کی ایک مشہور ترین نظم ‘بوسہ’کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ۔ جمالیاتی طرز احساس اور انفرادی تجربہ کی تشدید پر مبنی یہ نظم کیفی کی تخلیقی انفرادیت کے نئے باب وا کرتی ہے ۔ بوسہ کی حلاوت سے کائنات کو سرشاری کی فضا میں رقص کرتے ہوئے دیکھنا رومانی طرزِ اظہار کی روشن مثال ہے ۔آنکھوں کی تابناکی کو چراغ کی ضو فشانی سے تعبیر کرنا ایک خوش گوار حسی تجربہ ہے؛
جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو
سو چراغ اندھیرے میں جھلملانے لگتے ہیں
پھول کیا، شگوفے کیا،چاند کیا، ستارے کیا
سب رقیب قدموں پر سر جھکانے لگتے ہیں
لمحہ بھر کو یہ دنیا ظلم چھوڑ دیتی ہے
لمحہ بھر کو سب پتھر مسکرانے لگتے ہیں
مرتب نے کیفی کی دیگر نظموں مثلاً ایک لمحہ، حوصلہ، دو راتیں ، پر سکون سمندر، دستورِ بخشش، تجدید، تبسم، دوسرا طوفان، مشورے اور پیار کا جشن کو بھی انگریزی پیراہن عطا کیا ہے ۔ انسان اصلاً تغیر آشنا اور متلون مزاج ہے اور استقلال پر اس کا اصرار محض خود فریبی ہے ۔ لمحہ بھر میں انسان کی قلب ماہیت کس طرح ہو جاتی ہے، کیفی کی نظم تجدید اس اجمال کی خوبصورت تفصیل پیش کرتی ہے؛
تلاطم، ولولے، ہےجان، ارماں
سب اس کے ساتھ رخصت ہو چکے تھے
یقیں تھا اب نہ ہنسنا ہے، نہ رونا
کچھ اتنا ہنس چکے تھے، رو چکے تھے
کسی نے آج اک انگڑائی سی لے کر
نظر میں ریشمی گرہیں لگا دیں
تلاطم، ولولے، ہےجان، ارماں
وہی چنگاریاں پھر مسکرا دیں
جنوب ایشائی ادبیات کے ممتاز عالم اور مترجم حسین میر علی نے متعدد ترقی پسند شعرا کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اور انہوں نے برصغیر میں ترقی پسند ادیبوں کی عصری معنویت کو خاطر نشان کرنے کےلیے ایک کتاب Anthem of Resistanceلکھی جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی ۔ حسین میر علی نے کیفی اعظمی کی سےاسی نظموں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور انہوں نے عادت، ’ابن مریم،بے کاری،تلنگانہ،تاج محل،سانپ،دعوت،دوسران بن باس،تاج اورچراغاں کو انگریزی داں قارئین کےلیے پیش کیا ہے ۔
بیدار بخت کا اختصاس اردو شعری متون کو انگریزی میں تخلیقی صناعی اور فنی مہارت کے ساتھ منتقل کرنا ہے ۔ کناڈا میں مقیم اور پیشہ سے انجینئر بیدار بخت نے ن م راشد، اختر الایمان، سردار جعفری، مجروح سلطان پوری اور شہریار کی تخلیقات کو انگریزی میں پیش کیا ہے ۔ انہوں نے کیفی اعظمی کی گیارہ نظموں -آوارہ سجدے، شام، وصیت، دوپہر، کھلونے، دھواں ، آندھی، گربھ وتی، رقص شرارہ، معذرت اور سومناتھ کا ترجمہ کیا ہے ۔
ممتاز شاعر، صحافی، آرٹسٹ، فلم ساز اور سابق ممبر پارلیامنٹ پرتیش نندی نے کےفی کی 9 نمائندہ نظموں-انتشار، پیر تسمہ پا، آخری رات، کوریا، بنگلہ دیش، بہروپنی، زندگی، نوحہ اور پشیمانی کو انگریزی کا جامہ پہنایا ہے ۔مشہور پروڈیوسر، ہدایت کار اور سنیماٹوگرافر سمنترا گھوشال نے عورت، مکان، نذرانہ، دائرہ، فرض، تم، وقت نے کیا کیاحسیں ستم، اتنا تو زندگی میں کسی کے نہ خلل پڑے اور میں ڈھونڈھتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا کو انگریزی کا لباس فاخرہ عطا کیا ہے ۔
صدی تقریبات کے موقع پر کیفی اعظمی کی نظموں کا یہ خیال انگیز انتخاب اور معنیاتی پر کاری سے مملو تراجم کی اشاعت ایک اہم ادبی وقوعہ ہے جس کےلیے سدیپ سین ہدیہَ تبریک کے مستحق ہیں ۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)