احمد آباد میں25 ویں آل انڈیا فارنسک سائنس کانفرنس میں این ایچ آر سی کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس ارون مشرا نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور سائبر اسپیس میں اظہار رائے کی آزادی– آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی آزادی سے ‘بڑی’ نہیں ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس ارون مشرا۔ (تصویر بہ شکریہ: این ایچ آر سی)
نئی دہلی: ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) ارون مشرا نے انٹرنیٹ پر ‘غیر قانونی برتاؤ اور سائبر کرائم’ کے لیے ‘سخت قوانین’ کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، احمد آباد میں 25ویں آل انڈیا فارنسک سائنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور سائبر اسپیس میں اظہار رائے کی آزادی– آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی آزادی سے ‘بڑی’ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین ہونے چاہیے… لوگوں کی بھلائی کے لیے ہمیں اس کے غلط استعمال سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔
جسٹس مشرا نے کہا کہ جرائم کے طریقے میں تبدیلی آئی ہے کیونکہ’ٹکنالوجی آج کا ہتھیار ہے’۔
انہوں نے کہا، اس کا استعمال جرائم کے ساتھ ساتھ اچھے مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہم پچھلی ایک دہائی میں انٹرنیٹ صارفین میں تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ سائبر اسپیس کا استعمال بڑے پیمانے پر شہری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سائبر کرائم سے لڑنےمیں سائبر سکیورٹی اہم ہے۔
جسٹس مشرا نے مزید کہا کہ وزارت داخلہ کے پورٹل سے پتہ ہے کہ سائبر خطرے کا پتہ لگانے اور ٹارگٹڈ حملوں کے معاملے میں ہندوستان سب سے کمزور ممالک میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ حاشیائی گروپ خاص طور پرپہچان کی چوری (آئیڈنٹیٹی تھیفٹ)، فراڈ اور رین سم ویئر جیسے سائبر کرائم کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘غیر قانونی انٹرنیٹ برتاؤ اور سائبر کرائم کے خلاف اور اس کے لیے سزا کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے سائبر اخلاقیات (قاعدے) اور سخت قانون کو فروغ دینا ضروری ہےبہت سے ممالک نے نئے نئے جرائم کی آمد کے ساتھ سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیےخصوصی طور پربنائے گئے قانون میں ترمیم کی ہے۔ مزید کمپیوٹرائزڈ فرانزک لیبز، انفارمیشن ٹکنالوجی پر سنٹرز آف ایکسیلنس، سکیورٹی ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ تفتیشی افسران، وکلاء اور ججوں کے لیے تربیت کی ضرورت ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، جسٹس مشرا نے کہا کہ کوٹلیہ کا ارتھ شاستر ہندوستان میں فرانزک سائنس کا پہلا سورس تھا۔ ‘تاریجا’ کے نام سے مشہور ہاتھ کے نشان کو دستخط کی ایک منفرد شکل سمجھا جاتا تھا۔ یہ سائنسی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ فنگر پرنٹ سے ہونی والی شناخت درست ہے۔