فیکٹ چیکر محمد زبیر کی گرفتاری،ان کے خلاف درج کیے گئے مقدمے اور ان کی حراست کے سلسلے میں نظر آنے والی واضح خامیوں پرسپریم کورٹ کے ایک سابق جج، ایک ہائی کورٹ کے جج اور وکیلوں نے سوال اٹھائے ہیں۔
دو جولائی کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ سے نکلتے محمد زبیر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: 2 جولائی کوآلٹ نیوز کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر کی ضمانت کا فیصلہ عدالت سے پہلے
پولیس کی جانب سے بتائے جانے پر سپریم کورٹ کے ایک سابق جج نے دی وائر سے کہا کہ ، فوجداری نظام انصاف کا اس سے نیچے جانا مشکل ہے۔
معلوم ہو کہ سنیچر کو دہلی کی ایک عدالت نے محمد زبیر کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے۔2018 میں ایک ٹوئٹ کے ذریعے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں 27 جون کو دہلی پولیس نے زبیر کو آئی پی سی کی دفعہ 153اے اور 295اے کے تحت گرفتار کیا تھا۔
زبیر کے خلاف پولیس میں درج ایف آئی آر میں کہا گیاتھا کہ، ہنومان بھکت نامی ٹوئٹر ہینڈل سے محمد زبیر کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیے گئےایک ٹوئٹ کو شیئر کیا گیا تھا ۔ اس ٹوئٹ میں زبیر نے ایک تصویرپوسٹ کی تھی۔ جس میں سائن بورڈ پر ہوٹل کا نام ‘ہنی مون ہوٹل’ سے بدل کر ‘ہنومان ہوٹل’ دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ زبیر نے ‘2014 سے پہلے ہنی مون ہوٹل… 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل…’ لکھا تھا۔
بتادیں کہمذکورہ تصویر 1983 کی رشی کیش مکھرجی کی فلم ‘
کسی سے نہ کہنا‘ کا ایک اسکرین شاٹ تھا۔
اب دی وائر کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ
بی جے پی کے ایک لیڈر سےوابستہ ہے۔
سنیچرکو پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ (سی ایم ایم) اسنگدھا سروریا نےشام سات بجے زبیر کی عرضی پراپنا فیصلہ سنایا، جبکہ ان کا فیصلہ سننے کے لیے تقریباً تین گھنٹے پہلے ہی ان کےکورٹ روم میں وکیل جمع ہوگئےتھے۔
غور طلب ہے کہ اس سے چند گھنٹے قبل ہی دوپہرتقریباً ڈھائی بجے کئی میڈیا اداروں اور خبررساں ایجنسیوں نے زبیر کی ضمانت عرضی خارج ہونے اور انہیں 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیجنے کے فیصلے کی خبر شائع کر دی تھی۔
اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زبیر کے وکیل ایڈوکیٹ سوتک بنرجی نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران تھےکہ یہ خبر پولیس کے توسط سے میڈیا تک پہنچی۔
انہوں نے دن میں ہی میڈیا سے بات کرتے ہوئے
کہا، ‘لنچ بریک کے بعد بھی جج ابھی تک نہیں بیٹھی ہیں۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ ڈی سی پی کے پی ایس ملہوترا نے میڈیا میں یہ بات لیک کر دی ہے کہ ہماری ضمانت عرضی خارج کر دی گئی ہے اور 14 دنوں کی عدالتی حراست دی گئی ہے۔ مجھے اس بارے میں نیوز چینلوں کے ٹوئٹر پوسٹ سے پتہ چلا۔ …کچھ لاء جرنلسٹ ہیں جنہوں نے کےپی ایس ملہوترا کے حوالے سے یہ خبر چلائی ۔ یہ انتہائی قابل مذمت ہے اور یہ آج ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی کی صورتحال کے بارے میں بتاتا ہے کہ پولیس نے مجسٹریٹ کے بیٹھنے اور فیصلہ سنانے سے پہلے ہی اس آرڈر کو میڈیا میں لیک کر دیا ہے۔ کے پی ایس ملہوترا کو اس فیصلے کے بارے میں معلوم ہونا میری فہم سے بالاتر ہے اور یہ قانون کی حکمرانی کی صورتحال کے سلسلے میں سنجیدگی سے خودبینی کا مطالبہ کرتا ہے۔
بنرجی کے بیان کے بعد کے پی ایس ملہوترا پلٹ گئےاورصحافیوں سے کہا کہ انہوں نے جانچ افسر سے بات کی تھی۔ ملہوترا نے دعویٰ کیا کہ اس بات چیت میں انہوں نے ‘شور کی وجہ سے آرڈر کے بارے میں کچھ غلط سن لیا تھا۔’ اور ‘انجانے میں یہ جانکاری براڈکاسٹ میں پوسٹ ہوگئی۔
تاہم، قانون کے جانکار اس ‘وضاحت’سے مطمئن نہیں ہیں۔ اسی شام جب مجسٹریٹ کا فیصلہ آیا تو پولیس کے ذریعے دوپہر کو کیے گئے ‘دعوے’ درست ثابت ہوئے۔
اس کے بعد سے قانونی ماہرین اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھارہے ہیں۔
‘ہم کیا بن چکے ہیں’
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکور نے اس بارے میں کہا، ‘ہمارے فوجداری نظام انصاف کا اس سے نیچے جانا مشکل ہے۔’
یہ بتاتے ہوئے کہ ماضی میں اس طرح کی کوششیں کس طرح ناکام ہوئیں، انہوں نے کہا، ‘کیا آپ جانتے ہیں کہ جسٹس جگموہن لال سنہا مسز اندرا گاندھی کے انتخاب کے خلاف کیس میں جو فیصلہ سنانے والے تھے، اس کو جاننے کی کتنی کوششیں کی گئی تھیں؟ لیکن کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ اب اگر میڈیا رپورٹس پر یقین کیا جائے تو ایک سینئر پولیس افسر نے کسی معاملے میں عدالت کے فیصلہ دینے سے پہلے فیصلے کا اعلان کردیا۔ ہم کہاں تک آ گئے ہیں؟’
مدراس ہائی کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس کے چندرو نے اسی طرز پر کہا کہ یہ عدلیہ کے لیے نیچے جانے والی بات ہے۔
انہوں نے کہا، (کارکن) تیستا سیتلواڑ اور محمد زبیر کی گرفتاری اس بات کی ایک بڑی مثال ہے کہ کس طرح عدلیہ اس قدر نچلی سطح پر جا چکی ہے [کہ] لوگوں کا ان پرسے بھروسہ اٹھنے لگا ہے۔
چندرو نے
دی وائر کو دیے گئے جسٹس لوکور کے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا اور کہا، جیسا کہ جسٹس لوکور نے ٹھیک ہی کہا ہےکہ ، عوام کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف فیصلے بہت خراب وقت دکھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ
دی وائر پر شائع ایک مضمون میں جسٹس لوکور نے گجرات فسادات کیس میں ذکیہ جعفری کی عرضی پر سپریم کورٹ کے ریمارکس کی روشنی میں اس کے ارادوں پر سوال اٹھایا تھا۔ عدالت نے اس معاملے میں کہا تھا کہ ،اس طرح کے عمل کے غلط استعمال میں ملوث تمام لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ضرورت ہے’۔اس کے بعد ہی گجرات پولیس نے سیتلواڑ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔
جسٹس لوکور نے مزید کہا، نئی بات یہ ہے کہ کیسےسنگھیوں کی مدد اور عدالتوں کی طرف سے مداخلت کرنے میں برتی جارہی بے حسی کی وجہ سے پولیس بے شرمی سے الزام طے کر سکتی ہے۔ حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والوں کو حقائق کو مسخ کرنے والوں کی مدد سے سزا دی جا رہی ہے۔
ایف آئی آر میں جوڑے جا رہے نئے الزامات
معلوم ہوکہ دہلی پولیس نے محمد زبیر کے معاملے میں تین نئی دفعات شامل کی ہیں- پولیس نے اب زبیر کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 120بی (مجرمانہ سازش) اور 201 (ثبوت کو ضائع کرنا) اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 بھی لگائی گئی ہیں۔ایف سی آر اےکی اس دفعہ سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کو ان کے خلاف ‘تفتیش’ کرنے کا
بہانہ ملے گا۔
سینئر ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن کا کہنا ہے کہ ،اس سچائی کے علاوہ کہ یہ الزام حقائق پر مبنی نہیں ہیں، جن مجسٹریٹ نے شروعاتی حراست اور چار دن کی پولیس حراست کو منظوری دی،انہیں معلوم رہا ہوگا کہ زبیر کے خلاف درج معاملے کا کوئی مستقبل نہیں ہے
،کیوں کہ مبینہ جرم چار سال پرانا ہے اور اس میں تین سال سے زیادہ کی قید نہیں ہو سکتی۔’
کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کی دفعہ 468 کسی عدالت کے لیے تین سال یا اس سے کم کی زیادہ سے زیادہ سزا کی مدت والے قابل دست اندازی جرائم کا نوٹس لینے کی حد مقرر کرتا ہے۔ چونکہ زبیر کے خلاف ٹوئٹ سے متعلق ایف آئی آر صرف ان جرائم کے لیے تھی جن کی زیادہ سے زیادہ سزا تین سال یا اس سے کم ہے، اس لیے اس ایف آئی آر کا کوئی مقصد نہیں بنتا، کیوں کہ عدالت ان الزامات کا نوٹس نہیں لے سکتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے للیتا کماری کے فیصلے میں کہا تھا کہ پرانے جرائم یعنی 6 ماہ سے زیادہ پرانے واقعات کے لیے ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے ابتدائی تفتیش کی ضرورت ہے۔
‘ویسے بھی سی آر پی سی کی دفعہ 41اے آزادی کے آئینی حق کو نافذ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے – اصول یہ ہے کہ سات سال یا اس سے کم مدت کے جرائم میں گرفتاری نہیں کی جانی چاہیے۔ ایسی گرفتاری یا حراست کو روکنے کا فریضہ مجسٹریٹس پر عائد ہوتا ہے۔ اس معاملے میں حراست کا حکم — پہلے پولیس حراست، بعد میں عدالتی حراست — آئینی اصول، عدالتی احکامات کی تکرار اور یقینی طور پرقانون کو نظر انداز کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل شاہ رخ عالم نے دی وائر کو بتایا کہ بعض خصوصی دفعات کے تحت درج ایف آئی آر کے مطابق جاری تحقیقات کے دوران ‘صرف وہی متعلقہ تحقیقات اہم ہیں۔’
اس عمل کے غلط استعمال کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا، جب کسی سنگل (ایک الزام میں درج) ایف آئی آر کو ‘عام تفتیش’ کے مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ عمل کا غلط استعمال ہے۔اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ اگر اس کا استعمال ‘غیر ملکی عطیات’ لینے کے الزامات لگانے کے لیے کیا جا رہا ہے جو کہ جاری تحقیقات کا حصہ بھی نہیں ہیں، جیسےیہ ہیں، تو ایسے الزامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کا فیصلہ اصول وضوابط کی خلاف ورزیوں اور قانونی خامیوں کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔
بتادیں کہ 27 جون کو ان کی گرفتاری کے بعد زبیر کو چار دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا، جس کے بعد پٹیالہ ہاؤس سی ایم ایم نے انہیں سنیچر کو عدالتی حراست میں بھیجنے کا حکم دیا۔
دہلی میں مقیم وکیل بھرت چُگھ، جو پہلے میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے طور پر کام کر چکے ہیں، نے کہا، مجھے نہیں لگتا کہ یہ عدالتی حراست یاکسی طرح کی اگلی حراست کا معاملہ بھی تھا۔
چُگھ نے کہا کہ چونکہ ملزم پہلے ہی کافی وقت پولیس حراست میں گزار چکے ہیں، ایسے میں ‘جو کچھ بھی ان سے برآمد کیا جا سکتا تھا، اسے اب تک برآمد کر لیا جانا چاہیے تھا۔’
چگھ نے مزید کہا، ہر ملزم کو بے گناہ مانے جانے کا حق ہے، الزامات کو بعد میں ثابت کرنا ہوگا۔ اگر پولیس ریمانڈ میں اس سے کچھ بھی نہیں لینا چاہتی، تو پھر اسے سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ حقیقت اپنے آپ میں ملزم کو ضمانت کا حقدار بنا سکتی تھی۔
دفعہ 41-اے ‘غلط استعمال’
زبیر کی ضمانت کی درخواست کرتے ہوئے ان کے وکیلوں نے ایف آئی آر میں درج جرائم کو ثابت کرنے کے لیے درکار مواد کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ٹوئٹ 1983 کی ایک فلم کا ایک سین تھا، ان کی گرفتاری میں اصول و ضوابط کی خلاف ورزی اور زبیر کو ان کے کام اور مذہبی پس منظر کی وجہ سے نشانہ بنائے جانے کی بات کہی گئی تھی۔
ان کی وکیل ایڈوکیٹ ورندا گروور نے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ انہیں سی آر پی سی کی
دفعہ 41-اے کے تحت ‘آخری وقت میں’ نوٹس دیا گیا تھا۔ گروور نے
ارنیش کمار کے تاریخی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس فیصلے میں طے شدہ طریقہ کار کو ‘کاغذی کارروائی ‘ تک محدو نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ایڈوکیٹ چگھ نے یہ بھی بتایاکیا کہ دفعہ 41-اے کے تحت نوٹس ‘بہت اہم’ ہے کیونکہ یہ’ملزم کو تفتیش میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔’
انہوں نے کہا، یہ ایک مناسب نوٹس ہونا چاہیے، جہاں ملزم کو ان کے خلاف لگے الزامات کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے کا مناسب موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے میں سیکشن 41-اے کی پیروی کی گئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ اوپری طور پراس پر عمل کیا گیا ہو، لیکن اس ارادے سے نہیں۔
غورطلب ہے کہ جب پولیس نے زبیر کو ان کاوہ موبائل فون حوالے کرنے کو کہا، جو وہ 2018 میں استعمال کر رہے تھے، تو انہوں نے پولیس کو بتایا کہ مذکورہ فون گم ہو گیا تھا۔ ان کے وکیلوں نے 23 مارچ 2021 کو دائر کی گئی فون کھونے کی رپورٹ کی کاپی بھی شیئر کی۔تاہم، اس ثبوت کو نظر انداز کرتے ہوئے سی ایم ایم کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ‘ریکارڈ پر ایسا کچھ بھی نہیں ملا جس سے ظاہر ہو کہ ملزم کا کوئی موبائل فون گم ہوگیا تھا، حالانکہ مذکورہ عرضی کو اب موجودہ عرضی میں شامل کر دیا گیا ہے۔’
زبیر کی جانب سے فون کے گم ہونے کی درج کروائی گئی رپورٹ۔ (دی وائر نے اس میں ان کا پتہ اور فون نمبر چھپا دیا ہے)
چُگھ کہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ملزم اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کہ ان کا فون گم ہو گیا تھا، بھی پولیس رپورٹ پرمنحصر ہے۔ اب یہ کوئی اصلی پولیس شکایت ہے یا نہیں، یا ان کا فون گم ہوا تھایا نہیں، یہ سب شنوائی کے مسئلے ہیں،ان میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کے لیے کسی کو مسلسل حراست میں رکھا جانا چاہیے۔
‘ایف سی آر اے کے تحت لگائے گئے الزامات بھی حراست کی بنیاد نہیں ہیں’
پولیس نے شاید اس معاملے کو نسبتاً کمزور کیس مانتے ہوئے اسے مزید مضبوط بنانے کے ارادے سے زبیر کے خلاف ایف سی آر اے کے تحت اضافی چارجز درج کیے ہوں – درحقیقت جج نے کہا کہ زبیر کی ضمانت عرضی کو خارج کرنے کی بنیاد کے طور پر پولیس نے ابھی تک اپنی جانچ مکمل نہیں کی ہے- نتیا رام کرشنن کہتی ہیں کہ یہ بھی انہیں عدالتی حراست میں بھیجنے کی بنیاد نہیں بن سکتی تھی۔
انہوں نے بتایا، ایف سی آر اے کی وفعہ 35 کے تحت بھی زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی سزا کا ہی اہتمام ہے، جو گرفتاری کے لیے لازمی سات سال کی مقررہ حد سے کم ہے۔ یہ وہی توہین آمیز طریقہ ہے جہاں ہر جگہ قانون کو اپنے حساب سے موڑا گیا ہے۔
(صباح گرمت ایک آزاد صحافی ہیں۔)
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)