جی او ایم رپورٹ: ’متر میڈیا‘ نے دی ہندوتوا کے پروپیگنڈہ اور آزاد میڈیا کو چپ کرانے کی صلاح

ایک میڈیا رپورٹ میں سامنےآئے نو وزیروں کےگروپ کی جانب سے تیارکی گئی 97صفحات کے دستاویز کا مقصد میڈیا میں مودی سرکار کی امیج کو چمکانا اورآزاد میڈیا کو چپ کرانا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ رپورٹ سرکار حامی کئی مدیران اور میڈیااہلکاروں کے مشورے پر مبنی ہے۔

ایک میڈیا رپورٹ میں سامنےآئے نو وزیروں کےگروپ کی جانب سے تیارکی گئی 97صفحات  کے دستاویز کا مقصد میڈیا میں مودی سرکار کی امیج  کو چمکانا اورآزاد میڈیا کو چپ کرانا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ رپورٹ سرکار حامی  کئی مدیران  اور میڈیااہلکاروں  کے مشورے  پر مبنی  ہے۔

(السٹریشن: دی  وائر)

(السٹریشن: دی  وائر)

نئی دہلی: میڈیا میں مودی سرکار کی امیج  چمکانے، گودی میڈیا کو بڑھاوا دینے اور آزادانہ  صحافت کو بے اثر بنانے کے لیے نو وزیروں کے گروپ (جی او ایم)کی جانب سے تیار کی گئی ایک رپورٹ کو ہرطرف تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

اس میں سب سے زیادہ  چونکانے والی بات یہ سامنے آئی ہے کہ کئی صحافیوں  نے ہی صحافتی دنیا کو ‘غیرمتحرک ’ کرنے کے مشورے دیے ہیں۔اس میں صحافیوں کو مختلف زمروں  میں بانٹ کر ان پر  ‘سرکار مخالف  اور سرکار حمایتی   کا ٹھپہ’ لگانے سے لےکر‘سرکاری مشینری’ کا استعمال کر انہیں چپ کرانے جیسی کئی تشویشناک تجاوزیرشامل ہیں۔

کل97 پیج کے اس دستاویز سے یہ بات بھی نکل کر سامنے آتی ہے کہ کس طرح پورے میڈیا کو کنٹرول  نہ کر پانے کی وجہ سے مودی سرکار مایوس ہے اور اس کنٹرول  کو حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔

اسی سمت  میں متنازعہ  ڈیجیٹل میڈیا ضابطے لائے گئے ہیں، جس نے نیوز پورٹل پر سوال اٹھانے کے لیےانتظامیہ  کو بے حساب اختیارات  دے دیے ہیں۔‘سرکاری ابلاغ  پر وزیروں کے گروپ ’ نام کی  اس رپورٹ کو پچھلے سال  جون اور جولائی مہینے کے دوران ہوئی کل چھ بیٹھکوں کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ اس وقت کو رونا اپنےعروج  کی طرف  بڑھ رہا تھا اور کروڑوں کی تعداد میں مزدور اپنے گاؤں کی جانب  لوٹنے کو مجبور ہوئے تھے۔

جی او ایم میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی، وزیرقانون روی شنکر پرساد،مرکزی وزیر برائے خواتین واطفال اسمرتی ایرانی،وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاویڈکر اور وزیر خارجہ  ایس جئےشنکر شامل تھے۔ اس کے علاوہ ریاستی وزیروں میں سے کرن رجیجو، ہردیپ سنگھ پوری، انوراگ ٹھاکر اور بابل سپریو بھی اس کےرکن  تھے۔

رپورٹ کے مطابق میڈیا میں سرکار کی تنقید کو روکنے اور اس کے لیے ایک پالیسی تیار کرنے کے مقصد سے مرکزی وزیروں نے کئی‘نامور لوگوں’ کے ساتھ بیٹھکیں کی تھیں۔اس سمت میں کرن رجیجو نے اپنی  رہائش پر 23 جون 2020 کو 12صحافیوں  کے ساتھ بیٹھک کی، جس میں شامل ہیں:

آلوک مہتہ -آؤٹ لک ہندی، نوبھارت ٹائمس، نئی دنیا اور دینک بھاسکر کے سابق مدیر

جینت گھوشال- انڈیا ٹی وی کے سابق  پالیٹیکل ایڈیٹر اور فی الحال انڈیا ٹو ڈے گروپ میں کام کر رہے

ششر گپتا- ہندستان ٹائمس کے ایگزیکٹوایڈیٹر

پرپھل کیتکر- آر ایس ایس کے آرگنائزر ویکلی کے مدیر

مہوا چٹرجی -ٹائمس آف انڈیا کی سینئر صحافی

نستلا ہیبر- دی  ہندو کی پالیٹیکل ایڈیٹر

امیتابھ سنہا -مانا جا رہا کہ یہ نیوز18 انڈیا کے پالیٹیکل ایڈیٹر ہیں

آشوتوش -مانا جا رہا کہ یہ دینک جاگرن کے بیورو چیف ہیں

رام نارائن-سینئر صحافی

رویش تیواری -انڈیا ایکسپریس کےسینئر صحافی

ہمانشو مشرا- آج تک کےسینئر صحافی

رویندر گوتم-سینئر صحافی اور نیوز18 اور سی این بی سی آواس کے سابق  ٹی وی اینکر

جی او ایم کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ان صحافیوں  نے بتایا کہ ‘میڈیا میں تقریباً75فیصدی لوگ نریندر مودی کی قیادت  سے سحر زدہ ہیں اور نظریاتی طور پر پارٹی کے ساتھ ہیں۔’اس میں یہ بھی کہا گیا، ‘ہمیں (جی او ایم کو) ایسے لوگوں کا ایک گروپ بنانا چاہیے اورباقاعدگی سے ان سے رابطہ کرنا چاہیے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘بات چیت میں کمی کی وجہ سے مثبت  چیزیں مؤثر طریقے سے نہیں لاگو ہو پا رہی ہیں۔ اچھی تشہیرکے لیے سرکار کو کسی بڑے پروگرا م کے اعلان  سے پہلےحمایتی  میڈیا(جو سرکار کے ساتھ ہیں)کو بیک گراؤنڈ مٹیریل دینا چاہیے۔’

اس کے ساتھ ہی ان صحافیوں  نے یہ بھی صلاح دی کہ کسی بھی مدعے پر ‘تمام وزارت کو ایک سر میں اپنی بات رکھنی چاہیے’ تاکہ سرکار کے پیغام  میں کوئی تضاد پیدانہ ہو۔

جی او ایم رپورٹ میں کہا گیا، ‘ہمارے معاون مدیران،کالم نگاروں ، صحافیوں  اور مبصرین کا ایک گروپ  بنایا جانا چاہیے اور ان سےباقاعدگی سےرابطہ کیا جائے۔ سرکاری وسائل  کا مؤثر طریقے سے استعمال یقینی  ہو تاکہ آخری شخص تک پیغام  پہنچے۔ سرکار اور میڈیا کے بیچ دوریاں بڑھی ہیں اور اس کا حل کیا جانا چاہیے۔ غیرملکی  میڈیا کے ساتھ رابطہ  بند کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ الٹا ثابت ہو رہا ہے۔’

اسی طرح مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر کے ساتھ 23 جون، 2020 کو ایک اور بیٹھک ہوئی، جس میں بنیادی طورپر رائٹ ونگ صحافی  تھے۔ یہ لوگ مودی سرکار کے کافی قریبی ہیں اور اس میں سے کچھ تو سرکاری عہدوں  پر بھی ہیں۔ اس میں شامل تھے:

ایس-گرومورتی- آر ایس ایس مفکر اوراس وقت   ریزرو بینک کے بورڈ ممبر

سوپن داس گپتا-سینئر صحافی اور راجیہ سبھاایم پی

کنچن گپتا -دی  پاینیر کے سابق مدیراور آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے فیلو

نتن گوکھلے- قومی سلامتی کے تجزیہ کار ، جودفاع سے متعلق  ویب سائٹ چلاتے ہیں

شیکھر ایر- ڈکن ہیرالڈ کےسابق پالیٹیکل ایڈیٹر

اے سوریہ پرکاش -پرسار بھارتی کے سابق چیئرمین اوراس وقت  نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری کی ایگزیکٹو کمیٹی کےممبر

اشوک ٹنڈن- اٹل بہاری واجپائی کے سابق میڈیا صلاح کار اوراس وقت  پرسار بھارتی کے صلاح کار بورڈ کے ممبر

اشوک ملک -بھارت کےصدر کےسابق پریس سکریٹری

ششی شیکھر- پرسار بھارتی کے سی ای او

اس طرح کی تیسری بیٹھک اسمرتی ایرانی کی قیادت  میں 24 جون 2020 کو ہوئی تھی، جس میں ہندوتوا کےشدت پسند حمایتی  اور میڈیا میں‘سرکاری لائن’پر بولنے لکھنے والے لوگ شامل تھے۔اس بیٹھک میں سوراجیہ کے مدیر آنند رنگناتھن، فلم کریٹک اننت وجے، سوراجیہ کے کالم نگار سنیل رمن، آپ انڈیا کی چیف نپور شرما اور میل ٹو ڈے کے سابق  مدیر ابھیجیت مجمدار موجود تھے۔

ان لوگوں کی جانب سےمیڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے دیے گئے مشورےبے حد تشویشناک اور چونکانے والے ہیں۔مثال  کے طور پرگرومورتی نے کہا کہ خبروں  میں‘سچ اورجھوٹ  دونوں چیزیں ہونی چاہیے۔’انہوں نے مشورہ  دیا کہ سابق فوجی سربراہوں سےاپوزیشن  سے سوال کرنے کے لیے کہا جانا چاہیے تاکہ میڈیا کا رخ سرکار کے حق میں کیا جا سکے۔

اتنا ہی نہیں، گرومورتی نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور سینئروزیروں کو میڈیا مالکوں اور مدیران سے بات چیت کرنی چاہیے تاکہ ان کا سرکار میں‘اعتماد’بڑھایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ یہ صحیح وقت  ہے کہ میڈیا کو ‘مدد’ دی جائے، کیونکہ کئی میڈیا ہاؤس بحران  کی حالت  میں ہیں۔

گرومورتی نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کو سرکار کے حق  میں کرنے کے لیے‘پوکھرن جیسی صورتحال’ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔وہیں سوپن داس گپتا نے کہا کہ صحافیوں  سے ‘پردے کے پیچھے سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے’اور انہیں ‘کچھ اضافی  دیا جانا چاہیے’ تاکہ وہ سرکار کے حق میں خبریں لکھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

گپتا نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا کے علاوہ ‘اس نیریٹو کے تحت پرنٹ میڈیا پر زیادہ دھیان دیا جانا چاہیے۔’

وہیں کنچن گپتا کا کہنا تھا کہ صحافیوں  کے ساتھ رابطہ  بنانے کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کے ساتھ اچھی طرح سے بات چیت کر سکیں اور اس کی ایک حد بھی طے کر سکیں۔ پارٹی کے بااثر لوگوں کی ایک لسٹ بناکر صحافیوں کو دی جا سکتی ہے، جن کے ساتھ وہ  لگاتار رابطہ  میں رہیں گے۔

رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا، ‘گوگل پرنٹ، وائر، اسکرال، دی  ہندو وغیرہ کے مواد کو بڑھاوا دیتا ہے، جو آن لائن نیوز پلیٹ فارم ہیں۔ ان کو کیسے ہینڈل کرنا ہے، اس کے لیے ایک الگ بحث کی ضرورت ہے۔ آن لائن میڈیا کافی ہائپ دیتا ہے۔ ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ کس طرح ہم آن لائن میڈیا کو متاثر کر سکتے ہیں یا ہمارے پاس اپنا خود کا پورٹل ہونا چاہیے، جس کی عالمی پہنچ ہو۔’

جی او ایم کی رپورٹ کے مطابق، نتن گوکھلے نے اس سمت میں ایک قدم اور آگے نکل کر کہا کہ صحافیوں  کو الگ الگ خانوں  میں بانٹنے کی ضرورت ہیں۔انہوں نے کہا، ‘صحافیوں پر ٹھپہ لگایا جا سکتا ہے: ہرا-غیرجانبدار، کالا-مخالف اور سفید- سرکارحامی ۔ ہمیں اپنے حق والےصحافیوں  کی مدد اور انہیں پرموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔’

حالانکہ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹ میں گوکھلے نے ان باتوں کو جھوٹا بتایا ہے۔

شیکھر ایر نے کہا کہ چونکہ مدیراور سرکار کے بیچ کے رشتے عام طور پر ‘مخالفت’ والے ہوتے ہیں، اس لیے سرکار ایسےصحافی  تیار کر سکتی ہے جو سرکار کے فیصلوں کو چمکانے میں مدد کریں گے۔ اس طرح اقتدار مخالف  رپورٹنگ کی پریشانی کو سلجھایا جا سکتا ہے۔

وہیں پرسار بھارتی کے سابق چیئرمین اے سوریہ پرکاش نے کہا، ‘پارٹی ترجمانوں یا نوکرشاہوں کو میڈیا ہینڈل کرنے کی ٹریننگ دی جانی چاہیے، جو ڈیجیٹل میڈیا کے نیریٹو کو اپنےحق میں کر سکیں گے۔ ہمیں تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ رابطہ  بٹھانے کے لیے ایک الگ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا/ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو ترجیح  دی جانی چاہیے۔’

وزیروں کے اخباروں میں مضمون لکھنے سے روکنے کی صلاح دیتے ہوئے اشوک ملک نے کہا، ‘اسٹوریز کی جہت بدلنے کے لیے وزارتوں  کے گروپ  کی بنیاد پر ترجمان  ہونے چاہیے جو اس کے لیے خبریں/جانکاری  دے سکیں۔ مثال کے طور پر خارجہ ،کامرس ، سوشل سیکٹر کےوزارت جیسے کہ وزارت صحت ،ایجوکیشن ، اقتصادی امور پر گروپ ،سیاسی  نیریٹو جیسے کہ سی اےاے، این آرسی،ماحولیات اورسبز توانائی۔ اس طرح کے گروپ  کے لیے ترجمان  ہونے چاہیے اور یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے چاہے وزیر، صلاح کار،اکیڈمک یا نوکرشاہ اور ایسے لوگ 24×7 دستیاب  رہیں گے۔’

انہوں نے کہا، ‘نام نہاد سماجی  مدعےپریشانی کا سبب بن رہے ہیں، جوغیرملکی  میڈیا کے حق میں جا رہے ہیں۔ پرنٹ، وائر وغیرہ  کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے دونوں کو ایک ساتھ سنبھالنے کی ضرورت ہے۔’

ایرانی کے ساتھ بیٹھک میں شامل ہوئے لوگوں نے ‘ہندوتوا ایجنڈے’ کو اور آگے بڑھانے کامشورہ  دیا تاکہ مخالف  میڈیا کو چپ کرایا جا سکے۔مثال  کے طورپررنگناتھ نے کہا، ‘ہمارے پاس ٹیپو جیسے تاریخی  نیریٹو کی کمی ہے جنہوں نے ہندوؤں کو ختم کرنے کی بات کی تھی۔’

وہیں اننت وجے نے کہا کہ پی آئی بی کو ‘لیفٹ نظریات’کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے۔سنیل رمن نے کہا کہ ‘کتابوں میں تبدیلی کی  جانی چاہیے۔ شیاما پرساد مکھرجی کے کام کوڈیجیٹل کیا جانا چاہیے۔’ معلوم ہو کہ مکھرجی جن سنگھ کے بانی  اور بی جے پی  کے مثالی رہنماہیں۔

جی او ایم نےرائٹ ونگ  پروپیگنڈہ  ویب سائٹ آپ انڈیا کی مدیر نپور شرما نے کہا کہ ان کی ویب سائٹ کو پرموٹ کیا جانا چاہیے۔وہیں صحافی  ابھیجیت مجمدار نے آلٹ نیوز، جو فیک نیوز کا انکشاف  کرنے کی سمت میں کام کر رہا ہے ، کو ‘پروپیگنڈہ ’ پورٹل بتایا اور کہا، ‘آپ انڈیا کی مدد کریں، آپ انڈیا کے ٹوئٹ کو ری ٹوئیٹ کریں۔’

صحافیوں نے جی او ایم رپورٹ میں اپنے رول سے کیا انکار

کرن رجیجو کے ساتھ 23 جون 2020 کو ان کی رہائش پر ملنے والے ایک صحافی  جینت گھوشال نے کارواں میگزین کو بتایا کہ جئے شنکر کی طرف سے میٹنگ کے لیے بلایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘ہمیں کسی سرکاری ابلاغ  پر جی او ایم کی ساتھ بات چیت کرنے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا اور ایسی کوئی بات ہوئی بھی نہیں تھی۔ وزیر کی موجودگی میں کسی بھی بات چیت کے نوٹس نہیں لیے گئے تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ انہوں نے ایسا نتیجہ کیوں نکالا ہے۔’

اس بیچ نتن گوکھلے نے کارواں کی اسٹوری پر ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ ‘یہ پوری طرح جھوٹ ہے۔’

رجیجو کے ساتھ ملاقات کرنے والے دو دیگر صحافیوں سے دی  وائر نے رابطہ کیا اور یہ پتہ چلا کہ ہندوستان چین سرحدی تنازعہ پر بات چیت کرنے کے لیے وزیر خارجہ  ایس جئے شنکر نے بیٹھک بلائی تھی۔ جئے شنکر بیٹھک میں نہیں تھے، بلکہ رجیجو اور نقوی نے صحافیوں کے ساتھ غوروخوض کیا۔

دی  وائر نے ان اخباروں اور ٹی وی چینلوں سے بھی رابطہ  کیا، جن کے صحافی  سرکار کے ساتھ بیٹھک میں شامل ہوئے تھے، اور انہوں نے نام نہ لکھنے کی گزارش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اس معاملے کی ابھی جانچ کر رہے ہیں اور ان کے صحافیوں  نے رجیجو یا نقوی کے ساتھ کسی بھی بیٹھک سے انکار کیا ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)