بی جے پی لیڈر امت مالویہ کی شکایت پر دہلی پولیس نے 31 اکتوبر کو دہلی میں دی وائر کے دفتر اور بانی مدیرسدھارتھ وردراجن، ایم کے وینو، ڈپٹی ایڈیٹر جہانوی سین کے علاوہ ممبئی میں سدھارتھ بھاٹیہ اور پروڈکٹ کم بزنس ہیڈ متھن کدامبی کے گھر کی تلاشی لی تھی اورمختلف الیکٹرانک آلات اپنے قبضے میں لیے تھے۔
نئی دہلی: دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے کئی ممبر31 اکتوبر کو دی وائر کے بانی مدیران سدھارتھ وردراجن، ایم کے وینو، سدھارتھ بھاٹیہ، ڈپٹی ایڈیٹر جہانوی سین کے علاوہ دہلی اور ممبئی میں پروڈکٹ کم بزنس ہیڈ متھن کدامبی کے گھر پہنچے تھےاور بی جے پی لیڈر امت مالویہ کی جانب سے درج ایف آئی آر کے سلسلے میں جاری دفعہ 91 کے نوٹس کے مطابق مختلف الیکٹرانک آلات اپنے قبضے میں لیا تھا۔
دہلی کے بھگت سنگھ مارکیٹ واقع دی وائر کے دفتر کی بھی تلاشی لی گئی۔ اس دوران افسران نے ادارے کے ایک وکیل کودھکا بھی مارا اور دفترکے آلات ضبط کر لیے ۔
جیسا کہ دی وائر نے اپنے ایک بیان میں ذکر کیا ہے کہ ، ضبط کیے گئے آلات کی کوئی ہیش ویلیو (کسی بھی فائل کا فنگر پرنٹ یعنی خصوصی پہچان) نہیں دی گئی ہے۔
امت مالویہ کی شکایت سوشل میڈیا کمپنی میٹا پر دی وائر کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ کی ایک سیریز سے متعلق ہے۔ دی وائر نے پہلے ہی ان رپورٹس کو واپس لے لیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ ان کا داخلی جائزہ لے رہا ہے۔
چھاپےماری کو لے کر سوشل میڈیا پر صحافیوں کے گروپ اور وسیع تر سول سوسائٹی کےارکان نے اپنی نےبات رکھی ہے اور چھاپے کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، متعدد میڈیا تنظیموں کےگروپ ڈی جی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشن، جس میں دی وائر کے علاوہ11 ڈیجیٹل میڈیا تنظیمیں شامل ہیں، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پولیس کی اس کارروائی سے ‘تعصب کی بو’ آ رہی ہے۔
Digipub's statement on police searches on the homes of the editors and a reporter of The Wire pic.twitter.com/ewZCIZNL4C
— DIGIPUB News India Foundation (@DigipubIndia) November 1, 2022
ڈی جی پب نے اپنے بیان میں کہا، ایک صحافی یا ایک میڈیا ہاؤس جو ایک جھوٹی رپورٹ شائع کرتا ہے، اسے ساتھیوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ لیکن حکمران جماعت کے ترجمان کی طرف سے درج کرائی گئی ذاتی شکایت پر پولیس کے میڈیا ہاؤس کے دفتر اور ان کے مدیران کے گھروں کی فوراً اور من مانے ڈھنگ سے تلاشی کی کارروائی میں متعصب ارادوں کی بو آ رہی ہے۔ مزید برآں، ان تلاشیوں کا خطرہ یہ ہے کہ ان کا استعمال دی وائرکے خفیہ اور حساس ڈیٹا کو ضبط کرنے یا ان کی نقل (ڈپلی کیٹ) بنانے کے لیے کیا جا سکتا ہے اور اس خطرے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کئی حالیہ مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پولیس کی طرف سے دائر مجرمانہ مقدموں اور ہراساں کیے جانے کے واقعات نے صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر ان کواپنا کام کرنے سے روکا ہے۔
وہیں پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی ) نے کہا کہ رپورٹ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے اور اسے ہر وقت رپورٹنگ کے لیے ذمہ دار ہونا چاہیے، لیکن دہلی پولیس نے مالویہ کی شکایت پر جس طرح سے کارروائی کی ہے، اس سے انتقامی کارروائی کی بوآتی ہے۔
پی سی آئی نے کہا، اس طرح کی کارروائیاں باقی میڈیا کوڈرانے والی ہوتی ہیں اور اظہار رائے کی آزادی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
اسی کڑی میں، برہن ممبئی جرنلسٹس ایسوسی ایشن (بی یو جے) نے کہا کہ وہ ان تلاشیوں سے فکر مند ہے۔ اس نے کہا کہ ‘دی وائر کی جانب سےاپنی رپورٹ کو واپس لینا اور ادارتی خامیوں کے لیے داخلی جائزے کا وعدہ سیلف ریگولیشن کے اصولوں کی اعلیٰ روایت ہے۔
بی یو جے نے مزید کہا کہ دی وائرکی جانب سے غلطی کے اعتراف کو بی جے پی اور دہلی پولیس نے چھاپے ماری کرنے کے لیے ایک موقع کے طور فوراً لپک لیا، جو انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔
بیان میں کہا گیا،بی یو جے کا ماننا ہے کہ نیوز پورٹل کی رپورٹ کے ذرائع کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ پتہ لگایا جانا باقی ہے، اور یہ بھی کہ کیا دستاویز کی جعلسازی کسی طرح کے جال میں پھنسانے کے بڑے منصوبے کا حصہ تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے،حالاں کہ بی یو جے کو لگتا ہے کہ دی وائر کی جانب سے ادارتی کوتاہیاں افسوسناک تھیں، لیکن وہ حقیقی غلطیاں تھیں جن میں بددیانتی کی کوئی جھلک نہیں تھی۔
وہیں نیشنل الائنس آف جرنلسٹس (این اے جے) اور دہلی جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ڈی یو جے) نے بھی اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ دی وائر نے رپورٹس کو واپس لے لیا ہے اور رپورٹس کے لیے معافی بھی مانگی ہے، اس لیے تلاشی ‘غیر ضروری’ ہے اورپریس کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔
بین الاقوامی سطح پر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹرنے کہا کہ ، دی وائر کے مدیران کے گھروں پر چھاپے ماری ہندوستانی حکام کی طرف سے شدید ردعمل ہے۔
سی پی جے نے کہا، دی وائر نے رضاکارانہ طور پرمیٹا اور امت مالویہ سے متعلق اپنی رپورٹس واپس لے لی ہیں، اپنے قارئین سے معافی مانگی ہے، اور اندرونی جائزہ شروع کر دیا ہے۔ہم حکام اور سیاستدانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس طرح سےہراساں کرنا بند کریں۔
#India: Delhi police raid @thewire_in office and homes of its editors over retracted Meta reports@CPJAsia urges Indian authorities to stop harassing employees of the news website and let them work freely https://t.co/Jxwv5Gh4ev pic.twitter.com/eEjyCdNd6R
— CPJ Asia (@CPJAsia) October 31, 2022
دی نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا انڈیا (این ڈبلیو ایم انڈیا) نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے تلاشی کو ‘نامناسب’ بتایا ہے۔
In this context, Monday’s police raid was highly unjustified, indicating vindictiveness and malafide intent by the ruling party & its spokesperson @amitmalviya The police are to be even-handed and free of political influence, which is clearly lacking here. https://t.co/brpkJFtpin
— NWMIndia (@NWM_India) November 1, 2022
چھاپے کی اس کارروائی کی مذمت کرنے والے دیگر مبصرین میں انڈین فریڈم فاؤنڈیشن کے اپار گپتا نے کہا کہ’صحافتی اخلاقیات کی کسی بھی خلاف ورزی کے لیے مجرمانہ قانونی کارروائی نامناسب ہے…
وہیں دوسرے لوگ ، جن میں اپوزیشن لیڈر اور صحافی شامل ہیں ، نے اس سلسلے میں آزادی صحافت کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں سے کچھ ٹوئٹ ذیل میں ہیں۔
The registration of a criminal case and now the use of coercive police searches on the houses of the editors of The Wire deserves wide and unequivocal condemnation. Criminal prosecution is disproportionate to any breach of journalistic ethics or even law in the facts.
— Apar (@apar1984) October 31, 2022
The Delhi Police is raiding @svaradarajan & @mkvenu1 of @thewire_in on BJP IT cell chief FIR on a story that Wire had done about Facebook Censorship of posts flagged by Amit Malviya. There is absolutely no basis for this FIR & the raids are totally malafide; to harass indep media
— Prashant Bhushan (@pbhushan1) October 31, 2022
Is this a Police State? Just because the BJP Media Chief has complained against @svaradarajan @mkvenu1 @jahnavi_sen of The Wire @thewire_in, Delhi police raid their houses! This is attack not only on upright journalism — very rare to find now — but to terrorise dissent. Shame!
— Jawhar Sircar (@jawharsircar) October 31, 2022
Apart from the homes of the editors of the Wire, Delhi police also raided the office of the publication. The raid started at 4pm and just concluded. Around 25 cops were involved and The Wire's lawyer was not allowed to enter, according to sources at the outlet. https://t.co/5xeZdcRsOp
— Kunal Majumder/ CPJ (@cpj_km) October 31, 2022
The Editors of the Wire, Sidharth Varadarajan and M K Venu are two to be proud of. They were misled into a story for which they have expressed regret. They deserve better than the midnight knock. We stand by them
— Salman Khurshid (@salman7khurshid) October 31, 2022
Given that The Wire (a) acknowledged the story was incorrect, (b) retracted it and (c) apologised, criminal action is unwarranted. If anything we should be all praise for The Wire for acknowledging a mistake in a world where people don’t retract fake news even after fact-checks. https://t.co/d0HgYxpXd9
— Shivam Vij (@DilliDurAst) October 31, 2022
so it starts, between what transpired and what it has provoked is a gap so large, but it will remain invisible to our institutions who avert their gaze from the truth https://t.co/mDYBJFESbe
— Hartosh Singh Bal (@HartoshSinghBal) November 1, 2022