سدرشن نیوز کے سریش چوہانکے نے ایک نیا تنازعہ اس وقت کھڑا کردیا، جب ہفتہ روزقبل سوشل میڈیا پر 10 امیدواروں کی فہرست وائرل ہوئی۔ اس فہرست میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں کے نام تھے،جنہیں پون ہنس لمیٹڈ کمپنی کے اپرنٹس شپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ سب مسلمان ہیں۔ چینل کا الزام ہے کہ ہندوؤں کو سرکاری اداروں کی جانب سے نوکریوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔
دائیں بازو کے چینل سدرشن نیوز کے ایڈیٹر سریش چوہانکے نے 15 اپریل 2022 کو ایک بار پھر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں مجرمانہ سازش میں ملوث قرار دیا اور اسے ‘نوکری جہاد’ کا نام دیا۔
چوہانکے نے یہ نیا تنازعہ اس وقت کھڑا کیا، جب ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر 10 امیدواروں کی فہرست وائرل ہوئی۔ اس فہرست میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم تھے جنہیں پون ہنس لمیٹڈ کمپنی کے اپرنٹس شپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور یہ تمام امیدوار مسلمان ہیں۔
یہ الزام لگایا گیا کہ سرکاری اداروں کی طرف سے ہندوؤں کو نوکریوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔
چوہانکے نے کہا کہ، پون ہنس میں مسلمانوں کو 100 فیصد غیر اعلانیہ ریزرویشن کا فائدہ مل رہا ہے۔
واضح ہو کہ ‘نوکری جہاد’ دائیں بازو کے دھڑوں کی جانب سے مبینہ طور پرایک من گھڑت اصطلاح ہے، جس میں ہندوؤں کے روزگار کے ساتھ سازش کر کے مسلمانوں کو نوکریوں میں ترجیح دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
पवन हंस नहीं हलाल हंस!ये भी बहुत बड़ी साजिश है हिन्दूओं के विरुद्ध! @SureshChavhanke pic.twitter.com/JAU41kOoCg
— Sagar Kumar “Sudarshan News” (@KumaarSaagar) April 15, 2022
دہلی فسادات کے دوران موج پور میں ہندوتوا ہجوم کی قیادت کرنے والی اور پتھراؤ کرتے ویڈیو میں قید ہوئی راگنی تیواری کی قیادت میں گزشتہ دنوں دہلی میں پون ہنس کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
سریش چوہانکے نے سدرشن چینل پر اپنے ‘نوکری جہاد’ شو کے ٹیزر میں پوچھا، کیا کوئی سرکاری کمپنی صرف مسلمانوں کو ملازمت دے سکتی ہے؟ کیا پون ہنس میں مسلمانوں کے لیے 100 فیصدی ریزرویشن ہے؟
ٹیزر میں اس کے بعد کے مناظر میں تیواری اور دیگر کو پون ہنس کے دفتر کے گیٹ پر چڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ چوہانکے انہیں ‘شیرنیاں’ اور ‘باگھن’ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔
تیواری اور دیگر کو گیٹ پر مسلمانوں اور جامعہ کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تیواری کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘پیسہ شری رام کا ہے اور فائدہ چسلام کا ‘۔
पवन हंस के मुख्यालय पर हिंदुओं का प्रदर्शन लगातार जारी। मुसलमानों को 100% अघोषित आरक्षण देने से विवादों में घिरी है सरकारी कंपनी। @PawanHansLtd @JM_Scindia @Gen_VKSingh #BindasBol 8pm Live pic.twitter.com/1nTeiV7Q0w
— Suresh Chavhanke “Sudarshan News” (@SureshChavhanke) April 16, 2022
ان کے لائیو ویڈیو میں ایک اور شخص کہتا ہے، مودی اور یوگی کی مخالفت کرنے والے جامعہ کے دہشت گردوں کو روزگار کیوں دیں؟ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مسلمانوں کو باہرنکالا جائے اور ہندوؤں کو روزگار ملے؟
دی وائر نے سدرشن اور ہندوتوا مظاہرین کے دعووں کی چھان بین کی اور انہیں جھوٹا پایا۔
دی وائر کو ملے دستاویزوں کے مطابق، جامعہ ملیہ نے پون ہنس کے ساتھ شراکت میں ایروناٹکس کورس میں بیچلر آف سائنس کی شروعات کی تھی۔ اس کورس میں دو بیچ (ایویونکس اور میکینکل) میں کل 60 طالبعلم ہیں، جنہیں دونوں کورسز میں تیس-تیس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
یہ ایک سیلف فنانسنگ کورس ہے، جس کی سالانہ فیس 1.3 لاکھ روپے ہے، جس میں سے صرف 30 فیصد یونیورسٹی اور باقی پون ہنس کو جاتا ہے۔
सरकारी कंपनी में सिर्फ मुस्लिमों को ही नौकरी क्यों?@PawanHansLtd में मुस्लिमों को 100% आरक्षण ?#नौकरी_जिहाद के विरुद्ध पवन हंस मुख्यालय पर हिंदू वीरांगनाओ का हल्ला बोल…
देखिए #BindasBol शनिवार रात 8 बजे @SureshChavhanke जी के साथ pic.twitter.com/Lm5kFGmCDX
— Sudarshan News (@SudarshanNewsTV) April 15, 2022
ایک امیدوار نے دی وائر کو بتایا کہ سلیکشن کا پیرامیٹر چھ سمیسٹروں میں کسی امیدوار کے مجموعی نمبروں کے جوڑاور امیدوار کے ذریعےپاس کیے گئے ڈی جی سی اے (ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن) ماڈیول کی تعداد پر مبنی ہے۔ اس سال انٹرویو کے لیے کل 30 طالبعلموں کا انتخاب کیا گیا۔
دی وائر کو پتہ چلاہے کہ ان 30 طالبعلموں میں سے چار (دو مسلمان اور دو ہندو) ذاتی وجوہات کی بنا پر پیچھے ہٹ گئے۔ باقی 26 امیدواروں میں سے 10 امیدواروں (ہر بیچ سے پانچ) کا انتخاب کیا گیا۔ بعد ازاں انٹرویو میں کامیاب ہونے والے ایک مسلمان طالبعلم نے بھی ذاتی وجوہات کی بنا پر شرکت نہیں کی۔
دی وائر نے ایویونکس برانچ کے دو ہندو امیدواروں سے اس تنازعہ پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی۔
ان امیدواروں میں سے ایک شبھ سولنکی نے بتایا، میرے دوست دیپت گوئل اور میں ہمارے بیچ کے ٹاپرز میں سے ایک ہیں۔ ہم ذاتی وجوہات کی بنا پر اس سے باہر نکل گئے۔ میں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہا ہوں۔ انتخابی عمل پورے طور پر شفاف اور میرٹ پر مبنی تھا۔ اقلیتی ادارہ ہونے کی وجہ سے فطری طور پر یہاں مسلم طالبعلموں کی تعداد زیادہ ہے۔ جامعہ میں ایک ہندو طالبعلم کی حیثیت سے مجھے کسی بھی طور پرامتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا، میرے تمام دوست مسلمان ہیں۔
غیر واضح انتخابی عمل
دی وائر نے ایک اور امیدوار انش اگروال سے رابطہ کیا، جنہوں نے کہا کہ انہیں انتخاب کے طریقہ کار سے دقت تھی، لیکن یہ فرقہ پرستی سے کوسوں دور ہے۔ انش نے کہا، ایک طالبعلم کے طور پر میرا مسئلہ سلیکشن کے پیرامیٹر سے ہے۔ میں سلیکشن کے مختلف پیرامیٹرز کو دیے گئے ویٹیج کوجاننا چاہتا ہوں اور کیا طالبعلموں کو مختلف برانچوں سے منتخب کیا گیا۔
انش نے کہا، عام طور پر نمبروں کے مقابلے ماڈیول کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے، لیکن کورونا کی وجہ سے ہم نے اصرار کیا کہ سی جی پی اے کو بھی ویٹیج دیا جائے۔ خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن ہے لیکن ہمیں نہیں پتہ کہ کیا ریزرویشن کے لیے دونوں برانچوں (ایویونکس اور میکینکل) کو ایک ساتھ جوڑا گیا یا نہیں۔ اس طرح یہ انتخابی عمل واضح نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا، اس کی وجہ سے مسلمان اور ہندو دونوں طالبعلموں کو – جنہوں نے ماڈیول یا سی جی پی اے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا – انہیں اس کانقصان اٹھانا پڑا۔ اس کو فرقہ وارانہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور میں اسے نیوز چینل کی طرح سنسنی خیز بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جن کو منتخب نہیں کیا گیا، ان کے ساتھ غلط کیا ہوا۔
ایک اور طالبعلم نے دی وائر کو بتایا کہ چونکہ یہ ایک پریکٹیکل کورس تھا، اس لیے زیادہ زور طالبعلموں کے ذریعے پاس کیے گئے ماڈیول پر تھا ۔ ایک اور طالبعلم نےنام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک پون ہنس نے کل 38 امیدواروں کا انتخاب کیا ہے جن میں صرف 13 مسلمان ہیں۔
دی وائر نے چنے گئے تمام امیدواروں کی فہرست مرتب کی اور اس بات کی تصدیق کی۔
ایک امیدوار نے کہا کہ یہ انتخاب غیر منصفانہ کیسےہو سکتا ہے جبکہ پورے پینل میں غیر مسلم ہی تھے اور پیرامیٹر میرٹ پر مبنی تھا۔ یہ تنازعہ یونیورسٹی کے دیگر امیدواروں (مسلم اور ہندو دونوں) کے روزگار کو متاثر کرے گا۔
دی وائر کو ملی جانکاری کے مطابق، پون ہنس نے ممبئی یونیورسٹی کے ساتھ بھی ایسی ہی شراکت داری کی ہے۔ اس سال وہاں سے کل 15 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا اور ان میں صرف تین مسلمان تھے۔
بتادیں کہ 16 اپریل 2022 کو چوہانکے نے ‘نوکری جہاد’ کے نام سے ایک شو کی میزبانی کی تھی۔ اس پروگرام کا ٹیزر 15 اپریل کو جاری کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے جامعہ پر بے بنیاد الزامات لگائے تھے۔
ایک پینلسٹ نے ‘تشویش’ کا اظہار کیا کہ ایوی ایشن میں مسلمانوں کا داخلہ ہندوستان کے لیے ‘خطرناک’ ہے۔
انہوں نے کہا، جامعہ کوئی ادارہ نہیں بلکہ ایک تنظیم ہے۔ یہ غلط وجوہات سے خبروں میں رہتا ہے… ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ ہمارے سی ڈی ایس جنرل بپن راوت کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ تحقیقات جاری ہے، صاف نظرآرہا تھا کہ ان کا اشارہ مسلمانوں کو اس کے لیے نشانہ بنانا تھا۔
بتا دیں کہ دسمبر 2021 کو ہیلی کاپٹر حادثے میں جنرل بپن راوت کی موت ہو گئی تھی۔ سرکاری تحقیقات میں پتہ چلا کہ حادثہ موسم کی اچانک تبدیلی کے باعث پائلٹ کے بھٹکنے کی وجہ سے پیش آیا تھا۔
مسلمانوں کے روزگار پر حملہ
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سریش چوہانکے یا راگنی تیواری نے روزگار کے مواقع پر اس طرح کا تنازعہ کھڑا کیا ہو۔
In March 2020, Chavhanke led a protest at India Gate calling for the “economic boycott of rioters” in which, along with Tiwari and Vinod Sharma, a key accused in the Jantar Mantar hate speech case, he described Muslims as “untrustworthy” and called upon Hindus to boycott businesses dominated by Muslims.
“If you want to stop them from slitting your throat, then you have to stop donating your money to their ‘green chadar’ now,” Chavhanke said on his channel, when he had organised the protests in the first week of March.
In June 2021, The Wire covered violence and boycott campaigns against fruit vendors in West Delhi.
مارچ 2020 میں انڈیا گیٹ پر چوہانکے کی قیادت میں ایک مظاہرہ ہوا تھا، جس میں ‘فسادیوں کے معاشی بائیکاٹ’ کی اپیل کی گئی تھی۔
اس دوران تیواری اور جنتر منتر ہیٹ اسپیچ معاملے کے کلیدی ملزم ونود شرما نے مسلمانوں کو ناقابل اعتماد قرار دیا تھا اور ہندوؤں سے کہا تھا کہ وہ مسلم اکثریتی کاروبار کا بائیکاٹ کریں۔
چوہانکے نے مارچ کے پہلے ہفتے میں ایک احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے چینل پر کہا تھا، اگر آپ انہیں اپنا گلا کاٹنے سے روکنا چاہتے ہیں تو آپ کو ان کی ہری چادر پر پیسے دینا بند کرنا ہو گا۔
اسی طرح جون 2021 میں دی وائر نے مغربی دہلی میں پھل فروشوں کے خلاف تشدد اور ان کے بائیکاٹ کی مہم کے بارے میں بتایا تھا۔
مسلمانوں کے خلاف اکثرنفرت پھیلانے کے ملزم سدرشن نیوز چینل نے اتم نگر احتجاج کے معاملے کو انتہائی اشتعال انگیز انداز میں رپورٹ کیا تھا۔
اس پورے شو کے دوران سدرشن کے رپورٹر ساگر کمار اور اینکر شبھم ترپاٹھی مسلمانوں کو ‘جہادی’ کہتے رہے اور ان کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرتے رہے۔
شبھم نے شو میں کہا، پہلی بار ہندو اتنے جارحانہ انداز میں اتم نگر میں جہادیوں کے خلاف لاٹھیاں لے کر آگے آئے ہیں۔
اس دوران ساگر کمار نے کہا، آج اتم نگر میں ہنومان چالیسہ پڑھی جائے گی اور جہادیوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی جائے گی۔ سدرشن نیوز ایک عرصے سے جہادیوں کے بائیکاٹ کی وکالت کر رہا ہے۔
क्या शाहरुख़ ने लता दीदी पर थूका हैं? देखे बिंदास बोल @SureshChavhanke ji के साथ। pic.twitter.com/qbmvWx2EnB
— Sudarshan News (@SudarshanNewsTV) February 6, 2022
سدرشن نیوز کے کالم نگار ابھے پرتاپ نے لکھا، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے اکثرمسلم دکاندار روہنگیا ہیں، جنہوں نے پہلے بھی جرم کیے ہیں۔
چوہانکے نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ‘یو پی ایس سی جہاد‘ کے نام سے ایک سیریز بھی کی تھی ، جس میں مسلمانوں پر ہندوستانی نوکرشاہی پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامہ میں مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے کہا تھا کہ انہوں نے سدرشن نیوز کو مستقبل میں محتاط رہنے کی وارننگ دی تھی۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ سدرشن نے وزارت کی اس تجویز کو نظر انداز کر دیا۔
حال ہی میں سدرشن نیوز کی رپورٹر شیوانی ٹھاکر کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، جس میں انہیں ہلدی رام کے ایک آؤٹ لیٹ پر وہاں کی ایک ملازمہ کے ساتھ الجھتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ نوراتری کے دوران ہلدی رام کے پیکٹوں پر مبینہ طور پر اُردو کا استعمال کرکے ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگا رہی تھی لیکن درحقیقت ان پیکٹوں پر عربی اور انگریزی زبان میں بین الاقوامی برآمدی ضابطوں کی تعمیل کی شرائط لکھی تھیں۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)