نوکری کے لیے منتخب 38 میں سے 13 امیدوار مسلمان، سدرشن نیوز نے چھیڑا ’نوکری جہاد‘ کا راگ

سدرشن نیوز کے سریش چوہانکے نے ایک نیا تنازعہ اس وقت کھڑا کردیا، جب ہفتہ روزقبل سوشل میڈیا پر 10 امیدواروں کی فہرست وائرل ہوئی۔ اس فہرست میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں کے نام تھے،جنہیں پون ہنس لمیٹڈ کمپنی کے اپرنٹس شپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ سب مسلمان ہیں۔ چینل کا الزام ہے کہ ہندوؤں کو سرکاری اداروں کی جانب سے نوکریوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔

سدرشن نیوز کے سریش چوہانکے نے ایک نیا تنازعہ اس وقت کھڑا کردیا، جب  ہفتہ روزقبل سوشل میڈیا پر  10  امیدواروں کی فہرست وائرل ہوئی۔ اس فہرست میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں کے نام تھے،جنہیں پون ہنس لمیٹڈ کمپنی کے اپرنٹس شپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ سب مسلمان ہیں۔ چینل کا الزام ہے کہ ہندوؤں کو سرکاری اداروں کی جانب سے نوکریوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔

(کلاک وائز) پون ہنس کے دفتر میں سدرشن نیوز کی نامہ نگار، پون ہنس کے دفتر کے گیٹ پر چڑھتے رائٹسٹ، مظاہرہ کے دوران راگنی تیواری، سریش چوہانکے۔

(کلاک وائز) پون ہنس کے دفتر میں سدرشن نیوز کی نامہ نگار، پون ہنس کے دفتر کے گیٹ پر چڑھتے رائٹسٹ، مظاہرہ کے دوران راگنی تیواری، سریش چوہانکے۔

دائیں بازو کے چینل سدرشن نیوز کے ایڈیٹر سریش چوہانکے نے 15 اپریل 2022 کو ایک بار پھر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں مجرمانہ سازش میں ملوث قرار دیا اور اسے ‘نوکری جہاد’ کا نام دیا۔

چوہانکے نے یہ نیا تنازعہ اس وقت کھڑا کیا، جب ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر 10 امیدواروں کی فہرست وائرل ہوئی۔ اس فہرست میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم تھے جنہیں پون ہنس لمیٹڈ کمپنی کے اپرنٹس شپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور یہ تمام امیدوار مسلمان ہیں۔

یہ الزام لگایا گیا  کہ سرکاری اداروں کی طرف سے ہندوؤں کو نوکریوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔

چوہانکے نے کہا کہ، پون ہنس میں مسلمانوں کو 100 فیصد غیر اعلانیہ ریزرویشن کا فائدہ مل رہا ہے۔

واضح ہو کہ ‘نوکری جہاد’ دائیں بازو کے دھڑوں کی جانب سے مبینہ طور پرایک من گھڑت اصطلاح  ہے، جس میں  ہندوؤں کے روزگار کے ساتھ سازش کر کے مسلمانوں کو نوکریوں میں ترجیح دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

دہلی فسادات کے دوران موج پور میں ہندوتوا ہجوم کی قیادت کرنے والی اور پتھراؤ کرتے  ویڈیو میں قید ہوئی راگنی تیواری کی قیادت میں گزشتہ دنوں دہلی میں پون ہنس کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

سریش چوہانکے نے سدرشن چینل پر اپنے ‘نوکری جہاد’ شو کے ٹیزر میں پوچھا، کیا کوئی سرکاری کمپنی صرف مسلمانوں کو ملازمت دے سکتی ہے؟ کیا پون ہنس میں مسلمانوں کے لیے 100 فیصدی ریزرویشن ہے؟

ٹیزر میں اس کے بعد کے مناظر میں تیواری اور دیگر کو پون ہنس کے دفتر کے گیٹ پر چڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ چوہانکے انہیں ‘شیرنیاں’ اور ‘باگھن’ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔

تیواری اور دیگر کو گیٹ پر مسلمانوں اور جامعہ کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تیواری کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘پیسہ شری رام کا ہے اور فائدہ چسلام کا ‘۔

ان کے لائیو ویڈیو میں ایک اور شخص کہتا ہے، مودی اور یوگی کی مخالفت کرنے والے جامعہ کے دہشت گردوں کو روزگار کیوں دیں؟ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مسلمانوں کو باہرنکالا جائے اور ہندوؤں کو روزگار ملے؟

دی وائر نے سدرشن اور ہندوتوا مظاہرین کے دعووں کی چھان بین کی اور انہیں جھوٹا پایا۔

دی وائر کو ملے دستاویزوں کے مطابق، جامعہ ملیہ نے پون ہنس کے ساتھ شراکت میں ایروناٹکس کورس میں بیچلر آف سائنس کی شروعات کی تھی۔ اس کورس میں دو بیچ (ایویونکس اور میکینکل) میں کل 60 طالبعلم ہیں، جنہیں دونوں کورسز میں تیس-تیس میں تقسیم کیا گیا ہے۔

یہ ایک سیلف فنانسنگ کورس ہے، جس کی سالانہ فیس 1.3 لاکھ روپے ہے، جس میں سے صرف  30 فیصد یونیورسٹی اور باقی پون ہنس کو جاتا ہے۔

ایک امیدوار نے دی وائر کو بتایا کہ سلیکشن کا پیرامیٹر  چھ سمیسٹروں  میں کسی امیدوار کے مجموعی نمبروں کے جوڑاور امیدوار کے ذریعےپاس کیے گئے ڈی جی سی اے  (ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن)  ماڈیول کی تعداد پر مبنی ہے۔ اس سال انٹرویو کے لیے کل 30 طالبعلموں کا انتخاب کیا گیا۔

دی وائر کو پتہ چلاہے کہ ان 30 طالبعلموں میں سے چار (دو مسلمان اور دو ہندو) ذاتی وجوہات کی بنا پر پیچھے ہٹ گئے۔ باقی 26 امیدواروں میں سے 10 امیدواروں (ہر بیچ سے پانچ) کا انتخاب کیا گیا۔ بعد ازاں انٹرویو میں کامیاب ہونے والے ایک مسلمان طالبعلم نے بھی ذاتی وجوہات کی بنا پر شرکت نہیں کی۔

دی وائر نے ایویونکس برانچ کے دو ہندو امیدواروں سے اس تنازعہ پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی۔

ان امیدواروں میں سے ایک شبھ سولنکی نے بتایا، میرے دوست دیپت گوئل اور میں ہمارے بیچ کے ٹاپرز میں سے ایک ہیں۔ ہم ذاتی وجوہات کی بنا پر اس سے باہر نکل گئے۔ میں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہا ہوں۔ انتخابی عمل پورے طور پر شفاف اور میرٹ پر مبنی تھا۔ اقلیتی ادارہ ہونے کی وجہ سے فطری طور پر یہاں مسلم طالبعلموں کی تعداد زیادہ ہے۔ جامعہ میں ایک ہندو طالبعلم کی حیثیت سے مجھے کسی بھی طور پرامتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا، میرے تمام دوست مسلمان ہیں۔

غیر واضح انتخابی عمل

دی وائر نے ایک اور امیدوار انش اگروال سے رابطہ کیا، جنہوں نے کہا کہ انہیں انتخاب کے طریقہ کار سے دقت تھی، لیکن یہ فرقہ پرستی سے کوسوں دور ہے۔ انش نے کہا، ایک طالبعلم کے طور پر میرا مسئلہ سلیکشن کے پیرامیٹر سے ہے۔ میں سلیکشن کے مختلف پیرامیٹرز کو دیے گئے ویٹیج کوجاننا چاہتا ہوں اور کیا طالبعلموں کو مختلف برانچوں سے منتخب کیا گیا۔

انش نے کہا، عام طور پر نمبروں کے مقابلے ماڈیول کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے، لیکن کورونا کی وجہ سے ہم نے اصرار کیا کہ سی جی پی اے کو بھی ویٹیج دیا جائے۔ خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن ہے لیکن ہمیں نہیں پتہ کہ کیا ریزرویشن کے لیے دونوں برانچوں (ایویونکس اور میکینکل) کو ایک ساتھ جوڑا گیا یا نہیں۔ اس طرح یہ انتخابی عمل واضح نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا، اس کی وجہ سے مسلمان  اور ہندو دونوں طالبعلموں کو – جنہوں نے ماڈیول یا سی جی پی اے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا – انہیں اس  کانقصان اٹھانا پڑا۔ اس کو فرقہ وارانہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور میں اسے نیوز چینل کی طرح سنسنی خیز بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جن  کو منتخب نہیں کیا گیا، ان کے ساتھ غلط کیا ہوا۔

ایک اور طالبعلم نے دی وائر کو بتایا کہ چونکہ یہ ایک پریکٹیکل کورس تھا، اس لیے زیادہ زور طالبعلموں کے ذریعے پاس کیے گئے ماڈیول پر تھا ۔ ایک اور طالبعلم نےنام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک پون ہنس نے کل 38 امیدواروں کا انتخاب کیا ہے جن میں  صرف  13 مسلمان ہیں۔

دی وائر نے چنے گئے تمام امیدواروں کی فہرست مرتب کی اور اس بات کی تصدیق کی۔

ایک امیدوار نے کہا کہ یہ انتخاب غیر منصفانہ کیسےہو سکتا ہے جبکہ پورے پینل میں غیر مسلم ہی تھے اور پیرامیٹر میرٹ پر مبنی تھا۔ یہ تنازعہ یونیورسٹی کے دیگر امیدواروں (مسلم اور ہندو دونوں) کے روزگار کو متاثر کرے گا۔

دی وائر کو ملی جانکاری کے مطابق، پون ہنس نے ممبئی یونیورسٹی کے ساتھ بھی ایسی ہی شراکت داری کی ہے۔ اس سال وہاں سے کل 15 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا اور ان میں  صرف تین مسلمان تھے۔

بتادیں کہ 16 اپریل 2022 کو چوہانکے نے ‘نوکری جہاد’ کے نام سے ایک شو کی میزبانی کی تھی۔ اس پروگرام کا ٹیزر 15 اپریل کو جاری کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے جامعہ پر بے بنیاد الزامات لگائے تھے۔

ایک پینلسٹ نے ‘تشویش’ کا اظہار کیا کہ ایوی ایشن میں مسلمانوں کا داخلہ ہندوستان کے لیے ‘خطرناک’ ہے۔

انہوں نے کہا، جامعہ کوئی  ادارہ نہیں بلکہ ایک تنظیم ہے۔ یہ غلط وجوہات سے خبروں میں رہتا ہے… ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ ہمارے سی ڈی ایس جنرل بپن راوت کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ تحقیقات جاری ہے، صاف نظرآرہا تھا کہ ان کا اشارہ مسلمانوں کو اس کے لیے نشانہ بنانا تھا۔

بتا دیں کہ دسمبر 2021 کو ہیلی کاپٹر حادثے میں جنرل بپن راوت کی موت ہو گئی تھی۔ سرکاری تحقیقات میں پتہ چلا کہ حادثہ موسم کی اچانک تبدیلی کے باعث پائلٹ کے بھٹکنے کی وجہ سے پیش آیا تھا۔

مسلمانوں کے روزگار پر حملہ

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سریش چوہانکے یا راگنی تیواری نے روزگار کے مواقع پر اس طرح کا تنازعہ کھڑا کیا ہو۔

In March 2020, Chavhanke led a protest at India Gate calling for the “economic boycott of rioters” in which, along with Tiwari and Vinod Sharma, a key accused in the Jantar Mantar hate speech case, he described Muslims as “untrustworthy” and called upon Hindus to boycott businesses dominated by Muslims.

“If you want to stop them from slitting your throat, then you have to stop donating your money to their ‘green chadar’ now,” Chavhanke said on his channel, when he had organised the protests in the first week of March.

In June 2021, The Wire covered violence and boycott campaigns against fruit vendors in West Delhi.

مارچ 2020 میں انڈیا گیٹ پر چوہانکے کی قیادت میں ایک مظاہرہ ہوا تھا، جس میں ‘فسادیوں کے معاشی بائیکاٹ’ کی اپیل  کی گئی تھی۔

اس دوران تیواری اور جنتر منتر ہیٹ اسپیچ معاملے کے کلیدی ملزم ونود شرما نے مسلمانوں کو ناقابل اعتماد قرار دیا تھا اور ہندوؤں سے کہا تھا کہ وہ مسلم اکثریتی کاروبار کا بائیکاٹ کریں۔

چوہانکے نے مارچ کے پہلے ہفتے میں ایک احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے چینل پر کہا تھا، اگر آپ انہیں اپنا گلا کاٹنے سے روکنا چاہتے ہیں تو آپ کو ان کی ہری چادر پر پیسے دینا بند کرنا ہو گا۔

اسی طرح جون 2021 میں دی وائر نے مغربی دہلی میں پھل فروشوں کے خلاف تشدد اور ان کے بائیکاٹ کی مہم کے بارے میں بتایا تھا۔

مسلمانوں کے خلاف اکثرنفرت پھیلانے کے ملزم سدرشن نیوز چینل نے اتم نگر احتجاج کے معاملے کو انتہائی اشتعال انگیز انداز میں رپورٹ کیا تھا۔

اس پورے شو کے دوران سدرشن کے رپورٹر ساگر کمار اور اینکر شبھم ترپاٹھی مسلمانوں کو ‘جہادی’ کہتے رہے اور ان کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرتے رہے۔

شبھم نے شو میں کہا، پہلی بار ہندو اتنے جارحانہ انداز میں اتم نگر میں جہادیوں کے خلاف لاٹھیاں لے کر آگے آئے ہیں۔

اس دوران ساگر کمار نے کہا، آج اتم نگر میں ہنومان چالیسہ پڑھی جائے گی اور جہادیوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی جائے گی۔ سدرشن نیوز ایک عرصے سے جہادیوں کے بائیکاٹ کی وکالت کر رہا ہے۔

سدرشن نیوز کے کالم نگار ابھے پرتاپ نے لکھا، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے اکثرمسلم دکاندار  روہنگیا ہیں، جنہوں نے پہلے  بھی جرم کیے ہیں۔

چوہانکے نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ‘یو پی ایس سی جہاد‘ کے نام سے  ایک سیریز بھی کی تھی ، جس میں مسلمانوں پر ہندوستانی نوکرشاہی پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامہ میں مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے کہا تھا کہ انہوں نے سدرشن نیوز کو مستقبل میں محتاط رہنے کی وارننگ دی تھی۔

تاہم ایسا لگتا ہے کہ سدرشن نے  وزارت کی اس تجویز کو نظر انداز کر دیا۔

حال ہی میں سدرشن نیوز کی رپورٹر شیوانی ٹھاکر کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، جس میں انہیں ہلدی رام کے ایک آؤٹ لیٹ پر وہاں کی  ایک ملازمہ کے ساتھ الجھتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ نوراتری کے دوران ہلدی رام کے پیکٹوں پر مبینہ طور پر اُردو  کا استعمال کرکے ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگا رہی تھی لیکن درحقیقت ان پیکٹوں پر عربی اور انگریزی زبان میں بین الاقوامی برآمدی ضابطوں کی تعمیل کی شرائط  لکھی تھیں۔

(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)

Next Article

میں نے جو دیکھا اس پر یقین نہیں کر پایا، بس بھاگنے لگا: ایئر انڈیا حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس نے بتایا

احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 کے واحد زندہ بچ جانے والے 40 سالہ وشواس کمار رمیش نے بتایا کہ ٹیک آف کے 30 سیکنڈ بعد ایک تیز آواز آئی اور پھر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔

12 جون 2025 کو احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارے حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس کمار رمیش۔ (تصویر: سوشل میڈیا / پی ٹی آئی)

احمد آباد: ٹیک آف سے پہلے 40 سالہ وشواس کمار رمیش کی احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز میں کچھ بھی عجیب نہیں  لگ رہاتھا۔ لیکن جیسے ہی جہاز کے پہیے زمین سے اوپراُٹھے سب کچھ بدل گیا۔ اگلے 30 سیکنڈ کے اندر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔

جمعرات (12 جون) کو پیش آنے والے اس سانحے میں بہت سے لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور وائبس آف انڈیا ابھی تک مرنے والوں کی صحیح تعداد کا انتظار کر رہا ہے، لیکن اس دن کا واحد مثبت پہلو یہ تھا کہ رمیش کو آگ کی لپٹوں سے گھرےبوئنگ 787-8 ڈریم لائنر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔

رمیش کو چوٹیں آئی ہیں۔ وہ فی الحال سول ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جہاں انہیں  ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے۔ وشواس نے کہا، ‘میں بھگوان میں یقین رکھتا ہوں… میں ابھی بھی اپنے بھائی کا انتظار کر رہا ہوں، جو میرے ساتھ سفر کر رہے تھے۔’

‘طیارہ ٹیک آف کرنے کے تیس سیکنڈ بعد ایک تیز آواز آئی اور پھر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ یہ سب بہت تیزی سے ہوا،’ 40 سالہ رمیش نے کہا، جو ایئر انڈیا کی پرواز 171 کے چند زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں – یا شاید واحد زندہ بچ جانے والے شخص ہیں -جو احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے سے جمعرات کی دوپہر تقریباً 1:38 بجے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گئی۔

طیارے میں عملے کے دس ارکان سمیت 242 افراد سوار تھے۔ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے اور کچھ لاشیں برآمد ہونا باقی ہیں۔ سٹی پولیس چیف جی ایس ملک نے تصدیق کی ہے کہ 204 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

طیارہ احمد آباد کے مصروف علاقے میں گر کر تباہ ہوا، جس کااثر شہر کے میگھا نی نگر علاقے میں واقع بی جے میڈیکل کالج کیمپس پرہوا۔

میڈیکل کالج کے ہاسٹل کینٹین میں لنچ کررہے کم از کم پانچ میڈیکل طلباء کی موت ہو گئی۔وہیں  20 لوگوں کو سول اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جو جھلس کر زخمی ہوئے ہیں۔

اسپتال کے احاطے میں رہنے والے بہت سے لوگ، جو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے رشتہ دار ہیں، کی بھی ہلاکت کا خدشہ ہے۔

گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر وجئے روپانی بھی طیارے میں سوار افراد میں شامل تھے۔ مرکزی کابینہ کے ارکان نے اس حادثے میں ان کی موت کی تصدیق کی ہے ۔

طیارے میں 53 برطانوی شہری، سات پرتگالی شہری اور ایک کینیڈین شہری سوار تھے۔ باقی تمام ہندوستانی شہری تھے۔ مرنے والوں میں پائلٹ سمت سبھروال بھی شامل ہیں، جنہیں 8700  اڑان گھنٹے کا تجربہ تھا۔

چاروں طرف لاشیں تھیں

سیٹ 11اےپر بیٹھے برطانوی شہری رمیش اب سول ہسپتال کے جنرل وارڈ میں داخل ہیں۔ ان کے سینے، آنکھ اور ٹانگوں پر چوٹیں آئی ہیں؛ درحقیقت، جب انہیں  ایمبولینس سے ہسپتال لایا گیا تو وہ  پیدل ہی ہسپتال پہنچے تھے۔

رمیش کچھ دنوں کے لیے اپنے خاندان سے ملنے ہندوستان آئے تھے اور اپنے بھائی 45 سالہ اجئے کمار کے ساتھ برٹن واپس جا رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد جب وہ اٹھےتو انہوں نے اپنے اردگرد صرف لاشیں ہی دیکھیں۔

رمیش نے کہا، ‘میں نے جو دیکھا اس پر مجھے یقین نہیں ہوا۔ میں کھڑا ہوا اور بھاگنے لگا۔ میرے چاروں طرف ہوائی جہاز کے ٹکڑے پڑےتھے۔ کسی نے مجھے پکڑ لیااور ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔’ بتایا جاتا ہے کہ رمیش ہوائی جہاز کے ایمرجنسی دروازے سے کود کر باہر نکل گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ 20 سال سے لندن میں مقیم ہیں اور ان کی اہلیہ اور بچے بھی وہیں رہتے ہیں۔ رمیش نے کہا، ‘وہ ڈرے ہوئےتھے، لیکن اب انہیں پتہ  ہے کہ میں زندہ ہوں۔ میں ان تمام لوگوں کے لیے غمزدہ ہوں جو اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔’

اگرچہ دونوں بھائیوں نے اکٹھے بیٹھنے کی درخواست کی تھی، لیکن شدید رش اور آخری لمحات کی درخواست  کی وجہ سے انہیں الگ الگ بٹھایا گیا۔ رمیش سیٹ 11اے پر تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی اجئے ہوائی جہاز میں الگ بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم دیو گئے تھے۔ وہ میرے ساتھ سفر کر رہے تھے اور اب میں انہیں تلاش کرنے سے قاصر ہوں۔ براہ کرم انہیں ڈھونڈنے میں میری مدد کریں۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

یوپی حکومت نے ’لاء اینڈ آرڈر‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ایودھیا اور بارہ بنکی میں عرس پر روک لگائی

وشو ہندو پریشد کی شکایت کے بعد حکام نے امن و امان کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اتر پردیش کے ایودھیا اور بارہ بنکی میں دو سالانہ عرس کی تقریبات کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: اتر پردیش کے ایودھیا اور بارہ بنکی میں منعقد ہونے والی دو سالانہ عرس کی تقریبات کو حکام نے امن و امان کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے ۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ایودھیا کے خان پور مسودھا علاقے میں دادا میاں کی درگاہ پر ہونے والے عرس کو وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے دائر کرائی گئی شکایت کے بعد اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری جانب بارہ بنکی کے پھول پور علاقے میں سید شکیل بابا کے عرس سے متعلق تقریب کو ممکنہ بدامنی کے خدشات کے پیش نظر اجازت نہیں دی گئی۔

ایودھیا میں وی ایچ پی کے شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ یہ اجتماع ‘غازی بابا’ کے نام پر منعقد کیا جا رہا تھا – سید سالار مسعود کے حوالے سے – مسلم کمیونٹی کی طرف سے 11ویں صدی کے مشہور جنگجو سید سالار مسعود غازی کی یاد میں منعقد کیا جاتا تھا، جنہیں غزنوی حکمران محمود غزنوی کا بھتیجہ مانا جاتا ہے۔

ایودھیا کے سرکل آفیسر آشوتوش تیواری نے کہا کہ ’عرس دادا میاں‘ کے نام پر دی گئی اجازت کو یہ معلوم ہونے کے بعد رد کر دیا گیا ہے کہ یہ تقریب غازی بابا کے نام پر منعقد کی جا رہی تھی۔

دریں اثنا، بارہ بنکی میں عرس کے پروگرام کے بارے میں ایڈیشنل ایس پی وکاس ترپاٹھی نے کہا کہ ‘کچھ تنازعات سامنے آئے ہیں جو فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں’ جس کی وجہ سے انتظامیہ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

معلوم ہو کہ مارچ کے اوائل میں سنبھل میں پولیس نے سید سالار مسعود غازی کی یاد میں مسلم کمیونٹی کی طرف سے منعقد کیے جانے والے صدیوں پرانے میلے – نیجا میلہ پر پابندی لگا دی تھی۔ پولیس نے اس وقت سالانہ نیجا میلہ کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ کسی حملہ آور، لٹیرے اور قاتل کے اعزاز میں تقریب منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، بھلے یہ روایتی طور پر ہر سال منعقد کیا جاتا  رہا ہو۔

اسی طرح مئی میں بہرائچ میں سید سالار مسعود غازی کے مزار پر ہر سال لگنے والے صدیوں پرانے جیٹھ میلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔

پچھلی چند دہائیوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں نے غازی میاں کی کہانی کو موجودہ سیاست میں تھوپنے کی کوشش کی ہے اور انہیں ایک ولن کے طور پر پیش کیا ہے، جنہیں پسماندہ ذات کے ہندو جنگجو مہاراجہ سہیل دیو نے قتل کر دیا تھا، جنہیں آج راجبھر اور پاسی برادری اپنا آئیڈیل مانتی ہے۔

اتر پردیش اور مرکز میں حکومت بنانے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس کمیونٹی تک پہنچ بنانے کے لیےدیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ غازی کے مبینہ قاتل سہیل دیو کی ایک نئی یادگار تعمیر کی ہے، اور غازی پور سے دہلی تک چلنے والی ایک سپر فاسٹ ٹرین، ایک نئی یونیورسٹی کو ان کا نام دیا  ہوا ہےاور ان کے نام پر ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔

Next Article

آسام: فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان دھبری میں وزیراعلیٰ نے کیوں دیے ’شوٹ ایٹ سائٹ‘ کے آرڈر

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے جمعہ کو دھبری میں رات کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ 7 جون کو دھبری کے ہنومان مندر میں ایک جانور کا کٹا ہوا سر ملا تھا، جس کے بعد سے وہاں حالات کشیدہ ہیں۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے جمعہ کو دھبری کا دورہ کیا۔تصویر بہ شکریہ: ایکس

نئی دہلی: آسام حکومت نے دھبری شہر میں ایک مندر کے قریب فرقہ وارانہ واقعات کے بعد جمعہ کی رات  کودیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری  کیے ہیں۔ یہ فیصلہ عیدالاضحیٰ کے عین بعد ہنومان مندر کے پاس مبینہ طور پر مویشیوں کے سر رکھے جانے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تشدد کے پیش نظر لیا گیا ہے۔

کیا تھا معاملہ

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، پہلا واقعہ 7 جون کو بقرعید کے ایک دن بعد پیش آیا، جب دھبری کے ایک ہنومان مندر میں ایک گائے کا سر ملا ۔ اگرچہ ابتدائی طور پر ہندو اور مسلم دونوں برادریوں نے امن کی اپیل کی تھی، لیکن کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب اگلے دن اسی جگہ سے ایک اور مویشی کا سر ملا۔ مبینہ طور پر رات کے وقت پتھراؤ بھی کیا گیا، جس سے علاقے میں بدامنی میں مزید اضافہ ہوگیا۔

اس کے بعد امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) سمیت سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ ہفتے کے شروع میں امتناعی احکامات نافذ کیے گئے تھے اور بعد میں اٹھا لیے گئے تھے، لیکن صورتحال اب بھی غیر مستحکم ہے۔

شرما نے امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے دھبری کا دورہ کرنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا ،’معاملہ دونوں برادریوں کے رہنماؤں کی میٹنگ کے بعد سلجھ گیا تھا، لیکن اگلے دن اسی جگہ پر ایک اور گائے کا سر رکھ دیا گیا، جس سے کشیدگی بڑھ گئی۔’

وزیر اعلیٰ شرما نے کہا، ‘یہ واقعہ کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم مندروں اور مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔’ انہوں نے علاقے میں تشدد بھڑکانے اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کے لیے ایک ‘فرقہ وارانہ گروپ’ مورد الزام ٹھہرایا۔

چیف منسٹر نے مبینہ ‘بیف مافیا’ پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جس کے مطابق، عید سے قبل مغربی بنگال سے ہزاروں مویشیوں کو دھبری لایا گیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ دراندازی ایک نئے مجرمانہ نیٹ ورک نے کی ہے اور انہوں معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

وزیراعلیٰ کے الزامات

شرما نے مبینہ طور پر ‘نبین بنگلہ’ نامی تنظیم کے ذریعے لگائے گئے پوسٹروں کی جانب اشارہ کیا، جس میں دھبری کو بنگلہ دیش میں ضم کرنے کے اشتعال انگیز ایجنڈے کو بڑھاوا دیا  گیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انتہا پسند عناصر آن لائن اور زمینی سطح پرفرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دھبری کو بنگلہ دیش کا حصہ بنانے کی مہم کے ذریعے فرقہ وارانہ بدامنی کو ہوا دینے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔

شرما نے کہا، ‘میں نے رات میں دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اگر کوئی پتھر پھینکے اور پولیس کو ان کی نیت پر شک ہو تو وہ گولی مار دیں گے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود آئندہ عید کی تقریبات کے دوران دھبری میں سیکورٹی کی نگرانی کریں گے۔

انہوں نے کہا، ‘ہم کمیونٹی کے ایک حصے کو اس طرح کی گڑبڑی  پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہماری حکومت اسے برداشت نہیں کرے گی اور دھبری کو ہمارے ہاتھوں سے جانے نہیں دے گی۔’

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، چیف منسٹر نے ضلع میں تمام معروف مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں، جو ان کے بقول بنگلہ دیش میں ایک طویل عرصے سے بنیاد پرست قوتوں کے نشانے پرہیں۔

انہوں نے کہا، ‘وہ واقعات جن کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بنگلہ دیشی طاقتیں دھبری میں کام کر رہی ہیں۔’

معلوم ہو کہ  دھبری ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جن میں سے زیادہ تر بنگالی بولنے والے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ضلع کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ تقریباً 74فیصد ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد کے بعد 38 افراد کو گرفتار

خبر رساں ایجنسی  پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق  ، چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما نے سنیچر کو کہا کہ دھبری میں 38 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، ریاستی حکومت نے ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نوین سنگھ کا بھی تبادلہ کر دیا ہے اور ان کی جگہ ہیلاکنڈی کی ایس ایس پی لینا ڈولی کو مقرر کیا ہے۔

Next Article

کانگریس نے جس یو اے پی اے قانون کو پاس کیا تھا، اب اسی کے ’غلط استعمال‘ پر اٹھائے سوال

کانگریس نے مودی حکومت پر یو اے پی اے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے طلبہ، صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں پرتشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، اقتدار میں رہتے ہوئے کانگریس  نے ہی اس قانون کی بنیاد رکھی تھی اور اس میں سخت دفعات شامل کیےتھے۔

(السٹریشن : دی وائر)

نئی دہلی: کانگریس نے بدھ (11 جون) کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت نے اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کے لیے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

دی ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ اس قانون کو کانگریس ہی لے کر آئی تھی اور ان دفعات کو شامل کیا تھا، جنہیں وہ اب ‘سفاک’ اور ‘خطرناک طور پر غلط استعمال’ کا ہتھیار قرار دے رہی ہے۔

کانگریس لیڈر پون کھیرا نے ایکس پر لکھا،’مودی حکومت کے دور میں اختلافات کو دبانے اور انصاف میں تاخیر کے لیے قانون کے استعمال میں  اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے 2022 کے درمیان یو اے پی اےکے 8719 مقدمات میں سے صرف 2.55فیصد میں سزا سنائی گئی- جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال ناقدین، طالبعلموں، صحافیوں اور کارکنوں  کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی مجرم مان لینا، سوشل میڈیا اور میڈیا کی جانب سے فیصلہ کر دینا، اور سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں ہیبیس کارپس کی درخواستوں کو مسترد کر دینا- یہ سب نظام انصاف میں بحران کو شدید کررہے ہیں۔’

کھیڑا نے بھیما کورےگاؤں کیس، دہلی فسادات کی سازش، نیوز کلک پورٹل پر کارروائی اور صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاری جیسے معاملات کا ذکر کیا۔

کھیڑا نے جیل میں بند انسانی حقوق کے کارکن عمر خالد کے لکھے گئے ایک حالیہ خط کا لنک بھی شیئر کیا۔ عمر 2020 سے دہلی فسادات کی سازش کیس میں بغیر کسی ٹرائل کے جیل میں ہیں۔

کھیڑا نے لکھا، ‘دراصل، ان میں سے زیادہ تر مقدمات ان لوگوں کے خلاف انتقامی جذبے سے درج کیے گئے ہیں جو اس حکومت کو چیلنج کر رہے تھے۔ عدالتیں اس غلط استعمال کو بارہا بے نقاب کر چکی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ‘احتجاج دہشت گردی نہیں ہے’ اور اسی بنیاد پر دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف تنہا کو رہا کیا۔ سپریم کورٹ نے صحافی محمد زبیر اور ماحولیاتی کارکن دیشا روی کو رہا کر تے ہوئے گرفتاری پر تنقید کی اورکہا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے۔’

‘ہندوستان کی جمہوریت کی حفاظت پرامن اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن یواےپی اےجیسے قوانین کا خطرناک اور غلط استعمال بنیادی آزادی کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے، اور یہ آئین پر بی جے پی کے وسیع حملے کا حصہ ہے،’ انہوں نے مزید کہا۔

قابل ذکر ہے کہ یو اے پی اے کو پہلی بار کانگریس حکومت نے 1967 میں پاس کیا تھا۔ اسے 2004 میں مزید سخت کیا گیا تھا جب منموہن سنگھ حکومت نے اس میں پچھلے پوٹا قانون کی کئی دفعات شامل کی تھیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد یو پی اے حکومت نے کچھ دفعات شامل کیں جو ناقدین کے مطابق ‘من مانی گرفتاری’ کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ ان ترامیم کے تحت دفعہ 43ڈی (5) کے ذریعے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ۔

سال 2019 میں جب مودی حکومت نے لوگوں کو ‘دہشت گرد’ قرار دینے اور قانون کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے یواے پی اےمیں ترمیم کی تجویز پیش کی، تو کانگریس نے لوک سبھا میں اس کی مخالفت کی۔ لیکن اس نے راجیہ سبھا میں ان ترامیم کی حمایت کی، شاید اس کا مقصد پارٹی کی شبیہ کو انسداد دہشت گردی کے طور پر برقرار رکھنا تھا۔ اس حمایت نے کانگریس کے کچھ اتحادیوں کو ناراض بھی کر دیاتھا۔

اس کے بعد 2021 میں، جب بھیما کورےگاؤں کیس میں گرفتار قبائلی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی کی عدالتی حراست میں موت ہو گئی، تو کانگریس رہنما (بعد میں ایم پی) ششی کانت سینتھل نے پارٹی میگزین کانگریس سندیش میں ایک تعزیتی مضمون لکھا اور اسے ‘انسٹی ٹیوشنل مرڈر’ قرار دیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کانگریس اس وقت مہاراشٹر میں شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) کی حکومت میں شریک تھی، جب اسٹین سوامی کو پانی پینے کے لیے سیپر استعمال کرنے کی اجازت لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا تھا — وہ پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے۔

تاہم، کانگریس نے ادھو ٹھاکرے کے  کیس کو این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے حوالے کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

سینتھل نے لکھا، ‘حالیہ برسوں میں ہم نے یواے پی اےیا سیڈیشن جیسی دفعات کے تحت کئی گرفتاریاں دیکھی ہیں، جن کا مقصد احتجاج کی آوازوں کو دبانا یا سیاسی انتقام لینا تھا۔ ہر گرفتاری موجودہ حکومت کے نظریے کو بے نقاب کرتی ہے… اسٹین سوامی کی گرفتاری اور ادارہ جاتی قتل نے عام لوگوں کے ذہنوں میں تین اہم سوالوں کو گہرا کر دیا ۔’

انہوں نے تین مسائل درج کیے؛(الف) قبائلیوں کی حالت زار، (ب) ہندو راشٹر کے پوشیدہ ایجنڈے کو نافذ کرنے میں موجودہ حکومت کی سفاکیت (ج) ہمارے نظام انصاف کی قابل رحم حالت۔

جنوری 2023 میں جب منی پور میں دومدیر کو گرفتار کیا گیا، تو کانگریس نے یو اے پی اے کو’سفاک’ کہا۔

کھیڑا نے تب کہا تھا، ‘پریس کی آزادی کو کچلنے، صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانے اور یواے پی اے جیسے سخت قوانین کا غلط استعمال کرنے کا مودی حکومت کا ریکارڈ واضح طور پرآمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔’

Next Article

پنجاب کے صحافیوں پر خفیہ پولیس کی دستک، بے وجہ مانگی جا رہی نجی جانکاری

ان دنوں پنجاب پولیس آزاد صحافیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ ان سے تمام طرح کی ذاتی معلومات طلب کی جا رہی ہے۔ اس کے باعث صحافیوں میں غصہ ہے۔ ان کے مطابق یہ صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے۔

چنڈی گڑھ: پنجاب کے برنالہ ضلع کے کھڈّی گاؤں کے  صحافی گرپریت کو جب 6 جون کو اسٹیٹ انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے پولیس اسٹیشن بلایا تو انہیں ایک بارکو لگا کہ یہ کوئی عام سی کارروائی ہے۔ لیکن جب افسر نے گرپریت سے سوال پوچھنا شروع کیا تو انہیں تھوڑا شک ہوا۔

اس افسر نے گرپریت سے پوچھا؛


کہاں سےپڑھائی کی ہے؟

صحافت کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟ کس سال حاصل کی؟

زمین کتنی ہے، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات؟

کن کن ممالک کا دورہ کیا ہے؟ پاسپورٹ کی تفصیلات؟

کار کا رجسٹریشن نمبر کیا ہے؟

گھر والے کیا کرتے ہیں؟


افسر انتہائی ذاتی معلومات کے بارے میں تقریباً بیس سوال پوچھتا رہا اور گرپریت سہمے ہوئے جواب دیتے رہے۔ گرپریت گزشتہ 8 سال سے صحافت کر رہے ہیں اور گزشتہ 4 سالوں سے وہ ‘پنجابی نیوز کارنر’ کے نام سے اپنا ایک آزاد ویب چینل چلا رہے ہیں۔

گرپریت نے دی وائر کو بتایا، ‘یہ پہلا موقع تھا جب اس طرح سے میری ذاتی معلومات مانگی جا رہی تھیں۔ آدھار کارڈ نمبر، پاسپورٹ نمبر، خاندان میں کون کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ زمین کتنی ہے؟ ایسے کئی سوالات پوچھے گئے۔’


یہ صرف گرپریت ہی نہیں تھے، جن سے ریاستی انٹلی جنس محکمہ نے ذاتی تفصیلات طلب کی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران، پنجاب کے صحافیوں کو پریشان  کرنے والاپیٹرن سامنے آیا ہے، جس میں پنجاب کے مالوا علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ دیگر صحافیوں — منندرجیت سنگھ (لوک آواز)، سکھویندر سنگھ سدھو (لوک ناد)، منٹو گروسریا، سندیپ لادھوکا (اے بی سی پنجاب)، اور جسگریوال (آر ایم بی ٹیلی ویژن) — کی ذاتی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔


مالوا کے بٹھنڈہ ضلع سے اپنا آزاد چینل چلا رہے صحافی منندر سدھو کے دفتر پر 5 جون کو انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے دستک دی  اور چائے پینے کے بعد منندر پر ایسے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

منندر سدھو۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

منندر نے دی وائر کو بتایا، ‘جب انٹلی جنس والےنے مجھ سے سوال پوچھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ سسٹم (ریاست) کے پاس پہلے سے ہی ہماری بنیادی معلومات موجود ہیں، پھر اس کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن سوال جب پڑھائی-لکھائی کے سال ، زمین، پاسپورٹ نمبر تک پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ یہ نارمل نہیں ہے۔ آج تک پنجاب میں کسی حکومت نے صحافیوں کی اتنی ذاتی معلومات اکٹھی نہیں کیں۔’

منندر سنگھ گزشتہ چار سالوں سے ‘لوک آواز ٹی وی’ کے نام سے اپنا ویب چینل چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی رپورٹنگ کے لیے مالوا خطے میں کافی مقبول ہیں اور اس سے قبل بھی ریاستی حکومت کے نشانے پر رہے ہیں۔

اس سال فروری میں بھی ان کے خلاف عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے بلکار سنگھ سدھو کے پی اے کی شکایت پر بٹھنڈہ ضلع کے رام پورہ سٹی پولیس اسٹیشن میں بی این ایس کی دفعہ (4)(کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کی گئی جعلسازی) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 66ڈی کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی، لیکن ریاستی سطح پر ہوئے صحافیوں کے احتجاج کے دباؤ میں ایف آئی آر رد کر دی گئی تھی۔

منندر اس واقعے کو صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سی آئی ڈی نے ان صحافیوں کی معلومات اکٹھی کی ہیں جو نہ تو حکومت سے اشتہار لیتے ہیں اور نہ ہی ان  کے مطابق خبریں کرتے ہیں۔ یہ صرف ہم صحافیوں کو ڈرانے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم سب خاموش  بیٹھ جائیں ۔’

(مائیک تھامے ہوئے) منندر سنگھ سدھو، سکھویندر سدھو، منٹو گرسریا، (نیچے) جسگریوال، سندیپ لادھوکا، گرپریت سنگھ۔ (تصویر: ارینجمنٹ)

بھٹنڈہ سےہی ‘آر ایم بی ٹیلی ویژن’ نامی ویب چینل کے لیے صحافت کرنے والے جسگریوال سے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے  فون پر بات کی، جس میں ایسے ہی سوالات ان سے بھی پوچھے گئے۔ جسگریوال نے کہا، ‘مجھے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کی کال موصول ہونے سے پہلے ہی پتہ چل گیاتھا کہ وہ ہماری معلومات اکٹھا کرتے پھر رہے ہیں۔ دراصل،انہوں نے میرے گاؤں کے لوگوں سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تھی۔’

افسر نے جس کو دفتر آنے کو کہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ پوچھنا ہے، فون پر ہی پوچھ لیجیے۔ اس کے بعد افسر نے ان سے بھی کئی ذاتی سوال  پوچھے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب آر ایم بی ٹیلی ویژن اور اس کے صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہو۔ جس بتاتے ہیں، ‘اس سے پہلے بھی حکومت دو بار ہمارے ویب چینل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بند کر چکی ہے۔ ایک بار تو سال بھر کے لیے بند رکھا۔ 2022 کے انتخابات کے دوران بھی مجھے ان کی میڈیا پی آر والی میڈم کا فون آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے ملنے کو کہا لیکن میں نے منع  کر دیا تھا۔

اسی طرح صحافی سندیپ اور سکھویندر کو بھی فون کرکے ان کی تمام ذاتی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔ صحافی سندیپ نے بتایا، ‘انٹلی جنس افسر نے فون پر کہا کہ آپ فاضلکا میں میرے دفتر آئیں تاکہ ہم یہ جانچ سکیں کہ آپ اصلی صحافی ہیں یا نہیں۔ ہم فاضلکا ضلع کے صحافیوں سے تفتیش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں فاضلکا میں کام ہی نہیں کرتا۔ میں چندی گڑھ سے کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ذاتی تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں۔’

سندیپ اس کارروائی کو صحافیوں کو دھمکانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل بھی سندیپ کو پنجاب اسمبلی کی کوریج سے روک دیا گیا تھا اور ان کا پاس لے  لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے ہرمیت سنگھ پٹھان ماجرا نے بھی سندیپ کے ساتھ ایک بار بدسلوکی کی تھی۔

صحافی سکھویندر سدھو کو بھی پچھلے تین سالوں میں کئی بار ہراساں کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘حکومت ہماری ذاتی معلومات اکٹھی کرکے کیا کرے گی۔ خیر، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ تقریباًسوا سال پہلے کی بات ہے۔ پٹیالہ پولیس نے مجھے حراست میں لیا تھا، اس وقت ایس ایس پی نے خود مجھ سے کہا کہ بھگونت مان کے بارے میں کچھ بھی رپورٹ نہ کرنے کا تحریری حلف نامہ دیں۔ میں نے صاف منع کر دیا تھا۔


 مالوا کے مکتسر ضلع کے ایک صحافی منٹو گرسریا کی ذاتی معلومات بھی انٹلی جنس اہلکاروں نے اس ہفتے اکٹھی کی ہیں۔


انہوں نے کہا، ‘مجھ سے براہ راست پوچھنے کے بجائے اہلکاروں نے میرے محلے سے میرے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں وہ کس کے نام ہے، میرے پاس کتنی زمین ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی کے میرے بینک اکاؤنٹ کی بھی تلاشی لی ہے۔ ایسا ہم نے یوپی میں سنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن تحریکوں سے ابھرنے والی جماعت پنجاب میں یوپی ماڈل کو براہ راست کاپی پیسٹ کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور کیا ہو سکتا ہے؟’

صحافیوں کی حمایت میں اپوزیشن

دریں اثناپنجاب کے ان صحافیوں کی ذاتی معلومات اکٹھا کرنے کے حوالے سے گزشتہ ہفتے اپوزیشن جماعتوں نے صحافیوں کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔

شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر بادل نے اس معاملے کو نمایاں طور پر اٹھایا اور کہا، ‘حکمران پارٹی اور وزیر اعلیٰ کو پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں سے باز آنا چاہیے۔ پولیس کی جانب سے صحافیوں کے گھروں پر جانے اور ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کرنے کی خبریں انتہائی تشویشناک اور ناقابل قبول ہیں۔ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے چوتھے ستون پر ایک زبردست حملہ ہے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرانے کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پریس کو ہراساں کرنے سے سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا، بلکہ اس سےصرف ان صحافیوں کے عزم کو تقویت ملے گی جو سچ کے لیے پرعزم ہیں۔’

اس معاملے پر دی وائر نے پنجاب میں عام آدمی پارٹی حکومت کے ترجمانوں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن صرف ایک ترجمان بلتیج پنوں نے ہمارا فون اٹھایا۔ انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے اپنی نااہلی کا حوالہ دیا اور دوسرے شخص کا فون نمبر دیا۔ اس نمبر پر بار بار کال کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

(مندیپ صحافی ہیں اور ‘گاؤں سویرا’ نام کا ویب پورٹل چلاتے ہیں۔)