پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے دہلی پولیس کی ایس آئی ٹی کے چیف پولیس ڈپٹی کمشنر جوائے ٹرکی نے کہا کہ نو میں سات اسٹوڈنٹ لیفٹ تنظیموں ایس ایف آئی، اے آئی ایس ایف، آئسااور ڈی ایس ایف سے جڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ، اس دوران دو دوسرے طلبا کے اے بی وی پی سے جڑے ہونے کے باوجود انہوں نے اے بی وی پی کا ذکر نہیں کیا۔
نئی دہلی: دہلی پولیس نے جے این یو کیمپس میں ہوئےتشدد معاملے میں جمعہ کو پریس کانفرنس کرکے اس بات کی جانکاری دی کہ اس تشدد میں شامل نو ملزم اسٹوڈنٹ کی پہچان کر لی ہے۔ ان میں جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدرآئشی گھوش، ایک کاؤنسلر سمیت سبھی جے این یو کے اسٹوڈنٹ ہیں۔ملزمین میں آئشی گھوش سمیت سات لیفٹ تنظیموں سے اور دو اے بی وی پی سے جڑے ہیں۔ پولیس نے ثبوت کے طور پر ان کے پوسٹر بھی جاری کئے۔
حالانکہ، دہلی پولیس نے طلبا اوراساتذہ پر ہوئے نقاب پوش لوگوں کے حملے کو لے کر کسی گروپ کا نام نہیں لیا، جس میں 36 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پانچ جنوری کا تشدد آن لائن رجسٹریشن سے متعلق کارروائی سے جڑا تھا اور جے این یو میں ایک جنوری سے ہی تناؤ تھا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، نو میں سے سات طلبا کو تشدد سے جڑا ہوا بتانے کے دوران دہلی پولیس کی رپورٹ پچھلے پانچ دنوں سے اے بی وی پی کے ذریعے پھیلائے جا رہے ویڈیو اور فوٹو پر مبنی نظر آئی ۔
اے بی وی پی نے انڈین ایکسپریس سے یہ بات قبول کی ہے کہ تشدد کے بعد انہوں نے جن فوٹیج کو آن لائن اور وہاٹس ایپ کے توسط سے پھیلایا تھا، وہ دہلی پولیس کو بھی دیا تھا۔پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے ایس آئی ٹی کے چیف ،ڈپٹی کمشنر(کرائم برانچ) جوائے ٹرکی نے کہا کہ نو میں سات چھاتر لیفٹ تنظیموں ایس ایف آئی، اے آئی ایس ایف، آئسا اور ڈی ایس ایف سے جڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ، اس دوران دو دوسرے اسٹوڈنٹ کے اے بی وی پی سے جڑے ہونے کے باوجود انہوں نے اے بی وی پی کا ذکر نہیں کیا۔
تشدد میں جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدرآئشی گھوش کے شامل ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹرکی نے مبینہ طور پر اتوارکےتشدد سے جڑے ہوئے کئی ویڈیو میں سے ایک کا اسکرین شاٹ دکھایا۔ اسی ویڈیو کو اے بی وی پی نے 6 جنوری کو صبح 11.35 بجے ٹوئٹ کیا تھا۔پولیس کے ذریعے شیئر کئے گئے ویڈیو گریب کے آگے لکھا تھا، پیریار ہاسٹل بربریت کے ویڈیو میں لال بیگ کے ساتھ گھوش دکھائی دے رہی ہیں، وہ اپنے نقاب پوش تشدد کرنے والے کامریڈ گروپ کی قیادت کر رہی ہیں۔
پولیس نے ایک ویڈیو کا اسکرین گریب بھی شیئر کیا جس میں مبینہ طور پر آئسا کے ڈولن سامنت کو دکھاگیا ہے۔ ٹھیک یہی ویڈیو اے بی وی پی نے 6 جنوری کو شام 6.27 بجے ٹوئٹ کیا گیا تھا۔مبینہ طور پر آئسا سے جڑے جے این یو کے ایک سابق طالبعلم چن چن کمار کو دکھانے والی دو تصویریں بھی پولیس نے جاری کی جس میں لکھا تھا، ‘آئسا کارکن(پیریار ہاسٹل کے باہر ہاتھ میں چھڑی لےکر پتھر پھینکتے ہوئے)۔ ٹھیک یہی تصویر اے بی وی پی کے تنظیم کے سکریٹری آشیش چوہان نے 7 جنوری کو 11.54 بجے ٹوئٹ کیا تھا۔’
جے این یو میں اے بی وی پی سکریٹری منیش جانگیڑ نے انڈین ایکسپریس سے کہا، ‘جب پتھراؤ اور تشدد ہو رہا تھا، ہمارے کچھ کارکن اور دوسرے ہاسٹل کے ملازم چھت پر چلے گئے تھے اور انہوں نے اس فوٹیج کوفلمایا تھا۔ ہم نے اپنی شکایت کے ساتھ سبھی فوٹیج پولیس کو سونپے تھے۔’پولیس نے ابھی تک ایک بھی گرفتاری نہیں کی ہے۔ پریس کانفرنس سے پہلے دہلی پولیس کےترجمان ایم ایس رندھاوا اس بات پر قائم تھے کہ جے این یو میں اتوار کو ہوئےتشدد کی جانچ کرائم برانچ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘پچھلے کچھ دنوں میں،بالخصوص جانچ کے بارے میں ہر جگہ غلط جانکاری پھیلائی جا رہی ہے۔ ہم واقعات کے سلسلےکے بارے میں جانکاری دینا چاہتے ہیں اور جانچ کے بارے میں میڈیا کو اپ ڈیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان معاملوں میں ایک معتبرادارہ اور اس کے اسٹوڈنٹ شامل ہیں۔ ان طلباکے مستقبل کو دھیان میں رکھتے ہوئے، ہم جو جانکاری شیئر کر رہے ہیں وہ حساس ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ جانکاری کو مناسب سیاق میں رکھیں گے۔’
پریس کانفرنس میں پولیس نے کی کئی غلطیاں:
اس دوران پولیس کے ذریعے کئے گئے ویڈیو اور اس کے ساتھ لکھے گئے کیپشن میں بھی کچھ غلطیاں دیکھی گئیں۔ اے بی وی پی کے شیوپوجن منڈل کی تصویر وکاس پٹیل کی جگہ استعمال کی گئی اور بعد میں اس تصویر کو ٹھیک کیا گیا اور پولیس نے ایک نیا دستاویز جاری کیا۔ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین نے اس پر کہا کہ یہ ایس آئی ٹی کی لاپرواہی دکھاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی دہلی پولیس نے اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کو ایک نہیں کئی بار اسٹوڈنٹ فرنٹ آف انڈیا کہا۔ پولیس نے سچیتا تعلقدار کی بھی پہچان غلط طریقے سے ایس ایف آئی کارکن کے طورپ کی گئی۔ جبکہ وہ آل انڈیاا سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن(آئسا)سے جے این ایس یو کاؤنسلر ہیں۔
پولیس نے کہا کہ پٹیل ‘ایم ایس’ کورین کورس کر رہے ہیں جبکہ جے این یو میں ‘ایم ایس’ سے شروع ہونے والا کوئی کورس نہیں ہے۔ ٹرکی اور رندھاوا نے میڈیا کو کوئی سوال نہیں پوچھنے دیا۔