دہلی کے مختلف علاقوں میں جے این یو کے اثاثوں کو پرائیویٹ اداروں کو دینے یا کرایہ پر اٹھانے کے منصوبے پر وائس چانسلر شانتی شری پنڈت کا کہنا ہے کہ وزارت تعلیم پوری طرح سے جے این یو کو سبسڈی دیتی ہے، لیکن یونیورسٹی کی اپنی کوئی آمدنی نہیں ہے۔ جے این یو کو اپنے فنڈ کمانے کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی ( جے این یو) کی وائس چانسلر (وی سی) یونیورسٹی کی دو اہم جائیدادوں کو کرایہ پر اٹھانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے طور پر دوبارہ تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں تاکہ یونیورسٹی میں فنڈ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
تاہم، ان کے اس منصوبے کی طلباء، اساتذہ اور دیگر لوگوں کی طرف سے مخالفت کی جا رہی ہے۔
وی سی شانتی شری پنڈت نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ وزارت تعلیم کے گرانٹ میں مسلسل اضافہ کرنے کے باوجودجے این یو اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ جس کے بعد وہ نئی دہلی کے تان سین مارگ پر ایف آئی سی سی آئی آڈیٹوریم کے پیچھے گومتی گیسٹ ہاؤس اور 35 فیروز شاہ روڈ پر جے این یوکے مرکز کو دوبارہ تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جہاں سے انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ اس وقت کام کرتی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کا بھی وہاں ایک دفتر ہے۔ ان میں سے کوئی بھی جے این یو کو کرایہ نہیں دیتا ہے۔
وی سی نے کسی بھی جائیداد کو فروخت کرنےکے الزامات کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیروز شاہ روڈ کی پراپرٹی کو ممکنہ طور پر پی پی پی موڈ میں ایک کثیر منزلہ عمارت کے طور پر دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے، جسے دفاتر کے طور پر کرایہ پر دیا جا سکتا ہے۔ وہیں، گومتی گیسٹ ہاؤس کو کسی نجی ادارے کو دیا جا سکتا ہے، اس کے لیے اس ادارے کو جے این یو کو بھی ایک مخصوص رقم ادا کرنی ہوگی۔
اس منصوبے کی منظور ی کے لیے وزارت تعلیم کے پاس بھیجے جانے سے پہلے دونوں اقدامات کو یونیورسٹی کی مختلف اکائیوں، جیسے اکیڈمک کونسل اور ایگزیکٹو کونسل کے سامنے پیش کیے جانے کی توقع ہے۔
وی سی کا یہ منصوبہ ایسے وقت میں آیا ہے جب جے این یو طلبہ یونین نے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ کیمپس میں غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال شروع کی ہے جس میں میرٹ-کم-مینز (ایم سی ایم) اسکالرشپ کو 2000 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 5000 روپے کر نا شامل ہے۔
جے این یو طلبہ یونین کے صدر دھننجے نے کہا کہ طلبہ یونین جائیدادوں کی نجکاری کے خلاف ہے۔ دھننجے ان سات طالبعلموں میں سے ایک ہیں جو 11 اگست سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب نریندر مودی حکومت کارپوریٹ گھرانوں کو لاکھوں کروڑوں روپے سبسڈی کے طور پر دے رہی ہے تو ان کے پاس اعلیٰ تعلیم کے لیے فنڈ کم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
‘میس کا بل بڑھ کر تقریباً 4000 روپے ماہانہ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ اتفاق کیا گیا تھا کہ ایم سی ایم کو میس بل کا خیال رکھنا چاہیے، لیکن انتظامیہ اس مطالبے پر کان نہیں دھر رہی ہے،’ دھننجے اسکالرشپ میں اضافہ کے پیچھے دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
جے این یو اسٹوڈنٹ یونین نے ایک بیان میں کہا کہ گومتی گیسٹ ہاؤس اس عمارت میں واقع ہے جہاں جے این یو نے انڈین اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز (آئی ایس آئی ایس) کے ساتھ اپنا کام شروع کیا تھا۔ اس عمارت میں اکثر وزیٹنگ پروفیسرز اور نمائندوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے، ‘یہ پرانے نجکاری گیم پلان کا حصہ ہے، جہاں حکومتیں اثاثے ایک ساتھ نہیں بلکہ ٹکڑوں میں فروخت کرتی ہیں۔ ان دو جائیدادوں کے بعد، وہ جے این یو کے دیگر حصوں کو بھی تجارتی مقاصد کے لیے کرایہ پر دے سکتے ہیں۔ ‘
طلبہ یونین نے طالبعلموں سے اپیل کی ہے کہ وہ گومتی گیسٹ ہاؤس کی نجکاری کے خلاف کھڑے ہوں اور فنڈ کی کمی کے عذر کو مسترد کردیں۔
طلبہ یونین نے کہا کہ ‘اگر حکومت بے انتہا امیروں کو لاکھوں کروڑوں روپے کی سبسڈی دے سکتی ہے تو اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے فنڈز کم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔’
اساتذہ بھی اس کے حق میں نہیں ہیں
اساتذہ بھی اس ‘نجکاری’ کے منصوبے سے متفق نہیں ہیں۔
جے این یو ٹیچرز ایسوسی ایشن کی صدر موشمی بسو نے یونیورسٹی کو ملک کے بہترین اداروں میں شمار کیے جانے کے باوجود حکومت کی جانب سے کم فنڈنگ پر سوال اٹھاتے ہوئے اخبار سے کہا کہ ‘جے این یو کو مالی بحران کا سامنا کیوں کرنا پڑ سکتا ہے؟’
سی پی آئی کے راجیہ سبھا ایم پی سندوش کمار پی نے اتوار کو وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کو ایک خط لکھ کر حکومت سے جے این یو کے لیے ضروری فنڈز فراہم کرنے کو کہاہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے اثاثوں کو منیٹائز کرنے کا منصوبہ غیر معمولی قیمتوں پر پرائیویٹ لوکیشنل رئیل اسٹیٹ کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں لگتا۔
واٹس ایپ پر دی ٹیلی گراف کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وی سی نے کہا کہ وزارت تعلیم جے این یو کو پوری طرح سبسڈی دیتی ہے، لیکن جے این یو کی اپنی کوئی آمدنی نہیں ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران، کیمپس میں طلباء، فیکلٹی اور عملے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ جے این یو میں آج تک طلباء کم از کم 10 اور 20 روپے فیس ادا کرتے ہیں۔ وزارت تعلیم نے فنڈز میں اضافہ کیا ہے لیکن پھر بھی ہم تحقیق کے لیے درکار انفراسٹرکچر، کتابوں، آن لائن ذرائع، سافٹ ویئر وغیرہ سے متعلق بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا، ‘جے این یو کو اپنے فنڈز خود کمانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے کچھ منصوبوں میں سے ایک ہے —جے این یو کی جائیدادوں کو پی پی پی کے تحت دوبارہ تیار کیا جائے، جس سے یونیورسٹی کے لیے باقاعدہ آمدنی پیدا ہو۔’