کیا گیان پیٹھ نے ادب سے منہ موڑ لیا ہے

گیان پیٹھ کے تازہ ترین اعلان میں واضح طور پر مشہور زمانہ امرت کال کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔ اکیڈمیاں توحکومت کے زیر سایہ کام کرتی ہیں، شاید اس لیے وقتاً فوقتاً انحراف کر سکتی ہیں، لیکن گیان پیٹھ ایوارڈ کے اعلان نے ادبی دنیا میں بڑے پیمانے پرہلچل پیدا کر دی ہے۔ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا گیان پیٹھ نےسمجھوتے کی راہ اختیار کر لی ہے؟

گیان پیٹھ کے تازہ ترین اعلان میں واضح طور پر مشہور زمانہ امرت کال کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔ اکیڈمیاں توحکومت کے زیر سایہ کام کرتی ہیں، شاید اس لیے وقتاً فوقتاً انحراف کر سکتی ہیں، لیکن گیان پیٹھ ایوارڈ کے اعلان نے ادبی دنیا میں بڑے پیمانے پرہلچل پیدا کر دی ہے۔ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا گیان پیٹھ نےسمجھوتے کی راہ اختیار کر لی ہے؟

Jagadguru-Rambhadracharya-Gulzar-AA

سنسکرت کے اسکالر جگد گرو رام بھدراچاریہ اور نغمہ نگار گلزار۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

ملک کے سب سے بڑے ادبی اعزاز ‘گیان پیٹھ’ کے لیے اس بار ‘دو نامور ادیبوں’ کے نام کا اعلان کیا گیا ہے؛ ‘سنسکرت کے لیے’ جگد گرو سوامی رام بھدراچاریہ اور ‘مشہور نغمہ نگار’ سمپورن سنگھ کالرا یعنی ‘گلزار’۔

گیان پیٹھ عام طور پر ایک ہی ادیب کو دینے کی روایت رہی ہے۔ بعض اوقات دو ادیبوں کو ایک ساتھ دیا گیا ہے،جس کے باعث تنازعے ہوئے ہیں۔ایک ساتھ دو ادیبوں – شری لال شکل اور امرکانت – کو 15 سال پہلے 2009 میں اس  اعزاز سے نوازا گیا تھا۔

گیان پیٹھ ایوارڈ 1965 میں شروع ہوا۔ ٹائمز آف انڈیا کا جین گھرانہ اسے چلاتا ہے۔ اشاعت اور ایوارڈ کا کام ایک ٹرسٹ کے ذمے ہے۔

گیان پیٹھ ایوارڈ کے تازہ ترین اعلان میں مشہور زمانہ امرت کال کی بازگشت واضح طور پر سنی جا سکتی ہے۔ اکیڈمیاں تو حکومت کے زیر سایہ کام کرتی ہیں، اس لیے شاید وہ وقتاً فوقتاً انحراف کر سکتی ہیں، حالانکہ ان میں سرکاری مداخلت کی باتیں  دبے اور چھپے ہوئے انداز میں ہی سامنے آتی ہیں۔ لیکن گیان پیٹھ ایوارڈ کے اعلان نے ادبی دنیا میں ایک بڑی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا گیان پیٹھ نے سمجھوتے کی راہ اختیار کر لی ہے؟

ایوارڈ کمیٹی نے سوامی رام بھدراچاریہ کو ‘معروف عالم، ماہر تعلیم، فلسفی، مبلغ اور مذہبی رہنما’ قرار دیتے ہوئے رامانند فرقے کے ساتھ ان کے تعلق اور ان کے مذہبی عہدوں کی تفصیلات دی ہیں۔

پھر بتایا گیا ہے کہ وہ 22 زبانیں جانتے ہیں، سنسکرت، ہندی، اودھی، میتھلی سمیت کئی زبانوں کے ‘شاعر اور مصنف’ ہیں، جنہوں نے 240 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ چار مہاکاویہ (رزمیہ) لکھے ہیں، جن میں دو ہندی میں ہیں۔مذہبی متون کی تشریح کی ہیں، تلسی داس کے رام چرت مانس کے ماہر ہیں۔ مودی حکومت نے 2015 میں انہیں پدم وبھوشن سے نوازا تھا۔

ایوارڈ سے متعلق ریلیز۔

ایوارڈ سے متعلق ریلیز۔

پتہ نہیں یہ جانکاری کیوں گیان پیٹھ کے اعلان میں نہیں ہے کہ سوامی جی نےمسلسل جسمانی طور پر معذوری کا مقابلہ کیا ہے، کیونکہ جب وہ دو ماہ کے تھے، تب سے بینائی سے محروم ہیں۔یہ بھی کہ  وہ وزیر اعظم کے قریبی ہیں، ان کی 10ہزار صفحات کی آٹھ ابواب پر مشتمل تفسیر کا اجرا مودی نے چترکوٹ آکر کیا تھا۔

سوامی جی نے رام جنم بھومی تنازعہ میں رام للا براجمان کے حق میں گواہی دی تھی۔ وہ رام جنم بھومی تحریک کی شروعات کے’جاں بازوں’ میں تھے، ‘داغدار ڈھانچے’ کو منہدم کرنے کی مہم میں آگے رہے، جیل گئے۔ شیو سینا، ایس پی اور کانگریس کے لیڈروں کو نام لے کر کوستے ہیں، ‘احمق’ ٹھہراتے ہیں۔

پی او کے کے حوالے سے متنازعہ بیان دیتے ہیں۔ حال ہی میں وہ رام جنم بھومی پران پرتشٹھا کے نگراں اور سرپرست رہے۔ جیوترمے شنکراچاریہ کے پرتشٹھا کو شاستر کے مطابق نہ بتانے پر جوابی کارروائی کی۔ مندر کے ٹرسٹ نے بھی مسلسل کہا کہ پران پرتشٹھا رامانندی فرقہ کے نگرانی  میں ہو رہی ہے۔

میں نے آن لائن ذرائع پر سوامی جی کے کام کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ایک جزوی ہندی نظم کا انگریزی اور روسی میں ترجمہ ان کے غیر ملکی شاگرد نے کیا ہے۔ سوامی جی کے آفیشل فیس بک پیج پر وہ پوری نظم دستیاب ہے۔ مانس کے دوہے’ارتھ نہ دھرم نہ کام روچی گتی نہ چہؤں نربان۔ جنم جنم رتی رام پد یہ بردانو ن آن…کا سوامی جی کا ورژن ہے ؛

ارتھ چاہیے نہ دھرم کام چاہیے

کوسلیا کمار، مجھے رام چاہیے

موکش چاہیےنہ سورگ دھام چاہیے

کوسلیا کمار، مجھے رام چاہیے

اشرن-اناتھ-ناتھ، دین-ہتکاری

چاہیے وپر—ودھو پاپ—شاپ ہاری

جانکی-جیون پورن کام چاہیے

کوسلیا کمار، مجھے رام چاہیے…

کوٹی منمتھابھی رام رام مجھے چاہیے

لوک لوچنابھی رام رام مجھے چاہیے

‘رام بھدراچاریہ’ کا وشرام چاہیے

کوسلیا کمار مجھے رام چاہیے۔

تاہم، میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے سوامی رام بھدراچاریہ کے سنسکرت یا ہندی ادبی تخلیقات  کا مطالعہ نہیں کیا۔ یوٹیوب کے خطبات سنے ہیں، جس نے مجھے متاثر نہیں کیا۔

سوامی اکھنڈانند، سوامی رام سکھ داس، آچاریہ تلسی، مولانا وحید الدین خان جیسے خطیبوں کے مرتب کردہ لیکچرز (تحریر نہیں) کہیں زیادہ جاندار ہوتے تھے۔ ادبی حوالوں اور لطیفوں سے بھری رجنیش-اوشو کی قصہ گوئی بھی۔ لہٰذا مندر کی تحریک میں آگے رہنے والے کسی سنت کو وعظ یا تفسیر کی بنیاد پر اہل قلم کے مقابلے میں کھڑا کردینا منطقی نہیں لگتا۔ یہ کسی سنت  کا احترام بھی نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ سوامی جی کو گیان پیٹھ ملنے کا استقبال ادبی دنیا نے نہیں بلکہ تنازعات میں گھرے بابا باگیشور دھام یا بی جے پی لیڈر شیوراج سنگھ چوہان جیسے لیڈروں نے کیا ہے۔

اس آفیشل پلیٹ فارم پر سوامی جی کے دیگر ویڈیوز ضرور دستیاب ہیں؛

رام بھدراچاریہ کے ساتھ گیان پیٹھ حاصل کرنے والے دوسرے تخلیق کار سمپورن سنگھ کالرا ‘گلزار’ تو ہندی سنیما کی ہستی ہیں۔ وہ سلجھے ہوئے فلمساز ہیں، جنہوں نے کئی جاندار فلمیں بنائی ہیں۔اسکرپٹ اور گانوں میں تو انہیں مہارت ہے ہی۔

انہیں 22 بار فلم فیئر ایوارڈ، چھ بار نیشنل فلم ایوارڈ، بابا صاحب پھالکے ایوارڈ، پدم بھوشن اور نغمہ نگاری کے لیے گرامی اور آسکر (اے آر رحمان کے ساتھ)  تک ملا۔ وہ سنیما کے ایک مقبول نغمہ  نگار ہیں۔ 2002 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملنے کے بعد انہیں بے پناہ شہرت ملی۔

پچھلے کچھ سالوں میں، وہ پہلے جے پور اور اب دوسرے شہروں میں منعقد ہونے والے لِٹ فیسٹ کا ایک مقبول چہرہ بن کر ابھرے ہیں۔ نام نہاد ادبی میلوں کا سلسلہ بنیادی طور پر انگریزی پبلشرز، مصنفین کے ایجنٹوں اور نامور ادیبوں، سیاستدانوں، اداکاروں، گلوکاروں، اینکروں وغیرہ کے ساتھ ایک بازار لے کر آیا ہے۔ ان کے اخراجات بازار ہی برداشت کرتا ہے۔

سینما کی چمکتی دمکتی دنیا کی طرح، ان ‘ادبی’ میلوں میں بھی لوگ ادب (یا یوں کہیں کہ کتاب، کیونکہ وہاں کوکنگ کی کتاب بھی ‘لانچ’ ہو سکتی) سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے بجائے مشہور ناموں کی جھلک پانے، سیلفیاں اتارنے یا اپنے کپڑوں کی نمائش کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

افسوس صرف اس بات کا ہے کہ شاید لِٹ فیسٹ کی رنگت سنجیدہ ادبی انعامات کو متاثر کرنے لگی ہے۔

میں گلزار صاحب کو تب سے پڑھ رہا ہوں جب سے ان کی شاعری، غالباً 70 کی دہائی میں، ہندی میں کبھی ان کے قریبی دوست بھوشن بن مالی نے شائع کروائی تھی۔ اس زمانے میں اردو پنجابی کے رومانوی ادب کی اپنی کشش تھی۔ لیکن بعد میں ‘جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے، جانے کون آس پاس ہوتا ہے’ یا ‘شام کی آنکھ میں نمی سی ہے، آج پھر آپ کی کمی سی ہے’ کے جذباتی دور کے بعد کچھ گہری شاعری کی کمی محسوس ہوتی چلی گئی۔

اس کی تڑپ کبھی ختم نہ ہوئی۔ سماج اور سیاست کے ہنگامے ان کی غزلوں یا نظموں کے فکری سروکار نہیں بنے۔ رومانیت میں بھی ایک تکرار مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی رہی۔

گول پھولا ہوا غبارہ تھک کر

ایک نکیلی پہاڑی پر یوں جا ٹکا ہے

جیسے انگلی پر مداری نے اٹھا رکھا ہو گولا

پھونک سے ٹھیلو تو پانی میں اتر جائے گا

بھک سے پھٹ جائے گا پھولا ہوا سورج کا غبارہ

چھن سے بجھ جائے گاایک دہکتا ہوا دن

گیان پیٹھ نے اپنے اعلان میں سوامی جی کی جائے پیدائش جونپور کا ذکر کیا ہے، لیکن گلزار صاحب کی جائے پیدائش (دینا، پاکستان) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تعارف میں اردو شاعر کی شناخت کو پیچھے رکھا گیا ہے، ہندی کو آگے؛ ‘سمپورن سنگھ کالرا، جنہیں گلزار کے نام سے جانا جاتا ہے، ہندی فلموں کے مشہورنغمہ نگار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک شاعر، اسکرین رائٹر، فلم ڈائریکٹر، ڈرامہ نگار اور مشہور شاعر ہیں (جی، شاعر مکرر!)۔

وہ بنیادی طور پر ہندی، اردو اور پنجابی میں لکھتے ہیں۔ وہ ادب میں میل کے نئے پتھر گاڑتے آئے ہیں۔ انہوں نے تین مصرعوں کی نظم ایک نیا اسلوب ایجاد کیا، ‘تروینی’۔ دراصل ‘تروینیاں’ 70 کی دہائی میں ‘ساریکا’ میں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں، ، جب کملیشور اس کے مدیر تھے۔ تیسرے مصرعے کو چونکا دینے والی کیفیت میں ظاہر کرتے تھے، جو کبھی کبھی کھیل کی طرح ہو جاتا تھا؛

گولے، بارود، آگ، بم، نعرے،

بازی آتش کی شہر میں گرم ہے،

بندھ کھولو کہ آج سب ‘بند’ ہے

گلزار بھلے آدمی، ماہر فلمساز، مقبول نغمہ نگار سب ہیں – لیکن ادب میں ان سے زیادہ باشعورتخلیق کار موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر زیادہ تو نہیں ، لیکن کچھ بحث چھڑی ہے۔

ہندی کے شاعر اور مدیر وشنو ناگر نے فیس بک پر لکھا ہے کہ ہندی افسانہ، شاعری اور ادب اطفال  کے لیے بڑا کام کرنے والے اور نام کمانے والے ونود کمار شکل اور دیگر ادیبوں کو نظر انداز کرنا ایک مایوس کن واقعہ ہے۔ ویسےہندی کے علاوہ ہندوستانی زبانوں میں کئی بڑے ادیب ہوں گے، جو گیان  پیٹھ سے اب بھی بہت دور ہیں۔

نقاد شمبھوناتھ نے اسے ‘گیان پیٹھ ایوارڈ کا زوال’ قرار دیا ہے۔ وریندر یادو کا خیال ہے کہ گیان پیٹھ کے زوال کی شروعات تبھی ہوگئی تھی جب شہریار کو ابیتابھ بچن کے ہاتھوں ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ‘اب تو اسے کوڑے دان کی خوبصورتی کا درجہ مل گیا ہے’۔

گیان پیٹھ کی ریلیز میں ‘نغمہ نگار گلزار’ لکھا پڑھنے کے بعد مصنفین نے باب ڈلن کو ملے نوبیل واقعے سے گیان پیٹھ کے اعلان کا موازنہ کیا ہے۔ یہ کہیں سے مناسب نہیں لگتا۔

اپنے دور میں ڈلن نے نظریاتی جوش و خروش سے امریکہ کی قدامت پسند ذہنیت کو ابھارا تھا۔ ان کے گانوں نے امریکی روایتی موسیقی کا سہارا لے کر ایک نیا سیاسی محاورہ تشکیل دیا تھا۔

باب ڈلن نے آزادی، امن اور انصاف کے حق میں آواز بلند کی۔ اس نے جنگ، ایٹمی خوف، نسل پرستی اور غلامی کے خلاف لکھا، گوروں کے ہاتھوں افریقی نژاد امریکی کمیونٹی کی توہین اور تشدد کے خلاف گایا، اپنی تخلیقات میں مظاہرین اور ان کے مظاہروں کی حمایت میں کھڑے ہوئے اور شہری حقوق کی آواز کو طاقت دی۔

ڈلن اپنی مکمل شخصیت میں مزاحمت کی مجسم آواز تھے۔ امریکی معاشرے کو ان آوازوں کی اشد ضرورت تھی جو پکار کر کہہ سکیں؛

Yes, and how many times must a man look up
Before he can see the sky?
And how many ears must one man have
Before he can hear people cry?
Yes, and how many deaths will it take ’til he knows
That too many people have died?
The answer, my friend, is blowin’ in the wind!

گلزار صاحب سے  میرا بہت پیار ہے۔ سدا بہار انسان اور فلمساز کے طور پر میں ان کی  عزت کرتا ہوں۔ ان کے رومانوی انداز پر جھوم سکتا ہوں۔ کبھی کیدار جی،کبھی ادبی میلوں کے دورے میں ان کے ساتھ بہت گپ شپ کی ہے۔

لیکن کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی 50 سالہ صحافت میں – جس میں مدیر  کے طور پر 35 سال ادب کو ہندی میں سب سے زیادہ شائع کرنے، یعنی غور سے پڑھنے اور اس سے  قربت کا اعزاز حاصل ہے – میں نے گلزارصاحب کو گیتوں میں معاشرے اور سیاست کی بیماریوں پر قابل ذکر فکری سروکار اورحوصلہ اختیار کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ رومانویت مزہ دے سکتی ہے، لیکن ایک خاص مرحلے کے بعد اس میں لجلجاپن ہی باقی رہتاہے۔

گلزار بھی مانتے  ہوں گاےکہ ملک کی مختلف زبانوں میں ایسے شاعر ہمارے درمیان موجود ہیں، جن کے نام کا دعویٰ ادبی سطح پر بہت مضبوط ثابت ہوگا۔ ان کو عزت دینے سے ایوارڈز بامعنی ثابت ہوں گے اور ان کے وقارمیں اضافہ ہوگا۔ گیان پیٹھ کی ثروت مند روایت ایسی ہی داستان رہی ہے۔ حالیہ موڑ نے اسے اندھیرے میں لا چھوڑا ہے۔

کہہ سکتے ہیں کہ زمانہ ‘نئے انڈیا’ کا ہے، جس میں نغمہ نگار، اسٹیج کے شاعر، کتھا واچک (اب تو ایک ہی شخص میں تمام خوبیاں مل جائیں گی) نوازے جاتے ہیں۔

ایوارڈ بھی اب دیےکم، دلوائے زیادہ جاتے ہیں۔

(اوم تھانوی جن ستا اخبار کے سابق مدیر اور ہری دیو جوشی جرنلزم یونیورسٹی، جے پور کے بانی وائس چانسلر رہے ہیں۔)