انتخابات کے دوران آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے تیسرے محاذ کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں، لیکن نتائج منفی رہے اور بی جے پی کے ‘پراکسی’ بتائے جا رہے ان میں سے کئی امیدواروں کے لیے ضمانت بچانا بھی مشکل ہوگیا۔
انجینئر رشید کی پارٹی کا پوسٹر۔ (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: 10 سال بعد ہوئے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس اتحاد نے اکثریت حاصل کر لی ہے ۔ کل 90 نشستوں میں سے نیشنل کانفرنس نے 42 ، کانگریس نے چھ ، بی جے پی نے 29 اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ( پی ڈی پی ) نے تین سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
پیپلز کانفرنس نے 20 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن ہندواڑہ سے انتخاب لڑنے والے سجاد غنی لون ہی جیت پائے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی بھی ایک سیٹ ( ڈوڈا اسمبلی حلقہ ) جیت کر ریاست میں اپنا کھاتہ کھولنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔
سی پی ایم نے بھی ایک سیٹ جیتی ہے ، کولگام سے محمد یوسف تاریگامی نے آزاد (جماعت کے حمایت یافتہ) امیدوار سیار احمد ریشی کو شکست دی ہے۔ اس کے علاوہ سات آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جن میں سے ایک (خورشید احمد شیخ) کو انجینئر رشید کی پارٹی کی حمایت ضاصل تھی۔ تین (پیارے لال شرما، مظفر اقبال خان اور چودھری محمد اکرم) نیشنل کانفرنس کے سابق رہنما ہیں، جن کی اب ‘گھر واپسی ‘ ہو سکتی ہے۔
جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہونے والے آزادلیڈر۔(تصویر بہ شکریہ: الیکشن کمیشن)
کہاں گیا تیسرا مورچہ؟
جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں نام نہاد تیسرا محاذ تقریباً پوری طرح صاف ہو چکا ہے۔ سابق کانگریسی غلام نبی آزاد کی ‘ ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی ‘ کوئی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہی حال بہوجن سماج پارٹی ( بی ایس پی ) اور اپنی پارٹی کا رہا ہے۔
حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بارہمولہ سے ایم پی منتخب ہوئے انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی نے کالعدم تنظیم جماعت اسلامی (جموں و کشمیر) کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ انتخابات کے دوران اس اتحاد کے بارے میں خوب چرچہ تھا۔ دونوں پارٹیوں نے دعویٰ کیا تھاکہ وہ جموں و کشمیر کی سیاست کو متاثر کر رہے ہیں۔ تاہم نتائج بتاتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام نے اس اتحاد کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اس اتحاد کے بیشتر امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو چکی ہیں۔
عوامی اتحاد پارٹی نے 44 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ صرف انجینئر رشید کے بھائی خورشید احمد شیخ کو کامیابی ملی ہے۔ انہوں نے لنگیٹ حلقہ سے 1602 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی۔ سیاست میں آنے سے پہلے خورشید احمد شیخ سرکاری ٹیچر تھے۔ 2008 اور 2014 میں لگاتار دو بار اس نشست کی نمائندگی خود انجینئر رشیدبھی کر چکے ہیں۔ شیخ کے علاوہ عوامی اتحاد پارٹی کے کسی اور امیدوار کو کامیابی نہیں ملی۔
جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو اس نے چار امیدوار کھڑے کیے تھے اور چار دیگر کی حمایت کی تھی۔ ان آٹھ میں سے صرف سیار احمد ریشی اپنی ضمانت بچانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ کولگام سے میدان میں اترے ریشی کا مقابلہ سی پی ایم کے محمد یوسف تاریگامی سے تھا، جنہوں نے 7838 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔
عوام نے کیوں نہیں کیا بھروسہ؟
جموں و کشمیر کے ایک مقامی صحافی مدثر ریشی نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگ اس بار کوئی رسک نہیں لینا چاہتےتھے، ‘لوگوں نے سوچ لیا تھا کہ انہیں ایک مضبوط حکومت چاہیے۔ جموں و کشمیر کے لوگ اس الیکشن کے ذریعے اسٹیٹ ہُڈ کی واپسی چاہتے ہیں۔ پی ڈی پی کی غلطی (بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں حکومت چلانا) لوگوں کے ذہنوں میں تازہ تھی۔ ایسے میں صرف نیشنل کانفرنس ہی رہ جاتی ہے۔ لوگوں نے اسے چن لیا۔ عوام جانتے ہیں کہ ان کے عزائم کو عوامی اتحاد پارٹی اور جماعت اسلامی پورا نہیں کر سکتے ہیں۔’
ریشی کا مزید کہنا ہے،’نیشنل کانفرنس عوام الناس میں یہ بات پھیلانے میں بھی کامیاب رہی کہ انجینئر رشید ‘بی جے پی کے آدمی’ ہیں اور جماعت بھی ‘کسی’ کے اشارے پر میدان میں اتری ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے اشارے بھی ملے تھے جو نیشنل کانفرنس کے الزامات کو تقویت دے رہے تھے۔’
جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے دوران دی وائر نے اپنی گراؤنڈ رپورٹ ،
کون ہے کس کا پراکسی ہے؟ میں تفصیل سے بتایا تھا کہ ان کی پارٹی، عوامی اتحاد پارٹی اور جماعت اسلامی پر بی جے پی کے پراکسی ہونے کا الزام لگ رہے ہیں۔
اسمبلی انتخابات کے دوران جموں و کشمیر سے دی وائر کے لیےگراؤنڈ رپورٹ لکھنے والے آزاد صحافی روہن کمارنے بتایا، ‘جن پر بی جے پی کے پراکسی ہونے کا الزام لگے، انہیں کشمیر کے لوگوں نے خارج کر دیا ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ سیاسی طور پر اتنے باشعور ہیں کہ انہوں نے اپنی ضروریات کو سمجھتے ہوئے کسی ایک پارٹی کی حمایت میں اپنا مینڈیٹ دیا ہے۔’
ان کا مزید کہنا ہےکہ ‘جماعت اسلامی کے بارے میں جس طرح سے زیادہ لکھا اور بولا جا رہا تھا اور ان کے انٹرویوز سامنے آنے لگے تھے، اس سے واضح ہو گیا تھاکہ ان پر کوئی دباؤ ہے۔ ان انٹرویوز میں جماعت کے لوگوں کی باتیں سیاسی طور پر بہت ناپختہ تھیں۔ وہ کہنے لگے تھے کہ جموں و کشمیر میں پچھلے دو بار سےآزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مودی حکومت کی تعریف کر رہے تھے۔ 370 پر واضح لائن نہیں لے رہے تھے۔’
کہا جا سکتا ہے کہ ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جموں و کشمیر کے لوگوں نے ایک پارٹی کی حمایت کر کے اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا ہے۔ ‘لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کشمیر میں ڈالے گئے ووٹ بی جے پی مخالف ووٹ ہیں۔ اسے محض نیشنل کانفرنس کی حمایت میں ڈالے گئے ووٹ نہیں سمجھنا چاہیے۔ کشمیر میں یہ شدید احساس ہے کہ اس وقت ہمیں اپنی نمائندگی کی ضرورت ہے اور نیشنل کانفرنس یہ فراہم کر سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عمر عبداللہ کی اپنی شبیہ بہت اچھی ہے۔ لیکن ابھی لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ ان کے لیے واحد آپشن ہے،’ انہوں نے کہا۔