جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلع کے قبائلیوں کو انتیودیہ ان یوجنا اور سوشل سیکورٹی پنشن اسکیم کا فائدہ لینے میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلع کے منیکا بلاک کے سیودھرا گاؤں کے امریش پرہیا اپنی فیملی کے ساتھ کئی طرح کی بنیادی سہولیات سے دور اپنی زندگی گزرا رہے ہے۔ فیملی کی آمدنی کا اہم ذریعہ غیر تربیتی مزدوری ہے۔ ان کے پاس کھیتی کے لائق زمین نہیں ہے۔امریش کو مشکل سے ایک مہینے میں 8 سے 10 دن ہی 150 روپےروزانہ کی مزدوری در پر کام مل پاتا ہے۔ اناج کی کمی اور اقتصادی تنگی کی وجہ سے مہینے میں چار سے چھے دن فیملی بھوک کی حالت میں رہتی ہے۔ دال اور دیگر مقوی غذا تو دور کی بات ہے۔
واضح ہو کہ پرہیا کمیونٹی جھارکھنڈ کی لگاتار گھٹتی قدیم قبائلی کمیونٹی (خاص طورپر محروم قبائلی) میں سے ایک ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق، تمام قدیم قبائلی فیملی کو انتیودیہ ان یوجناکے تحت سستی شرح پر 35 کلو فی ماہ اناج حاصل کرنے کا حق ہے (جھارکھنڈ میں ان کو اناج مفت ملتا ہے)۔ اور ریاست کے تمام قدیم قبائلی فیملی، جن کو سوشل سیکورٹی پنشن اسکیم کا فائدہ نہیں مل رہا ہے،
ریاستی حکومت کی طرف سے 600 روپے فی ماہ پنشن ملنا طے ہے۔
حالانکہ امریش پرہیا کی فیملی ان دونوں حقوق سے محروم ہے۔ آدھار نہ ہونے کی وجہ سے راشن کارڈ نہیں بنا ہے اور کئی بار پنشن کے لئے درخواست دینے کے باوجود ابھی تک ان کی فیملی پنشن سے محروم ہے۔منیکا اور پلامو کے چموئی بلاک میں کئی پرہیا فیملی کی ایسی ہی حالت ہے۔ زیادہ تر فیملی کے پاس زراعت کے لائق زمین نہ کہ برابر ہے جس سے برائےنام دھان کی فصل ہوتی ہے۔ ساتھ ہی، بڑے پیمانے پر اس کمیونٹی کے لوگ روزگار کی تلاش میں دیگر ریاستوں میں ہجرت کرتے ہیں۔
کئی فیملی تو اپنے تمام ممبروں کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ اناج اور روزگار کے مناسب ذرائع کی کمی کی وجہ سے ان کے لئے بھوکا سونا عام بات ہے۔ پچھلے تین مہینوں میں
43 فیصد فیملی کو مختلف سطحوں کے بھوک سے جوجھنا پڑتا ہے۔یہ باتیں گزشتہ سال نومبر مہینے میں ان دونوں بلاک کے
325 پرہیا فیملی کے منیکا امدادی مرکز کے ذریعے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا اورطالبات اور محققین کے تعاون سے کئے گئے سروے سے سامنے آئی ہیں۔ سروے میں بھوک کی حالت، پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم اور سماجی حفاظتی پنشن سے جڑاؤ وغیرہ کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
جھارکھنڈ میں فوڈ سیکورٹی سے متعلق قانون نافذ ہونے کے تین سال بعد بھی 12 فیصد پرہییا فیملی راشن سے محروم ہیں کیونکہ ان کا راشن کارڈ نہیں بنا ہے۔ جن فیملیوں کو ڈسٹری بیوشن سسٹم سے اناج مل رہا ہے، ان کو بھی ان کے حق کے مطابق پوری مقدار میں نہیں ملتا ہے۔چونکہ قدیم قبائلی کمیونٹی جھارکھنڈ کے دوردراز علاقوں میں رہتے ہیں، ریاستی حکومت نے اپریل 2017 میں معدوم ہو رہے قدیم قبائلی لوگ کی حفاظت، نگرانی اور اشیائےخوردنی سے متعلق وزیر اعلیٰ اسکیم سے جوڑنے کے لئے ایسی کمیونٹی کے گھر تک بند بوری میں مفت اناج پہنچانے کے لئے
ڈاکیہ اسکیم کی شروعات کی تھی۔
اس کے تحت ہرایک گھر تک بند بوری کے پیکیٹ میں 35 کلو اناج پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن منیکا بلاک کے کسی بھی پرہیا فیملی کے گھر تک اناج نہیں پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو مقامی راشن دوکان سے ہی اناج لینا پڑتا ہے جو اکثر ان کے گاؤں سے کافی دور ہوتے ہیں۔سروے میں یہ دیکھنے کو ملا کہ تمام ڈیلروں کے ذریعے راشن کی کٹوتی کی جاتی ہے۔ مثال کے لئے، رانکیکالا گاؤں میں ناپ کرنے کے لئے تولنے کی مشین کا استعمال نہ کرکے ہرایک فیملی کو ٹینا سے ناپکے تقریباً 30 کلو راشن ہی دیا جاتا تھا۔
زیادہ تر پرہیا فیملی کے ماہوار راشن سے اوسطاً ایک سے پانچ کلو تک کی کٹوتی کی جاتی ہے۔ چموئی بلاک میں ڈاکیہ اسکیم برائےنام چلتی ہے۔ گاؤں تک (یا پاس کے کسی مقام تک) ہرایک فیملی کے 35 کلو اناج کی بوری تو پہنچتی ہے، لیکن ان کی سیل کٹی رہتی ہے اور ہرایک بوری سے 3سے5 کلو اناج غائب رہتا ہے۔
سماجی حفاظتی پنشن سے محروم کمیونٹی اور افراد جیسے ضعیف، سنگل خاتون وغیرہ کے لئے ایک بڑا سہارا ہوتی ہے۔ حالانکہ تمام پرہیا فیملی کو کسی نہ کسی سماجی حفاظتی پنشن (جیسے قدیم قبائلی پنشن، بیوہ، ضعیف وغیرہ پنشن) کا فائدہ ملنا ہے، لیکن
36 فیصد فیملی پنشن سے محروم ہیں۔ان میں سے 34 فیصد فیملی کئی بار درخواست دینے کے باوجود پنشن اسکیم سے نہیں جڑے۔ ساتھ ہی، 28 پنشن ہولڈروں کا آدھار اور ای کے وائی سی سے متعلق مسائل-جیسے آدھار سے پنشن اسکیم اور بینک کھاتا نہ جڑنے کی وجہ سے پنشن بند ہو گیا ہے۔
جن کو پنشن ملتی بھی ہیں، ان کو بھی کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 68 فیصد پنشن ہولڈر پراگیہ کیندر سے بایومیٹرک مبنی آدھارکے توثیقی نظام کے ذریعے پنشن جاری کرتے ہیں۔ مشین میں انگلیوں کے نشان کام نہ کرنے کی وجہ سے مرکز کا چکر کاٹنا ان کے لئے عام بات ہے۔ ساتھ ہی، اصول کے خلاف مرکز کے ناظم پنشن ہولڈروں سے 20سے200 روپے فی مہینے تک کے کمیشن بھی لیتے ہیں۔
ان قبائلیوں میں آدھارسے متعلق مسائل بےشمار ہیں۔ یہ چونکانے والی بات ہے کہ
42 فیصد فیملی نے آدھار-متعلق مسائل (جیسے آدھار نہ ہونے کی وجہ سے سماجی-اقتصادی حقوق سے محروم، بایومیٹرک کی ناکامی وغیرہ) کا سامنا کیا ہے۔ابھی بھی اس کمیونٹی کے6 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 21 فیصد لوگوں کے پاس آدھار نہیں ہے، چموئی کی بدھنی دیوی (68 سال) کی پنشن کی ادائیگی پچھلے تین سالوں سے رکی ہوئی ہے کیونکہ ان کا آدھار نہ ہونے کی وجہ سے بینک کھاتا نہیں کھل پایا۔
حکومت کی اس کمیونٹی کی ترقی کے متعلق لا پروا رویہ اپنانے کی مثالوں کی کمی نہیں ہے۔ زیادہ تر ٹولوں میں بنیادی سہولیات جیسے پینے کے پانی کا انتظام، بجلی، پکّی سڑک وغیرہ کی کمی ہے۔ بچّوں اور خواتین کی پرورش کی قابل رحم حالت ہونے کے باوجود بھی زیادہ تر ٹولوں میں آنگن باڑی نہیں ہے۔کئی بچّے تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ ان کے ٹولے کے آس پاس کے اسکولوں کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ ساتھ ہی، روزگار کی ضرورت کے باوجود بھی نریگا اسکیموں کی تکمیل نہ کے برابر ہے۔
سب سے پہلے تمام فیملی کے لئے بنا کٹوتی انتیودیہ راشن، سماجی حفاظتی پنشن اور نریگا کے تحت روزگار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی، ٹولوں میں فوراً آنگن باڑی قائم کرکے بچّوں اور خواتین کی پرورش پر خاص دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ان کمیونٹی کے لئے عوامی فلاح و بہبودکی اسکیموں سے آدھار کی ضرورت کو فوراً ختم کرنا چاہیے۔ امید ہے انتخابی سال میں حکومت کا دھیان ان کی حالت پر پڑے۔
(مضمون نگار سماجی کارکن ہیں اور جھارکھنڈ میں رائٹ ٹو فوڈ مہم سے وابستہ ہیں۔)
The post
جھارکھنڈ: کیوں سرکاری اسکیموں کے باوجود قبائلیوں کو کھانے کی قلت سے دوچار ہونا پڑتا ہے appeared first on
The Wire - Urdu.