مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن یو ایس سی آئی آر ایف نےگزشتہ21 جون کو جاری کی گئی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان میں 2018 میں گائے کے کاروبار یا گئو کشی کی افواہ پر اقلیتی کمیونٹی، خاص طو رپر، مسلمانوں کے خلاف انتہاپسند ہندو گروہوں نے تشدد کیا ہے۔
نئی دہلی :یوایس سی آئی آر ایف (United States Commission on International Religious Freedom)نے جھارکھنڈ میں مسلم نوجوان کی ماب لنچنگ کی سخت لفظوں میں مذمت کی اور حکومت سے اس طرح کے تشدد اور ڈر کے ماحول کو روکنے کے لئے ٹھوس کارروائی کرنے کی گزارش کی۔جھارکھنڈ کے سرائے کیلا کھرسانواں ضلع کے دھاتکیڈیہہ گاؤں میں گزشتہ بدھ کو تبریز انصاری (24) کی بھیڑ نے چوری کے شک میں مبینہ طور پر کھمبے سے باندھکر ڈنڈوں سے پٹائی کر دی تھی۔ ایک ویڈیو میں اس کو مبینہ طور پر ‘جئے شری رام ‘ اور ‘جئے ہنومان ‘کے نعرے لگانے کے لئے مجبور کیا جا رہا تھا۔ سنیچر کو اس کی موت ہو گئی تھی۔
امریکی کمیشن کے صدر ٹونی پرکنس نے کہا، ‘ ہم بےرحمی سے کیے گئے اس قتل کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہیں جس میں مجرموں نے مبینہ طور پر انصاری کی گھنٹوں پٹائی کرتے ہوئے اس کو ہندوتوادی نعرے لگانے کے لئے مجبور کیا۔ ‘ٹونی نے کہا،’ہم حکومت ہند سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ انصاری کے قتل کی جانچ کے ساتھ ہی اس معاملے کو دیکھ رہی مقامی پولیس کے رول کی بھی جانچکرکے ٹھوس قدم اٹھائے جس سے اس طرح کے تشدد اور ڈر کے ماحول کو روکا جا سکے۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ جوابدہی کی کمی صرف ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرےگی جو مانتے ہیں کہ وہ مذہبی اقلیتوں کو سزا دینے کے لئے ان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ‘
واضح ہو کہ، اس سے پہلے
امریکی کمیشن نے اپنی سرکاری رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان میں گئو کشی کے نام پر تشدد ، ہندو انتہا پسند گروہوں کے ذریعے اقلیتی کمیونٹیز، خاص طورپر مسلمانوں، کے خلاف حملہ سال 2018 میں بھی جاری رہا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ذریعے تیار کی گئی
بین الاقوامی مذہبی آزادی رپورٹ ہر ملک میں مذہبی آزادی کی صورت حال کو پیش کرتی ہے۔ سال 2018 کی اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھا کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ سینئر افسروں نے اقلیتی کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کیے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نومبر 2018 تک ایسے 18 بھیڑ کے ذریعے حملے ہوئے اور سال کے دوران آٹھ لوگ مارے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، ‘ کچھ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق، افسروں نے اکثر مجرموں پر کاروائی ہونے سے بچایا۔ ‘
رپورٹ میں گزشتہ چھ فروری کو لوک سبھا میں ہندوستان کے وزارت داخلہ کے ذریعے پیش اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا تھا۔ جس سے پتہ چلا کہ 2015 سے 2017 کے درمیان فرقہ وارانہ واقعات میں 9 فیصدی کا اضافہ ہوا۔ سال 2017 میں فرقہ وارانہ تشدد کے 822 معاملے سامنے آئے، جس میں 111 لوگوں کی موت ہوئی اور 2384 لوگ زخمی ہو گئے۔رپورٹ میں کہا گیا،’حکومت گئورکشکوں کے ذریعے کئے گئے حملے کو لےکر کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔ ان حملوں میں کئی موتیں ہوئیں، تشدد ہوئے اور دھمکی دینے جیسی چیزیں شامل تھیں۔ ‘
امریکی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ مرکز ی اور ریاستی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے ممبروں نے بھی ایسے قدم اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے مسلم روایتیں اور ادارے متاثر ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا، ‘ ہندوستان کے ایسے شہروں کا نام بدلنے کی تجویز جاری رہی، جن کا نام مسلموں سے جڑا ہوا ہے۔ خاص طورپر الٰہ آباد کا نام بدلکر پریاگ راج رکھا گیا۔ ‘رپورٹ کے مطابق، ‘ کارکنان نے کہا کہ یہ تجویز ہندوستانی تاریخ میں مسلمانوں کی خدمات کو مٹانے کے لئے تیار کئے گئے تھے اور اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ ‘
رپورٹ میں راجستھان کے الور میں
اکبر خان کا قتل اور
بلندشہر میں گئو کشی کی افواہ کو لےکرہوئے تشدد کا ذکر کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘ روایت اور سماجی روایت کی وجہ سے خواتین اور دلت کمیونٹی کے لوگوں کو مذہبی مقامات میں داخل ہونے سے منع کرنے کی روایت جاری ہے۔ ‘حالانکہ ہندوستان نے امریکہ کی اس رپورٹ کو خارج کر دیا تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہندوستان کو اپنے سیکولرزم کی غیرجانب داری پر اعتماد، سب سے بڑی جمہوریت اور لمبے عرصے سے چلے آ رہی رواداری اور مشترکہ سماج پر فخر ہے۔
رویش کمار نے کہا تھا کہ ہندوستان کا آئین اقلیتوں سمیت اپنے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے۔ اس بات کو ہرکہیں اہمیت دی گئی ہے کہ ہندوستان ایک زندہ جمہوریت ہے جہاں آئین مذہبی آزادی کے حق اور جمہوری حکومت اور ملک کا قانون بنیادی حقوق کا تحفظ اور فروغ دیتا ہے۔رویش کمار نے کہا تھا کہ ایک غیر ملکی ادارہ کے ذریعے ہمارے شہریوں کے آئین سے تحفظ حاصل حقوق کی حالت پر تبصرہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)